نئی دہلی :تقریباً 100 برس قبل جرمن ماہرِ نفسیات،ہرمن ایبنگہاس نے اپنی معرکتہ آلارا کتاب میں ’وقفے کے اثرات‘(اسپیسنگ افیکٹ) کی تفصیل دی تھی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ سیکھنے اور پڑھنے کے عمل میں طویل وقفہ لیا جائے تو اس سے یادداشت اچھی ہوتی ہے اور سیکھنے کا عمل بہتر ہوتا ہے۔ اب اسی بات کے مزید سائنسی ثبوت بھی ملے ہیں۔ اس ضمن میں جرمنی کے میکس پلانک انسٹٰی ٹیوٹ سے وابستہ ماہرین نے چوہوں کے دماغ پر بعض تجربات کئے ہیں جن میں روزمرہ زندگی کے یادداشتی تجربات شامل تھے۔ انہوں نے بھول بھلیوں میں چاکلیٹ رکھی اور اس کے تین مواقع فراہم کئے تاکہ وہ اپنا انعام حاصل کرسکیں۔ چاکلیٹ کی تین مرتبہ تلاش کے دوران چوہوں کو راہ سے واقفیت دی گئی اورانہیں سکھانے کے عمل میں مختلف مدتوں کی چھٹی دی گئی۔ جن چوہوں کو زیادہ دیر چھٹی دی گئی تھی انہوں نے چاکلیٹ کی جگہ کو بہتر طور پر یاد رکھا۔ تحقیق میں شامل سائنسداں اینٹ گلاس نے کہا کہ جن چوہوں کو پہلے دن تدریس کے دوران طویل وقفہ دیا گیا تو وہ چاکلیٹ نہ پہچان سکے لیکن اگلے دن انہوں نے بہترین کارکردگی دکھائی اور بھول بھلیوں کو عبور کرتے ہوئے سب سے پہلے چاکلیٹ تک پہنچے۔
اگلے دن چوہوں کو سیکھنے کے دوران جتنے طویل وقفے ملے ان کی یادداشت اتنی ہی تیز دیکھی گئی۔ اس کے بعد سائنس سے مدد لی گئی اور دماغ کے اس گوشے (ڈورسل میڈیئل پری فرنٹل کارٹیکس) کا اسکین لیا گیا جو سیکھنے کے عمل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس طرح تمام چوہوں کے دماغ کا جائزہ لیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وقفہ لینے سے بھولنے کا عمل نہیں بڑھتا بلکہ دماغی خلیات نیورون کا وہ پیٹرن برقرار رہتا ہے جو سیکھنے کے عمل میں ترتیب پاتا ہے۔ اس طرح ماہرین کا مشورہ ہے کہ پڑھنے اور سیکھنے کے عمل کے دوران وقفہ یا چھٹی لینے سے دماغ کا یادداشتی حصہ مؤثر اور مضبوط رہتا ہے۔ لیکن اس وقفے کی مدت کتنی ہے اس کی تفصیل بتاتے ہوئے ماہرین کہتے ہیں کہ پڑھائی کے دوران 30 سے 60 منٹ کا وقفہ دیا جانا چاہیئے اور اسی مدت کے بہترین اثرات سامنے آتے ہیں۔ لیکن اس سے کم یا زیادہ دورانئے سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔
کیوں پڑھائی کے دوران 30 سے 60 منٹ کا وقفہ لینا چاہیئے؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS