مولانا عبدالعلی فاروقی
نیوزی لینڈ کی ایک ویڈیو سامنے آئی، جس میں دکھایا گیا ہے کہ ایک خاتون نے شیر کے دو بچے پالے، جب بچے بڑے ہوگئے تو وہاں کی حکومت نے ان بچوں کو Zoo (چڑیاگھر)میں رکھنے کا حکم دے دیا۔ ایک دن وہ خاتون چڑیا گھر اپنے پالے ہوئے بچوں سے ملنے گئی تو بچے اسے دیکھتے ہی بے قرار ہوگئے، اور پھر اس کی گردن، چہرے اور بازوؤں وسر کو اس طرح چوماچاٹا جیسے ان کو اپنی چھوٹی ہوئی ماں مل گئی ہو؟۔
ویڈیو میں اس تصویر کے ساتھ ایک ’’کیپشن‘‘ بھی ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ ’’ذرا سوچئے کہ انسان کا بچہ ہونے کے باوجودہمارا اپنے والدین کے ساتھ کیا سلوک ہے؟۔
میں کہتا ہوں کہ شیر کے بچے اسی لئے اپنی محسن اور پرورش کرنے والی ایک انسان عورت کی قدر کرتے ہوئے اسے چوم چاٹ رہے ہیں کہ وہ انسان کے نہیں، بلکہ شیر کے بچے ہیں۔کیوں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ شیر جنگل کا بادشاہ اور ایک خونخوار درندہ ہوتا ہے، لیکن اس کی خونخواری و درندگی شیروں کے لئے نہیں، بلکہ دوسرے جان داروں کے لئے ہوتی ہے ۔ یہاں تک کہ ماہرین کا بیان ہے کہ جب شیر بوڑھا ہوکر اس قابل نہیں رہتا کہ وہ اپنے لئے خود شکار کرسکے تو جوان شیر اس کے لئے شکار کرکے بڑے اہتمام کے ساتھ اس کی غذا کا انتظام کرتے ہیں۔ اسی طرح سانپ زہریلا ہوتا ہے۔ ان میں کے بعض تو اتنے خطرناک ہوتے ہیںکہ ہمارے یہاں مثل مشہور ہے کہ ’’سانپ کا ڈسا پانی نہ مانگے‘‘ یعنی اس کا زہر اتنا سریع الاثر ہوتا ہے کہ اس کے ڈستے ہی آدمی ہلاک ہوجاتا ہے اور اسے پانی مانگنے کی بھی مہلت نہیں مل پاتی۔
یہی حال بچھو، بھیڑئیے اور دوسرے خطرناک جانوروں کا ہے کہ ان کے ضرر ونقصان سے ان کے ہم جنس محفوظ رہتے ہیں۔ اور انہیں بھی اتنا ’’شعور‘‘ ہوتا ہے کہ کوئی شیر دوسرے شیر پر حملہ کرکے اور اسے چیرپھاڑ کر اس کا گوشت نہیں کھاتا اور کوئی سانپ دوسرے سانپ کو ڈس کر اسے ہلاک نہیں کرتا —— لیکن انسان؟، انسان کے بارے میں ایک انسان شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
تاریخ کے اوراق پہ لکھا ہے لہو سے
انسانوں کو انسانوں سے اللہ بچائے
اور یہ کوئی نئی اور ان ہونی بات نہیں ہے۔ اس کائنات کی سب سے معتبر، محفوظ، اور خالق کے ارشادات پر مشتمل کتاب ’’القرآن‘‘ میں بارگارہ خداوندی میں فرشتوں کی ’’پٹیشن‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ فرشتوں نے اپنا اعتراض یوں درج کرایا تھا ’’اَتَجْعَلُ فِیْھَا مِنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَ یَسْفِکَ الدِّمَائَ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَ نُقَدِّسَ لَکَ‘‘ (آپ اس مخلوق کو زمین میں خلیفہ بنانے کے لئے کیوں پیدا کررہے ہیں جو زمین میں فساد اور خوں ریزی کرے گی؟ جب کہ ہم تو آپ کی تسبیح، حمد اور پاکی بیان کرنے والے ہیں) ظاہر ہے کہ فرشتوں کا انسانوں کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ مخلوق زمین میں فساد برپا کرنے والی اور خوں ریزی کرنے والی ہے، اس کا علم انہیں خود اللہ تعالیٰ کے بتانے ہی سے ہوا گا —— گویا خود خالق کائنات کی حکمت اور منصوبہ میں یہ بات شامل تھی کہ ا س کی مخلوقات میں انسان نامی مخلوق مجموعۂ اضداد ہوگی۔ اس کی فطرت میں خیر بھی ہوگا شر بھی، فساد بھی ہوگا صلاح بھی، نافرمانی بھی ہوگی اطاعت گذاری بھی، اسی لئے حق تعالیٰ نے فرشتوں کے جواب میں فرمایا کہ ’’اِنِّیْ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ‘‘ (جو میں جانتا ہوں، تم نہیں جانتے)
حق تعالیٰ نے اپنے فیصلہ کے مطابق اپنی مخلوقات میں انسان کو ’’اشرف المخلوقات‘‘ کا مقام بھی اسی لئے عطا کیا کہ ’’طبعاً شرومعصیت کی طرف رجحان ہونے کے باوجود جو بندے اپنے اوپر جبر کرکے صرف اپنے خالق کی رضا کے لئے شرکے بجائے خیر، اور معصیت کے بجائے اطاعت کا انتخاب کرتے ہیں، وہ اللہ کی ناپسندیدہ راہ کو چھوڑ کر اس کی پسندیدہ راہ کا انتخاب کرتے ہیں —— بالفاظ دیگر یوں کہا جاسکتا ہے کہ وہ گناہ کرسکتے ہیں، اور کرنے پر طبیعت آمادہ بھی ہوتی ہے، مگر صرف اپنے خالق ومالک کے لحاظ میں اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے گناہ و معصیت کو چھوڑ کر نیکی و فرماں برداری کو اپناتے ہیں۔ جب کہ فرشتے معصوم ہونے کی وجہ سے گناہ کے تصور سے ہی عاری ہوتے ہیں، ان کے سامنے دو راہوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کی بات نہیں ہوتی ہے، وہ تو بس اطاعت وعبادت خداوندی ہی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ اس لئے انہیں اطاعت ہی کرتے رہنا ہے۔
اس بات کو ایک مثال سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی بینائی سے محروم مادرزاد نابینا شخص یہ کہے کہ میری عمر ۳۰-۳۵ برس ہوگئی، میں جوان ہوں اور جوانی کے جذبات میرے اندر بھی ہیں، لیکن میں نے آج تک کسی نامحرم عورت پر نگاہ نہیں ڈالی، کیوں کہ میرے دل میں خدا کا خوف ہے ۔ اس کی یہ بات سننے والے کا جواب کیا ہوگا؟۔ یہی ناکہ تم پیدائشی طور پر بینائی کی نعمت سے محروم ہو، تم نے تو اپنی اس ماں کو بھی نہیں دیکھا ہے جس کی آغوش شفقت میں پل کر تم جوان ہوئے ہو ۔ پھر اس میں تمہارا کیا کمال ہے کہ تم نے کسی نامحرم عورت کو نہیں دیکھا۔ اس کے مقابلے میں یہی بات کوئی ایسا جوان صالح کہے جو بینا ہوتے ہوئے اپنی نظروں کی حفاظت کررہا ہو، توا س کی یہ بات لائق تعریف بھی ہوگی اور قابل تقلید بھی۔ بس کچھ ایسا ہی معاملہ انسان اور دوسرے جاندار و خونخوار درندوں کا بھی ہے کہ شیر یا دوسرے ضرررساں جانورں کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ’’اپنوں‘‘ کو فطری طور پر نقصان پہنچا ہی نہیں سکتے ہیں۔ جب کہ انسان کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ وہ درندگی پر آمادہ ہو تو نہ اپنا دیکھتا ہے نہ غیر، ایسے ہوس پرستوں سے بھی یہ دنیا خالی نہیں ہے، جن کی ہوس پرستی کی شکار خود ان کی اپنی بیٹیاں، اور حقیقی بہنیں بھی ہوجاتی ہیں۔ تھوڑے سے مال ودولت، یا عزت ومنصب کے لئے وہ اپنے باپ، بھائی، حتیٰ کہ اپنے وطن اور اپنے دین وایمان کو بھی داؤں پر لگا دیتے ہیں ۔اور ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو ہر قسم کے مواقع حاصل ہونے کے باوجود اپنے خدا سے ڈر کر اس کے قوانین کی پابندی کرتے ہوئے اپنے سرکش جذبات کو کچل کر وہ نہیں کرتے جس کی ان کا نفس مطالبہ کررہا ہے۔ بلکہ وہ کرتے ہیں جس کی ان کا خالق ومالک مطالبہ کرتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ چاہت، اختیار، اور مواقع حاصل ہوتے ہوئے بھی ’’بے بس و بے اختیار‘‘ بن کر کسی کی فرماں برداری میں قربانی دینے کا نام ہی بندگی ہے۔ اور یہی انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی بنیاد بھی ہے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ نیوزی لینڈ کے شیروں اور ان کی پرورش کرنے والی خاتون کی مثال انسان کے لئے تازیانۂ عبرت ہے۔ کیوں کہ جوان اور تازہ دم شیروں نے ’’اپنی پسندیدہ غذا‘‘ کو ٹھکراکر جس محبت، وارفتگی، اور احسان شناسی کا ثبوت دیا، ایسا ثبوت انسانوں میں سے بہت کم اور خوش نصیب لوگ ہی فراہم کرپاتے ہیں۔ انسان کی احسان شناسی کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا ثبوت یہ ہوگا کہ وہ اپنے خالق ومالک کا احسان شناس ہو، اور جو بندہ خالق کا احسان شناس ہوگا، وہ یقینی طور پر اس کی ساری مخلوق کا بھی احسان شناس ہوگا۔ وہ صرف اپنے کام آنے والے انسانوں ہی کا نہیں، ان جانوروں اور بے جان پیڑپودوں کا بھی قدردان ہوگا، جن سے وہ مختلف انداز میں فائدے حاصل کرتا ہے۔
جن خوش نصیب انسانوں کو ’’احسان شناسی‘‘ کی یہ دولت نصیب ہوتی ہے وہ اپنی کسی بڑی سے بڑی کارکردگی کو بھی اپنا ذاتی کمال نہیں، بلکہ اپنے پروردگار کی عطا اور اس کا کرم سمجھتے ہیں۔ اللہ کے ایک نیک وپسندیدہ بندے اور ہماری اصطلاح کے مطابق ایک بزرگ کا یہ واقعہ ہمیں عبرت و نصیحت دینے کے لئے کافی ہے:-
ایک بزرگ نظریں جھکائے، اپنے آپ میں مگن ایک راستے سے گزر رہے تھے۔ ایک من چلا اور ’’مرتبہ ناشناس‘‘ نوجوان ان کے قریب آیا، اور ان کی کھلّی اڑانے کے لئے پاس سے گذرتے ہوئے ایک خارش زدہ اور ادھڑی کھال والے کتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان بزرگ سے بولا، بابا جی یہ کتا اچھا ہے یا آپ اچھے ہیں؟۔
اپنے کلیجے پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ کتنا اذیت رساں اور توہین آمیز سوال تھا، اور یہی سوال ہم آپ جیسے کسی شخص سے کیا جاتا تو اس کا ردعمل کیا ہوتا؟۔ اس توہین وتذلیل آمیز رویہ سے ہمارے دل پر کیا گذرتی؟۔ اور کچھ نہیں تو بددعا کے لئے تو ہمارے ہاتھ اٹھ ہی جاتے۔ مگر اس اللہ والے اور ’’احسان شناس‘‘ بندے کا جواب یہ تھا کہ
’’بیٹا! اگر اللہ ہمارے ایمان کو قبول فرمالیں اور ہمارا خاتمہ ایمان پر ہوجائے تو میں اچھا ہوں، اور اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہوا تو یہ کتا مجھ سے اچھا ہے۔ کیوں کہ قیامت کے دن اس سے کوئی بازپرس نہ ہوگی، اور ہمیں اپنے ایک ایک عمل کا جواب دینا ہوگا۔‘‘
یہ صرف کسی ایک بزرگ کی بات نہیں ہے، بلکہ اپنے اور اپنے خالق کے درمیان کے رشتے کو سمجھنے کا ایک انداز ہے۔ عام طور پر ہماری سوچ اپنی ذات، اپنی دنیا اور اپنے پریوار تک ہی رہتی ہے۔ ہمیں یہ سوچنے کی فرصت ہی نہیں ہوتی کہ ہمیں اس دنیا میں پیدا کرکے اس کا ایک حصہ بنانے سے ہمارے خالق ومالک کا مقصد کیا ہے، اور اس کا ہم انسانوں سے مطالبہ کیا ہے؟۔
یوں تو ہر جاندار (حیوان) کو اللہ تعالیٰ نے جذبات عطا کئے ہیں، اور یہ جذبات ہی کا اثر تھا کہ شیر کے بچے اپنی پرورش کرنے والی ایک انسان عورت کو دیکھ کر ’’جذباتی‘‘ ہوگئے اور وہ اس عورت کو چومنے چاٹنے لگے ۔ مگر انسان وہ جاندار (حیوان) ہے جسے اللہ تعالیٰ نے عقل بھی عطا کی ہے، جس کے ذریعہ وہ جذباتی رشتوں کے درمیان تمیز بھی کرسکتا ہے۔ اسے جذباتی طور پر اپنے والدین، اپنی اولاد، اور مال متاع سے بھی محبت ہوتی ہے اور اپنے پیدا کرنے والے خالق سے بھی۔ پھر اس کی عقل اسے سمجھاتی ہے کہ کس رشتے سے اپنے جذبات محبت کا اظہار کس طرح کرنا ہے؟۔
اب اگر وہ اپنے خالق کی محبت کو تمام رشتوں کی محبت پر غالب رکھ کر اس کا وفادار واطاعت گزار ہوتا ہے، تب ہی اسے انسان کہا جاسکتا ہے۔ ورنہ وہ ایک ’’انسان نما جانور‘‘ ہے جو جذباتی طور پر محبت تو کرسکتا ہے، لیکن فرق مراتب کے اعتبار سے اس کے اظہار کا سلیقہ نہیں جانتا ہے؟؟۔
[email protected]
انسان اشرف المخلوقات کیوں؟: مولانا عبدالعلی فاروقی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS