حجاب پر بیان بازی تعلیم پر کیوں نہیں ؟

0

ہمارا ملک جتنا حساس اورلوگ جتنے جذباتی ہیں، سیاسی پارٹیاں اس کا فائدہ اٹھانے میں اتنا ہی آگے ہیں، بلکہ وہ ایسے حالات وموقع کا انتظار کرتی رہتی ہیں اورسیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے تیار بیٹھی رہتی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ کوئی بھی بات چلتی ہے تو دورتک چلی جاتی ہے اورنہ بھی جائے تو لے جانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اسکارف وحجاب ہی کے مسئلہ کو لیجئے۔ کل تک یہ کوئی مسئلہ نہیں تھا۔پہننے والی پہنتی تھیں ، دوسروں کو اعتراض نہیں ہوتا تھا۔ دوسرے طلبا وطالبات تو اس بارے میں سوچتے ہی نہیں تھے،سوچیں بھی کیوں جب اس کا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔لیکن پہلے اسے مسئلہ پھر سیاسی وانتخابی ایشو بنایا گیا۔ ظاہر سی بات ہے کہ جن لوگوں نے بھی بنایا، ان کی نیت صحیح نہیں ہوگی۔ تب ہی تو دوسرے طلباوطالبات کو اس کے خلاف ورغلاکر سڑکوں پر اتارا گیا، ماحول اس قدر خراب کردیا گیا کہ کوروناکے بعد کرناٹک میں جو اسکول اور کالج بڑی مشکل سے کھلے تھے، وہ اب حجاب کے نام پر بند کردیئے گئے ۔جو مسئلہ مقامی انتظامیہ یا بہت زیادہ ریاستی حکومت کی سطح پر حل ہوسکتا تھا، وہ ہائیکورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک پہنچ گیا اورملکی سطح پر سیاسی بیانات اس طرح دیے جانے لگے کہ قومی مسئلہ بن جائے۔ بات یہیں تک محدود رہتی تو بھی غنیمت تھی لیکن ایسے حالات پیداکئے گئے کہ ایک کالج میں باحجاب لڑکی کو ڈرایا دھمکایا گیا اور ایک اسکول میں ترنگا کی جگہ بھگواجھنڈا لہرادیا گیا۔جو حجاب سے بہت بڑی بات ہے لیکن اسے دبادیا گیا اوردوسروں نے بھی اسے حجاب کی طرح ہوا دینے کی کوشش نہیں کی۔ اگربھگوا کی جگہ کوئی اورجھنڈا ہوتا اوریہ کام کرنے والے کوئی اورہوتے توپورے ملک میں کہرام مچ جاتا۔مسئلہ صرف اسکارف اورحجاب کا تھالیکن بحث چلی تو اب اس میں سیاسی مقاصد کے تحت یونیفارم سول کوڈ کی بات ہونے لگی ہے۔
حجاب کامسئلہ کرناٹک کا تھا، لیکن مدھیہ پردیش میں اعلان ہونے لگا کہ وہاں بھی تعلیمی اداروں میں حجاب پر روک لگائی جائے گی۔یوپی اسمبلی انتخابات میں اسے ایشوبناکر پولرائزیشن کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ اتراکھنڈ میں اس کی آڑمیں یونیفارم سول کوڈ کی بات ہورہی ہے۔ وہاں کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے کہا ہے کہ اگر ریاست میں دوبارہ ان کی حکومت بنی تو حلف برداری کے فوراً بعد وہ ماہرین قانون، ریٹائرڈ ججوں،دانشوروں اوردیگر لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دیں گے، جو یونیفارم سول کوڈ کا مسودہ تیار کرے گی اوراس یونیفارم سول کوڈ کے دائرہ میں شادی بیاہ، طلاق، جائیداد اوروراثت جیسے معاملات آئیں گے ۔ سبھی شہریوں کے لئے یکساں قانون ہوگا اور سبھی کو یکساں حقوق حاصل ہوں گے، چاہے اس کاتعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ سبھی جانتے ہیں کہ یونیفارم سول کوڈ کا تعلق مرکزی حکومت سے ہے اوروہ اس پر لاکمیشن سے رائے بھی مانگ چکی ہے اور کمیشن اپنی رپورٹ میں واضح طورپر کہہ چکا ہے کہ ہندوستان میں یونیفارم سول کوڈ نافذ نہیں کرسکتے ۔پھر یہ مسئلہ ایک وزیر اعلیٰ کیوں اٹھا رہا ہے ؟اوروہ ریاست میں قانون سازی کی بات کیوں کررہاہے ؟ویسے بھی ملک میں مختلف مذاہب ہیں ، جن کے الگ الگ ضوابط(قوانین) اوررسوم ورواج ہیںجن پر عمل کی آئین میں آزادی دی گئی ہے۔ان سب کو کسی ایک ضابطہ یا رسم کاپابند کیسے بنایا جاسکتا؟ دوسری بات یہ ہے کہ وہ رسم یا ضابطہ کس مذہب کا ہوگا ؟اورکیا دوسرے مذاہب کے لوگ اسے قبول کرنے اوراس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوں گے ؟
اسی کو کہتے ہیں ، سیاست اورسیاسی دائوپیچ ۔جو مسئلہ نہیں تھا ، اسے بنایاگیا ، اس پر ہنگامہ ہوا ، تعلیمی ادارے بند کردیئے اوراب اسے سیاسی بناکر سماج میں پھوٹ ڈالنے کاکام کیا جارہاہے ۔جن بچوں کو پڑھنا چاہئے اورمستقبل سنوارنا چاہئے، ان سے سڑکوں پر احتجاج ومظاہرہ کرایا گیا اورتعلیمی ادارے بند کراکے ان کو گھروں میں قید کردیا گیا ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حجاب کا مسئلہ کھڑا کرنے سے بچوں کو کیا فائدہ ہوا؟۔ ان کوتوصرف نقصان پہنچ رہا ہے ۔کتنی افسوس ناک بات ہے ، بلکہ المیہ ہی کہا جائے گا کہ ملکی سیاست میں اس قدر گراوٹ آگئی ہے کہ ا ب معصوم بچوں کا استعمال حقیر سیاسی مقاصد کے لئے کیا جائے گا۔ فرقہ پرستی کا زہر معصوم ذہنوں میں بھرا جارہا ہے۔آخر ملک کدھر جارہا ہے؟ اور کس طرح کے حالات پیدا کئے جارہے ہیں ؟ صرف ماحول خراب ہورہاہے،جس سے ملک اورلوگوں کو نقصان پہنچے گا۔ فائدہ صرف سیاسی پارٹیوںاورلیڈران کو ہوگا جو بیان بازی کررہے ہیں۔لوگ اتنا بھی انتظار اور صبر کرنے کوتیار نہیں کہ معاملہ کورٹ میں زیرسماعت ہے اوراس کی سماعت بڑی بنچ مسلسل کررہی ہے تو فیصلے کا انتظار کرلیں۔ حجاب کے خلاف جتنی بیان بازی ہورہی ہے ،تعلیم پر کیوں نہیں ہورہی ہے ؟ جوزیادہ ضروری ہے کیونکہ حجاب کے نام پر ہی کتنے اسکولوں اورکالجوں کو بند کردیا گیا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS