ایم اے کنول جعفری
سورت ضلع عدالت کے چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ ایچ ایچ ورما کے ذ ریعہ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کے خلاف دائر ہتک عزت معاملے میں دو برس قید کی سزا اور15ہزار روپے کا جرمانہ عائدکرنے کے ساتھ اُن کی پارلیمانی رکنیت ختم کردی گئی۔اس سے نہ صرف سیاسی ماحول میںطوفان آگیا ہے،بلکہ حزب اختلاف بھی ایک پلیٹ فارم پرآ کھڑا ہوا۔اَب گیند کانگریس کے پالے میں ہے اور اُسے طے کرنا ہے کہ وہ اِسے کس طرح کھیلتی ہے؟ کانگریس کے سامنے حمایت میں آئے غیر بی جے پی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے اور اگلے برس ہونے والے عام الیکشن تک اس آگ کو برقرار رکھنے کا بڑا چیلنج ہے۔دقت یہ ہے کہ سزا اور رکنیت ختم ہونے سے راہل گاندھی کا سیاسی قد کافی بڑا ہوگیا ہے۔معاملے کی گونج ملک کے باہر بھی سنائی دے رہی ہے۔ اخبارات میں اس معاملے کو پہلے صفحہ پر جگہ دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ راہل گاندھی نے 2019 کی انتخابی مہم کے دوران کرناٹک کے کولارمیں منعقد ریلی میں کہا تھا کہ سبھی چوروں کے سر نیم مودی کیوں ہیں؟
بی جے پی رکن اسمبلی اورگجرات کے سابق وزیرپورنیش مودی نے مذکورہ بیان پر سخت اعتراض کرتے ہوئے اسے پسماندہ طبقات( مودی برادری) کے لوگوں کی توہین و تضحیک اور بدنامی بتاتے ہوئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اکتوبر2021میں سورت کی ضلع عدالت کے ذریعہ تعزیرات ہند کی دفعہ 499 اور 500کے تحت راہل گاندھی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔سماعت کے دوران راہل گاندھی تین مرتبہ عدالت میں حاضر ہوئے۔17مارچ کو فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا اور 23مارچ کو راہل گاندھی کو مجرمانہ ہتک عزت کا قصوروار ٹھہراتے ہوئے سزا سنائی۔ عدالت نے فوری طور پر ضمانت دیتے ہوئے راہل گاندھی کی سزا کو ملتوی کر دیا۔عدالت نے قانونی اعتبار سے قصوروار راہل گاندھی کو 30روز کے اندر فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کرنے کی اجازت دی۔
24مارچ کو پارلیمانی سکریٹریٹ نے عدالت کے فیصلے کے پیش نظر آئین کے آرٹیکل102(-1ای) کے تحت راہل گاندھی کی رکنیت منسوخ کردی۔یہ صرف رکنیت ختم ہونے کا معاملہ نہیں ہے۔ ہتک عزت معاملے میں دو برس قیدکے بعد چھ برس تک الیکشن لڑنے پر پابندی عائد ہو جاتی ہے۔ ان کے خلاف 2014 میں آر ایس ایس کے ذریعہ مہاتما گاندھی کے قتل،2016میں آسام کے گوہاٹی میں آر ایس ایس کی شبیہ کے نقصان، 2018 میں رانچی میں ’مودی چور ہے‘ کہنے اور ا سی برس مجھ گاؤں واقع شوڑی کورٹ میں گوری شنکر قتل کو آر ایس ایس کے نظریات سے جوڑنے جیسے آئی پی سی کی دفعہ 499 اور500کے تحت کئی دیگر معاملے درج ہیں۔ اگر سبھی میں ایسے ہی فیصلے آئے تو راہل گاندھی کا سیاسی سفر اور زندگی متاثر ہونے کے قوی امکان ہیں۔عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 سیکشن8(3)کے مطابق اگر پارلیمنٹ کا کوئی ممبر کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے اور اسے کم سے کم دوبرس قید کی سزا ہو جاتی ہے تووہ نااہلی کاذمہ دار ہوجاتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 499کے تحت مجرمانہ ہتک عزت مقدمے میں دو سال کی سزا انتہائی نایاب ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ راہل گاندھی جس سزا کے مرتکب ہوئے ہیں،اسے برقرار رکھنے کے لیے راہل گاندھی ہی ذمہ دار ہیں۔10جولائی2013کو عدالت عظمیٰ نے للی تھامس بنام بھارت سرکارمعاملے میں تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے عوامی نمائندگی قانون 1951کی دفعہ8(4) کو غیر قانونی قرار دے کر ردکر دیا تھا۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اگر پارلیمنٹ یا اسمبلی کے ممبر یا ایم ایل سی کو کسی مجرمانہ معاملے میں دو برس یا اس سے زیادہ کی سزا ہوتی ہے،تو فوری اثر سے اس کی رکنیت ختم ہوجائے گی۔ وہ سزا کی مدت پوری ہونے کے بعد اگلے چھ برس تک انتخاب نہیں لڑ سکے گا۔اُسے ووٹ دینے کا حق بھی نہیں ہوگا۔ اس سے قبل قصوروار ممبروں کی رکنیت فوری طور پر ختم نہیں ہوتی تھی۔ سزا کے اعلان کے تین مہینے کے اندراعلیٰ عدالت میں اپیل کے بعد فیصلہ آنے تک رکنیت برقرار رہتی تھی۔ اعلیٰ عدالت سے سزا برقرار رہنے کی صورت میں عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کرنے سے رکنیت نہیں جاتی تھی۔سپریم کورٹ کے ذریعہ بھی سزا برقرار رکھنے کے بعدریویو پٹیشن زیرالتوا ہونے تک رکنیت باقی رہتی تھی لیکن اَب نچلی عدالت سے سزا کا اعلان کرتے ہی رکنیت ختم ہوجاتی ہے۔ڈاکٹر منموہن سنگھ سرکار نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو آرڈیننس کے ذریعہ تبدیل کرنے کی کوشش کی تو 24 ستمبر 2013کو راہل گاندھی نے ہی آرڈیننس کو بکواس بتاتے ہوئے اسے پھاڑ کر پھینک دیا تھا۔اس کے بعد آرڈیننس واپس لے لیا گیا۔ اگر راہل گاندھی آرڈیننس کی مخالفت نہ کرتے اور من موہن سنگھ سرکار سپریم کورٹ کے فیصلے کو بدلنے میں کامیاب ہوجاتی تو صورت حال کچھ اور ہوتی۔
عوامی نمائندے کی سزا کے بعد رکنیت ختم ہونے کا یہ پہلا معاملہ نہیں ہے۔اس سے قبل1951میں کانگریس لیڈر ایچ جی مدگل پر پارلیمنٹ میں پیسے لے کر سوال پوچھنے، 1976میں ایمرجنسی کے دوران جن سنگھ کے رہنما اور ایوان بالا کے رکن پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی کے ملک مخالف پروپیگنڈے میں شامل ہونے، 1978 میں سابق وزیراعظم اندرا گاندھی پر استحقاق کی خلاف ورزی اور توہین، کام کاج میںرُکاوٹ، افسران کو دھمکانے، استحصال اور جھوٹے مقدموں میں پھنسانے، 2005میں ایک ٹی وی چینل کے اسٹنگ آپریشن میں کئی جماعتوں کے 11 اراکین کوپارلیمنٹ میں سوال پوچھنے کے لیے پیسے لیتے نظر آنے، 2013 میں چارہ بدعنوانی معاملے میں لالو پرساد یادو کو عدالت کے ذریعہ پانچ سال قیدکی سزا ہونے، کانگریس کے ایوان بالا میں ایم پی قاضی رشید مسعود کو ایم بی بی ایس سیٹ بدعنوانی معاملے میںقصوروارپانے،ہمیر پور سے بی جے پی کے ایم ایل اے اشوک کمار چندیل کو قتل کے معاملے میں19اپریل2019کو عمر قید کی سزا ہونے، بانگر مئو سے ایم ایل اے کلدیپ سینگر کو20دسمبر 2019 کو اناؤ میں نابالغ سے مجموعی زنا معاملے میں سزا ہونے اور رام پور کے سماج وادی پارٹی کے عمر عبداﷲ اعظم کو15برس پرانے معاملے میں دو برس کی سزاہونے سے رکنیت ختم ہوگئی۔ اعظم خاں کو بھی اسی طرح کی سزا کا سامنا کرنا پڑا۔
راہل گاندھی کی رکنیت ختم ہونے سے گرمائی سیاست کا اثر پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کے باہر صاف دکھائی دے رہا ہے۔پارلیمانی الیکشن میں ابھی ایک برس کا وقت باقی ہے۔ابھی تک غیر بی جے پی جماعتیں کانگریس کو حزب اختلاف کی قیادت سونپنے میں دائیں بائیں ہوتی نظر آرہی تھیں،لیکن راہل گاندھی کی رکنیت ختم ہونے کے بعد کانگریس کوغیر بی جے پی پارٹیوں کی زبردست حمایت مل رہی ہے۔ کانگریس اِس قیمتی موقع کو گنوانا نہیں چاہے گی، لیکن کیا کانگریس اس موقع کا سیاسی فائدہ اُٹھانے کی قابلیت رکھتی ہے؟ اگر ہاں تو اُسے شردپوار، اروند کجریوال، ممتابنرجی، کے چندرشیکھرراؤ، چندر بابو نائیڈو،نتیش کمار، اکھلیش یادو، سیتارام یچوری، ایم کے اسٹالن، اُدھو ٹھاکرے، فاروق عبداﷲ،لالو پرساد یادو اور محبوبہ مفتی وغیرہ تمام لیڈران کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔اتنا ہی نہیں اُسے ’بھارت جوڑو یاترا‘ میں شامل ہونے والی غیر سیاسی و سیاسی سول سوسائٹیوں کو بھی اپنے ساتھ جوڑنا ہوگا۔اگر کانگریس آپسی اختلافات کو پس پُشت ڈال کر سب کو ایک اسٹیج پر موجود رکھنے میں کامیاب ہوجاتی ہے اور حزب اختلاف بھی دل سے موجودہ نظام کو تبدیل کرنا چاہتا ہے تو سب کو متحد ہونا ہی ہوگا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]