سیکولر پارٹیوں میں صف ماتم کیوں؟

0

چند ماہ قبل بی جے پی کو چیلنج دینے کے لیے بنائے گئے قومی اتحاد جس کا نام انڈیا رکھا گیا تھا۔ اس کو اپنے وجوود ہی برقرار رکھنے میں دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو نیائے یاترا کے تنازع کو لے کر کئی بڑی پارٹیوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور سب سے پہلے اس یاترا پر نتیش کمار نے ہی اپنی ناراضگی کا دبے الفاظ میں اظہار کیا، اس کے بعد ترنمول کانگریس کی لیڈر ممتا بنرجی نے اتہائی سخت انداز میں کانگریس پر نکتہ چینی کی اور مغربی بنگال میں لوک سبھا کی سیٹوں کی تقسیم کو لے کر ہی ترنمول کانگریس اور کانگریس میں اختلافات ہوگئے۔ اسی دوران چنڈی گڑھ سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ پنجاب میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے اتحاد کو جھٹکا لگا ہے۔ دونوں پارٹیاں چنڈی گڑھ میں میئر کے الیکشن میں متحد ہو کر بی جے پی کا مقابلہ کررہی تھیں، مگر ووٹنگ کے بعد نتیجہ ان کی امیدوں کے خلاف نکلا اور میئر کے الیکشن میں منوج سونکر الیکشن جیت گئے اور عام آدمی پارٹی کے امیدوار کلدیپ کمار جو کہ کانگریس کی حمایت کے ساتھ الیکشن لڑ رہے تھے ، ہار گئے۔ یہ چند دنوں میں ہونے والا انڈیا اتحاد کا دوسرا جھٹکا تھا۔ اس سے قبل نتیش کمار نے لالو پرساد یادو کی قیادت والی پارٹی آر جے ڈی اور کانگریس ودیگر حلیفوں سے ترک تعلق کرکے بی جے پی سے ہاتھ ملا لیا۔ اس طرح تقریباً ڈیڑھ سال سے جاری سیکولر پارٹیوں کی حکومت گر گئی۔
نتیش کمار 9ویں مرتبہ پھر وزیراعلیٰ بنے اور ان کی قیادت میں بی جے پی ایک بار پھر انتہائی اہم اور سیاسی طور پر حساس ریاست میں انڈیا اتحاد کو جھٹکا دینے میں کامیاب ہوئی۔ کئی حلقوںمیں اس صورت حال کو 2024 کے لوک سبھا کے انتخابات سے جوڑ کر دیکھا جار ہاہے جس کے لیے بی جے پی نے پوری طریقے سے اپوزیشن کی پارٹیوں کو حاشیہ پر پہنچانے کا انتظام کرلیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ دوسری پارٹیوں میں توڑ پھوڑ کر اپنی حکومت بنا رہی ہے اور جمہوری اقدار کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ گزشتہ روز کانگریس کے صدر ملکا ارجن کھرگے نے بھی اپنے اندیشے کو ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ اگر اس مرتبہ بی جے پی کے خلاف کوئی مضبوط محاذ کھڑا نہیں کیا گیا تو ہوسکتا ہے کہ یہ الیکشن ملک کا آخری الیکشن ہو۔ ان تمام توڑ پھوڑ کے الزامات اور جوابی الزامات کی خبر کے درمیان یہ خبر آرہی ہے کہ جھارکھنڈ کے وزیراعلیٰ ہیمنت سورین لاپتہ ہیں۔ ہیمنت سورین کے خلاف انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ رقم کی خورد برد کے معاملے میں تفیش کررہا ہے۔ ان کی دہلی کی رہائش گاہ پر چھاپہ مار کر کے ای ڈی نے 36لاکھ روپے کیش اور دو موٹر گاڑیاں ضبط کی ہیں۔ جھارکھنڈمیں سیاسی اتھل پتھل کا ماحول ہے اور گورنر نے کہاہے کہ وہ حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ خیال رہے کہ ای ڈی کی کارروائی اس وقت ہوئی جب دہلی کے ایئرپورٹ پر ہیمنت سورین کو رانچی لے جانے کے لیے ایک چارٹرڈ طیارہ انتظار کررہا تھا۔ ان کے ٹیلیفون نمبر بند بتارہے جاتے ہیں۔ ان کے ڈرائیور سے پوچھ تاچھ ہورہی ہے۔ یہ اتوار کی شب میں دہلی میں سے آکر گئے تھے۔ ای ڈی افسران نے دہلی کی ان کی رہائش گاہ اور جھارکھنڈبھون میں ان کی تلاش شروع کردی ہے۔ یہ مجموعی صورتحال اپوزیشن میں صف ماتم بچھانے کے لیے کافی ہیں۔ خیال رہے کہ اس سے قبل اتحاد کی ایک اہم لیڈر اور ترنمول کانگریس کی صدر ممتا بنر جی پہلے ہی اعلان کرچکی ہیں کہ وہ اپنی ریاست میں اکیلے ہی الیکشن لڑیں گی۔ اس سے قبل کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور کانگریس متحد ہو کر بی جے پی کے خلاف اتحاد بنانے پر غور کررہی تھیں، مگر جیسے جیسے الیکشن قریب آتے جارہے ہیں۔ اپوزیشن کا اتحاد منتشر ہوتا جارہا ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بہار میں نتیش کمار کے بازی پلٹنے سے بی جے پی مخالف فرنٹ کو نقصان پہنچا ہے اور 22جنوری کی پران پرتشٹھا کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ کچھ پارٹیوں میں زبردست مایوسی ہے۔ بی جے پی پہلے کے مقابلے میں زیادہ مستحکم اور پر اعتماد دکھائی دے رہی ہے۔ اس دوران دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال جو کہ چنڈی گڑھ میئر کے انتخابات میں اپنے امیدوار کے شکست سے چراغ پا ہیں۔ پنجاب میں کانگریس کے ساتھ ہیں ۔ ٹکٹوں کی تقسیم کو لے کر دونوں پارٹیوں میں اختلاف رائے فطری ہے۔ پنجاب میں بی جے پی کافی کمزور ہے اورو ہاں پر اکالی دل کے ساتھ اس کا اتحاد بہت پہلے ہی ختم ہوچکا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ دو تین ماہ میں صورتحال کیا رخ اختیار کرتی ہے ،اگر اروند کجریوال چنڈی گڑھ کے شکست سے سخت ناراض ہیں تو ان کی ناراضگی ان معنوں میں درست لگتی ہے کہ بی جے پی کے امیدوار منوج سونکر کو صرف 16ووٹ ملے۔ جبکہ عام آدمی پارٹی کے امیدوار کلدیپ کمار کو 12ووٹ ملے۔ اس وقت ہنگامہ ہوگیا جب 8ووٹوں کو رد کردیا گیا۔ اس پر عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے کونسلروں نے ہنگامہ کیا ۔ بی جے پی کے پاس 14کونسلر ہیں۔ اس طرح آپ پارٹی کا امیدوار ہار گیا ۔ عام آدمی پارٹی کے پاس 13اور کانگریس کے پاس 7تھے۔ عام آدمی پارٹی نے ان انتخابات کو دھوکہ قرار دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں کس حد تک ان ہچکولوں کو جھیل کر لوک سبھا میں ایک متحد محاذ برقرار رکھ پاتی ہیں۔
اس میں کوئی دورائے نہیں نیتش کمار ایک سیکولر مزاج لیڈر ہیں اور انہوںنے اگرچہ ایک بار پھر بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ہے اور ’’ سیکولر پارٹیاں‘‘ ان کے اس قدم سے ذرا زیادہ ہی دلبرداشتہ میں مگر یہ برداشت کہ ترنمول کانگریس پارٹی ایک زمانے میں سیکولر پارٹیوں کو بے بس کر کے بی جے پی کی قیادت والے محاذ میں جا چکی ہیں اور شاید آج سیاسی مفادات مصلحتوں یا مجبوریوں کی وجہ سے غیر سیکولر محاذ کا حصہ بنا ان کے سیکولر کردار کو کیوں شکوک بناتا ہے، کیا یہ حقیقت میں اکالی دل ، ایس ’’ فرقہ پرست‘‘اتحاد کا حصہ تھا۔ تیجسوتنہا دل ، جنتا دل سے ٹوٹ کر دوسرے محاذ کا حصہ بنا تھا اور اڈیشہ کے وزیراعلیٰ مسلسل مرکز میں حکمراں پارٹیوں کی آنکھ کا تارا بنتے رہے ہیں۔ پھر محبوبہ مفتی کی قیادت والی پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس مرکز میں برسراقتدار باجپئی حکومت میں شامل تھیں۔ پالے بدلنا سیاسی فائدے نقصان کو مد نظر رکھتے ہوئے کہے جانے میں ان فیصلوں کو اختلافات کی نظر سے دیکھنا ہمیشہ درست نہیں ہوتا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS