افریقہ ہی نہیں بلکہ دنیابھر میں جہاں جہاں ان یوروپی امریکی طاقتوں کا اثرورسوخ رہاہے، وہاں مقامی سطح پر فروغ پانے والے مسلح گروپ، مزاحمتی تحریکیں اٹھنے لگی ہیں اور سامراجی طاقتوں کے خلاف برسرپیکار ہوتی ہیں۔ یہ صورت حال لاطینی ممالک، ایشیا اور مغربی ایشیا میں بطور خاص مطالعہ میں آئی ہے۔ کئی بغاوتوں کو خارجی طاقتوں نے شہ دی۔ کئی ملکوں میں تو اقتدارمیں موجود حکومتوں اور خاص مکتب فکر کی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے بھی خارجی مداخلت ہوئی ہے اس میں افریقہ میں فرانس کا رول قابل ذکر رہاہے۔ اس کی تازہ ترین مثال برکینافاسو ہے جہاں معزول لیفٹیننٹ کرنل ڈامبیکافوجی ڈکٹیٹر کو برقرار رکھنے کی فرانس نے بہت کوشش کی مگر موجودہ فوجی حکمراں جنرل کیپٹن ابراہیم ٹرارو اب نائیجیریا میں معزول صدر محمدبازوم کو بچانے کے لیے فرانس نے ایڑی چوٹی کا زور لگادیاہے۔اس کے علاوہ ترکی میں بھی مغربی طاقتوں نے یہ کھیل کھیلا ترکی میں فوج اور دیگر اعلیٰ آئینی اداروں پر کنٹرول کرکے کئی مرتبہ منتخب حکومتوں کو گرایا گیا، فوج اور عدلیہ اور دانشور کو آگے کرکے مذہب پسندوں کو حاشیہ پر رکھا گیا۔ ترکی کے موجودہ صدر طیب اردگان نے خارجی مداخلت کا بھرپور مقابلہ کیا۔ انتخابات کے بعد بھی منتخب حکومتوں کے خلاف پروپیگنڈہ فوجی بغاوتوں سے ترکی کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ اصل میں ترکی فوج پر ناٹو کا ممبر ہونے کی وجہ سے اہل مغرب اور ناٹو ممالک کی بڑی نوازشیں رہی ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس جیسی طاقتوں کے ساتھ ٹریننگ حاصل کرنے والے فوجی اور ان کے سربراہان کا ان ملکوں کے فوجی اور خفیہ کل پرزوں سے میل ملاپ عام بات تھی اوراس اثر ورسوخ کو استعمال کرکے ترکی میں کئی مرتبہ اقتدار پلٹنے کی کوشش کی گئی۔اسی طرح افریقہ میں چاڈ کے موجودہ حکمراں اور ان کے والد ادریس فوجی عہدوں پر بھی متمکن رہے اور سیاسی عہدوں پر فائز رہے۔ مغربی ممالک کو یہ اس لیے قابل قبول رہے کہ انھوںنے ان خارجی طاقتوں کی ’لوٹ کھسوٹ‘ پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔اس وقت افریقہ کے کئی ملکوں میں خانہ جنگی ، خارجی فوجی مداخلت، عدم استحکام ہے،ان میں لیبیا، برکینافاسو، چاڈ، ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو (ڈی آرسی)، آئیویری کوسٹ، نائیجر، سوڈان، مالے، سوڈان وغیرہ قابل ذکر ہیں۔چاڈ میں والد ادریس کے انتقال کے بعد بیٹا ادریس سیاسی اور فوجی عہدوںپرفائز ہے اور وہاں انتخابات کرانے کے لیے ٹرانزیشنل (Transitional)حکومت ادریس کی قیادت میں کام کررہی ہے۔ موجودہ حکومت عبوری حکومت ہے اور وہاں انتخابات کب ہوں گے اور کیسے ہوں گے، اس پر کوئی بات نہیں ہوتی کیونکہ ادریسی خاندان فرانس کا منظورنظر ہے اور اکوسی کا اہم ملک ہے۔ فرانس یا امریکہ کو اس بات کی زیادہ فکر نہیں ہے کہ وہاں جمہوریت ہے، عارضی یا عبوری حکومت ہے یا فوجی ڈکٹیٹرشپ، حاکم کوئی بھی ہو مگر وہ مغربی طاقتوں کا منظور نظر ہو۔
سوڈان میں خانہ جنگی دوفوجی سربراہوں کے درمیان بالادستی کی جنگ کا نتیجہ ہے۔ وہاں کئی سال سے جمہوری نظام کے قیام کی تحریک چل رہی تھی۔ سوڈان میں دانشورطبقہ آزادپسند، روشن خیال خواتین کی تحریک اس جدوجہد میں مصروف تھی مگر جنرل برہان اورنیم مسلح فوجی دستوں کے سربراہ کے درمیان رسہ کشی کی وجہ سے یہ جمہوری تحریک دم توڑچکی ہے اور اب یہ دونوں سربراہ ہی ایک دوسرے کو اوراس جنگ کی زد میں آنے والے ہزاروں بے گناہ افراد کی موت، ان کے مصائب اور آلام کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ یہ صورت حال اس قدر خراب ہوگئی ہے کہ شرپسند عناصرخواتین کی آبروریزی سے بھی دریغ نہیں کررہے۔ امریکہ، سوڈان، سعودی عرب اور دیگر کئی غیرجانبدار فریق اس صورت حال کو ختم کرانے کی کوششیں کرچکے ہیں لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہاہے۔ سوڈان میں غیرمعمولی جانی ومالی نقصان ہورہاہے۔
لیبیا میں 2011کے بعد سے جو خانہ جنگی چل رہی ہے، اس سے ہرذی شعور انسان فکرمندہے۔ ایک خوش حال اور مضبوط ملک کو مغربی طاقتوں اور ناٹو نے ایسا تباہ کیا ہے کہ یہ ملک متحد رہ پائے اس کا امکان نہیں رہاہے۔ مشرق اور مغرب کے علاوہ الگ الگ لیڈر، پارلیمان،ادارے، فوجی گروپ، غیرملکی افواج کی موجودگی نے اس عظیم ملک کو شدید ترین بحران سے دوچار کیاہے۔ وہاں کئی عبوری حکومتیں اور اقتصادی ادارے ہیں، فوجوں کے کئی گروپ ایک دوسرے کو برباد کرنے پرآمادہ ہیں۔یہ تمام مسلم فریق ایک دوسرے کے خاتمہ پرآمادہ ہیں۔ اقوام متحدہ،افریقی یونین عرب لیگ جیسے ادارے بالکل غیرموثر ہوچکے ہیں۔n
یوروپی طاقتوں کے خلاف کیوں بڑھ رہی ہے ناراضگی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS