شاہنواز احمد صدیقی
غزہ پراسرائیل کی بربریت آمیز حملہ اور فوجی کارروائی کے دوران روس کے صدر ولادیمیر پتن کے دورہ سعودی عرب اور یواے ای نے مغرب کے مبصرین کو ششدر کردیا ہے۔ یہ دورہ کئی معنوں میں معنی خیز ہے۔ اس سے سب سے اہم پیغام یہ جاتاہے کہ عرب ممالک خاص طور پر طاقتور سعودی عرب اور یواے ای ایک آزادانہ اور خودمختار اور کافی حد تک غیرجانبدار خارجہ اور اقتصادی حکمت عملی اختیار کررہے ہیں۔ اور ان کے سامنے اپنے خطوں اور عوام کا مفاد اور فلاح وبہبود ہے نہ کہ وہ کسی خطے یا ممالک کا دم چھلہ ہیں۔
یوکرین جنگ کے بعد سعودی عرب نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے،اس کا اثرعالمی سیاست پربالکل واضح طور پر نظرآرہاہے۔ سعودی عرب کی طرح قطر اور یواے ای بھی بالکل آزادانہ حکمت عملی کے ساتھ مسلم اور عرب اور سب سے اہم بات خطے کے مفادات کودیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ جدہ میں ہونے والے عرب اور مسلم ملکوں کے چوٹی اجلاس میں امریکہ اور اس کے پروردہ اسرائیل کی فلسطینی عوام کے تئیں بے حسی اور بے دردی پرغور ہوا اور غزہ پر اسرائیل کی بربریت کی مذمت کی گئی۔ اس وقت سعودی عرب، یواے ای اور بحرین نے پیٹرولیم مصنوعات اور دیگر معدنیات کی سپلائی دشمن امن کورک دینے کے فیصلہ پر اختلاف ظاہر کیا مگر چندروز قبل غزہ پر لگاتار بربریت برپا کرنے کی اوپیک ممالک نے بالکل نئی حکمت عملی کااشارہ دیا اور یہ باور کرایا کہ اوپیک کے ممبرممالک پیٹرولیم کی پیدوار کو کم کرنے پرغورکرسکتے ہیں۔ اگر ایساہوا تو اس کا اثر عالمی معیشت پرپڑے گا اور مغربی ممالک سمیت تمام عالم پرکساد بازاری کے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اوپیک ممالک پر سعودی عرب کا کافی اثر ورسوخ ہے اور سعودی عرب کی حکمت عملی عالمی سطح پرپیٹرولیم مصنوعات اور پیٹرولیم پیدا کرنے والے ممالک پر گہرا اثرڈالتی ہے۔ سعودی عرب کا رول قائدانہ ہے اور مملکت کی حکمت عملی خطے کے تمام ممالک پر اثرانداز ہوتی ہے۔ سعودی عرب نے ایران کے ساتھ روابط بحال کرکے اس پورے خطے کی اہمیت اور وزن کو بڑھا دیا ہے۔ دونوں ممالک میں تعلقات کی بحالی کے بعد خطے کے تمام عرب ممالک نے ایران اور اس کے حلیف ممالک کے ساتھ روابط استوار کرلیے اور پورے خطے کے دونوں بلاکوں کے درمیان کشیدگی کم ہوئی اور قربتیں بڑھیں۔ ایران اورسعودی عرب نے چین کی مصالحت سے بڑے گلے شکوے دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان اظہارصلہ رحمی کااثر یہ ہوا کہ دومکاتب فکر میں امت مسلمہ کوبانٹنے اور ان کو لڑانے اورباہم برسرپیکار کرنے کی سازشیں ناکام ہوئیں۔ ورنہ امریکی صدر جوبائیڈن نے جی سی سی ممالک کے سربراہ اجلاس کے دوران جب اسرائیل اور فلسطین کا دورہ کیا تواسرائیل کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں ایران کے نیوکلیئر توانائی کے حصول کی کوششوں اوراس کے خطرات پرگفتگوہوئی۔ جوبائیڈن نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمودعباس کی اپیل کونظرانداز کردیا جس کے تحت انھوںنے آزاد فلسطینی مملکت کے قیام کی بات کہی تھی۔
اس وقت پورامغربی ایشیا بدترین بحران سے گزر رہاہے اور مغربی ممالک کومعصوم مظلوم فلسطینیوں کی جانوں کے اتلاف کی بالکل فکرنہیں ۔زائد از دوماہ سے جاری اسرائیل کی بربریت کی امریکہ اوراس کے حواریوں کوبالکل فکر نہیں۔ مغربی طاقتیں وہ ہیں جودنیا بھر میں انسانی حقوق، مذہبی رواداری، حقوق اطفال، حقوق نسواں، اظہارخیال اور میڈیا کی آزادی اورجمہوری اقدار کی بالادستی کی رٹ لگاتی رہتی ہیں۔
مگرفلسطین میں معصوم بچوں کی ہلاکت، عورتوںکی ناقدری اور میڈیا اور صحافیوںپرحملوں پرلب کشائی نہیں کرتے ہیں۔ مغربی ممالک کایہی دوہرا رویہ ان کی بے حسی اورجانبدارانہ روش کی طرف اشارہ کرتا ہے اور مسلم ممالک مغرب سے بددل ہوئے ہیں۔ اسی لیے سعودی عرب نے روس اور چین کے ساتھ تعلقات اورتال میل کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے۔ چین نے سعودی عرب میں اپنی دلچسپی اور تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں بڑھائی ہیں۔ سعودی عرب سے تیل زیادہ مقدارمیں خرید رہا ہے اور بڑے پیمانے پر سعودی عرب میں سرمایہ کاری کررہاہے۔ چین کے ٹیلی مواصلاتی اداروں نے سعودی عرب میں غیرمعمولی سرمایہ کاری کی ہے۔ چین کی کمپنی ہوائی (Huawai)کی سرمایہ کاری 16بلین امریکی ڈالر ہوگئی ہے۔ دونوں ممالک اپنی اپنی کرنسیوںمیں کاروبار کررہے ہیں جس سے امریکی ڈالرکی اہمیت کم ہونالازمی ہے۔
دونوں ممالک کااپنی اپنی کرنسیوں میں تبادلہ کم ازکم 7بلین امریکی ڈالرکے مساوی ہے۔ دونوں کے درمیان لین دین کاحجم 26بلین سعودی ریال یا50بلین چینی یان ہے۔ سعودی عرب اورچین ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیںاوریہی اعتماد دونوں عظیم ممالک میں تعاون کولگاتار فروغ دے رہاہے۔
سعودی عرب کی قیادت میں عرب لیگ اور او آئی سی ممالک غزہ پر اسرائیل کی جارحیت کورکنے کے لیے مختلف ممالک اور خطوں کے بااثر لیڈروں سے مل رہے ہیں اور دونوں فریقوں میں جنگ بندی کی کوشش کررہے ہیں۔n
مغرب سے کیوں بڑھ رہی ہے خلیج: شاہنواز احمد صدیقی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS