خواجہ عبدالمنتقم
ہر دن کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے اور اسے کبھی خوشی کے حوالے سے، کبھی کسی غم کے حوالے سے تو کبھی دونوں کے امتزاج کے حوالے سے تو کبھی کسی حصولیابی تو کبھی کسی ناکامی کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ آج 22 فروری ہے یعنی امریکہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹن کا یوم پیدائش اور مولانا مولاناابوالکلام آزاد کا یوم وفات۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دونوں عظیم شخصیات ہمیں کیوں یاد آرہی ہیں؟ جارج واشنگٹن اس لیے یاد آرہے ہیں کہ اگر وہ زندہ ہوتے(جو ناممکن ہے) تو وہ صرف اخلاقی، سفارتی یا جمہوری بنیاد پر ہی نہیںبلکہ اپنے عسکری اورسپا ہیانہ تجربہ کی بنیاد پر اپنے موجودہ سیاسی جانشین صدر بائیڈن کو صدق دلی سے یہ دانشمندانہ مشورہ دیتے کہ ’ وہ روس-یوکرین جنگ اور اسرائیل- حماس جنگ کو ختم کرانے کے لیے مثبت وصحت مند سفارتکاری وسیاستدانی کے اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہو ئے محض مطلب براری، موقع شناسی اور جوڑتوڑ کی خارجہ پالیسی اختیار کرنے کی بجائے ان ممالک کو ماضی کی تلخیوں کو بھلاکر مستقبل قریب میں ایک پائیدار دوستی کی بنیاد ڈا لیں۔ وہ اسرائیل اور یوکرین کو مزید فوجی امداد دینے کے بجائے صدق دلی سے نہ کہ ویٹو پاور استعمال کرکے یہ کوشش کریں کہ فریقین اقوام متحدہ کی تجاویز اوربین الاقوامی عدالت کے فیصلے کی تعمیل کریں۔ حیرت ہے کہ وہ اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔کیا امریکہ اور روس جیسی طاقتوں کو اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے؟‘ دونوں ممالک کی اس میدان میں سرداری برابر قائم رہی ہے۔کبھی کبھی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اتنی سمجھدار قوموں کے نمائندے صرف اپنی انا اور احساس برتری کو برقرار رکھنے کے لیے ایسے فیصلے کیوں کرتے ہیں جن کے نتائج میں ہزاروں لوگوں کو اپنی جانیں گنوانی پڑتی ہیں اور اربوں روپے کا مالی نقصان ہوتاہے اور پوری دنیا کی معیشت پر ان کے منافی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔خدا انہیں کسی طوفاں سے آشنا کردے اور یہ راہ مستقیم اختیار کریں جس سے دیگر ممالک کو بھی راہ پر گامزن ہونے کی ترغیب ملے۔
آج مولانا آزاد کا یوم وفات ہے۔ ہمیں مولانا آزاد کے تقسیم کے فوراً بعد دہلی کی جامع مسجد کے منبرسے کیے گئے تاریخی خطاب کا یہ حصہ یاد آرہا ہے:
میرے عزیزو! آپ جانتے ہیں کہ وہ کون سی چیز ہے، جو مجھے یہاں لے آئی ہے۔ میرے لیے شاہجہاں کی اس یادگار مسجد میں یہ اجتماع کوئی نئی بات نہیں ہے۔ میں نے اس زمانہ میں جس پر لیل ونہار کی بہت سی گردشیں بیت چکی ہیں، تمہیں یہیں سے خطاب کیا تھا۔ جب تمہارے چہروں پر اضمحلال کی بجائے اطمینان تھا۔۔۔ جن سہاروں پر تمہیں بھروسہ تھا وہ تمہیں لاوارث سمجھ کر تقدیر کے حوالے کرگئے۔۔۔ جو ہونے والا ہے اس کو کوئی قوم اپنی نحوست سے روک نہیں سکتی۔۔۔ آج ہندوستان کا جھنڈا اپنے پورے شکوہ سے لہرا رہا ہے۔۔۔ یہ ٹھیک ہے کہ وقت نے تمہاری خواہشوں کے مطابق انگڑائی نہیں لی۔۔۔ یہی وہ انقلاب ہے جس کی ایک کروٹ نے تمہیں بہت حد تک خوفزدہ کردیا ہے۔۔۔ پچھلے سات برس کی روداد دہرانے سے کوئی فائدہ نہیں۔۔۔ یہ فرار کی زندگی جو تم نے ہجرت کے مقدس نام پر اختیار کی ہے اس پر غور کرو، اپنے دلوں کو مضبوط بناؤ اور اپنے دماغوں کو سوچنے کی عادت ڈالو اور پھر دیکھو تمہارے یہ فیصلے کتنے عاجلانہ ہیں۔ آخر کہاں جارہے ہو اور کیوں جارہے ہو؟
مولانا آزاد کے اس خطاب سے بے حد متاثر ہوکر ہندوستانی مسلمانوں نے ہندوستان میں جینے اور مرنے اور ہجرت نہ کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا اس پرانہیں کوئی افسوس نہیں ہونا چاہیے اور نہ اظہار ندامت چونکہ بقول مولانا آزادہم نے لیل و نہار کی بہت سی گردشیں دیکھی ہیں۔ہمیں اپنے بہتر مستقبل کے لیے خود آگے بڑھنا ہوگا، حکومتوں سے اپنا حق مانگنا ہوگا، حکومتوں کی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کے لیے آگے آنا ہوگا، تعلیم کے میدان میں مثبت پیش رفت کرنی ہوگی اور اپنے غیرمسلم بھائیوں کا دل جیتنا ہوگا۔ محبت کا جواب تو محبت سے دیا ہی جاتا ہے مگر ہمیں اپنی قوت برداشت وصبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے نفرت کا جواب بھی محبت سے دینا ہوگا۔ ہاں کسی زیادتی کے خلاف پرامن احتجاج کرنے کا آئینی حق ہمیشہ حاصل رہے گا۔ مولانا آزاد تکثیری معاشرے اور ہندو-مسلم اتحاد کے صرف حامی یا علمبردار ہی نہیں تھے بلکہ پیروکار بھی تھے۔ وہ دوقومی نظریے کے خلاف تھے اور وہ ملک کے تمام باشندوں کو ایک قوم مانتے تھے۔اگر وہ زندہ ہوتے یا ان کے سیاسی ساتھیوں کے جا نشین قبل از تقسیم کیے گئے وعدوں پر ایمانداری سے عمل کرتے اورمعروضی فکر کی بنیاد پر صحیح فیصلے لیتے تو بہت سے حساس اور جذباتی تنازعات کا کوئی نہ کوئی حل ضرورنکل آتا۔ نہ عبادت گاہیں ٹوٹتیں، نہ پتھر بازی ہوتی اور نہ گولیاں چلتیں۔ نہ گھر اجڑتے اور نہ لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑتی۔ انہوں نے رام گڑھ میں متحد ہندوستان اور غیرمنقسم قوم کی بات کرتے ہوئے اور مسلمانوں کی بڑی تعداد کا حوالہ دیتے ہوئے سوالیہ انداز میں یہ بھی کہا تھا کہ کیا انسانوں کے اتنے بڑے ہجوم (ہندوستانی مسلمان) کے دل میں ایسا خدشہ پیدا ہونے کی کوئی معقول وجہ ہوسکتی ہے کہ آزاد اور جمہوری ہندوستان میں وہ اپنے حقوق اور مفادات کی حفاظت نہ کرسکیں یا بہ الفاظ دیگر انہیں اس طرح کا تحفظ نہ فراہم کیا جائے۔
اس کی حقیقت جاننے کے لیے خود وضاحتی سچر کمیٹی کی رپورٹ ملاحظہ کیجیے۔ کاش آج مولانا آزاد زندہ ہو تے اور مسلمانوں کی زبوں حالی اور زندگی کے ہرشعبہ میں ان کی دلتوںسے بھی زیادہ پسماندگی کو بچشم خود دیکھتے۔
آئیے ہم بھارت کے عوام ان شخصیتوں کے، جنہیں ہندوستان کی جنگ آزادی اور ملک کے صدسالہ سیاسی منظرنامے میں حیثیت سربفلک حاصل ہے، اقوال زرّیں کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے پھر ایک بار عہد کریں کہ ہم ملک کے تمام شہریوں کی تعلیمی، سیاسی ومعاشی حیثیت میں مساوات کو یقینی بنانے کے لیے ہر طرح کوشاں ہوںگے اور کوشاں رہیںگے اوراس ہدف کو پورا کرنے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیںگے۔ بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے میں ہمیں یہ امید رکھنی چاہیے کہ2024 کے عام انتخابات کے بعد جو بھی جماعت یا جماعتیںبرسر اقتدارآئیں، وہ سب کو ہر شعبۂ حیات میں معقول مواقع فراہم کرائیں۔ اس سے نہ صرف تمام طبقات خوش رہیں گے بلکہ جو بھی حکومت آئے گی، اسے سالہا سال مزید استحکام حاصل ہوتا رہے گا اور اور جس محبت سے قطر سے رواداری کا پیغام آرہا ہے، اس سے بہتر پیغامات ہمارے ملک سے جاتے رہیں چونکہ ہم تو ایک ایسی جمہوری مملکت ہیں جہاں سب کو بغیر کسی امتیاز کے مساوی حقوق حاصل ہیں۔ ویسے بھی ہم اس ملک کے شہری اور باشندے ہیں جس کے بارے میں ہمارے پیغمبر محمد مصطفیؐ نے کہا تھا کہ میں یہ محسوں کر رہا ہوں کہ جیسے ہندوستان سے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے تو کیوں نہ ایسی ٹھنڈی ہوائیں ہمارے ملک میں آتی رہیں اور یہاں سے اور بھی زیادہ ٹھنڈی ہوائیں صرف ان ممالک تک نہیں جن سے ہمارے مفادات وابستہ ہیں بلکہ دنیا کے ہر کونے تک جائیں تبھی یہ بھارت گاندھی جی، مولانا آزاد اور ساتھ ہی اے پی جے عبدالکلام کے سپنوں کا بھارت ہوگا۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]