سعودی عرب پر امریکہ مہربان کیوں؟

0

بدلتے حالات کی مناسبت سے امریکہ کی بھی پالیسی بدلتی رہتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے آخری دنوں جاپان کے دو شہروں پر اس نے ایٹم بم گرائے تھے اور آج اسی جاپان سے اس کے اچھے تعلقات ہیں۔ چین کا مقابلہ کرنے کے لیے جاپان کو بھی امریکہ کی ضرورت ہے۔ مشرق وسطیٰ میں تو امریکہ کی سیاست دلچسپ ہے، وہ اسرائیل کی پشت پر رہتا ہے اور عرب ممالک سے بھی اس کے اچھے تعلقات ہیں اور ان تعلقات سے اسے فیض ہی پہنچا ہے۔ سعودی عرب سے وہ اسی لیے بہتر تعلقات رکھنا چاہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے پیٹریاٹ اینٹی میزائل انٹرسپٹرس سعودی عرب کو دے دیا ہے، البتہ یہ پتہ نہیں ہے کہ ایسی کتنی میزائلیں اس نے سعودی عرب کو دی ہیں۔ سوال یہ ہے کہیہ میزائلیں لینے کے لیے سعودی عرب دو سال سے کوشش کررہا تھا تو امریکہ نے اسے اب کیوں یہ دی ہیں؟ اصل میں وہ اسرائیل کو مستحکم رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس سے مقابلے کے لیے عرب ممالک اس سے ہتھیار لیتے رہیں۔ عرب ممالک ایران سے بڑا دشمن اسرائیل کو نہیں مانتے، چنانچہ ان کے لیے یہی بڑی بات ہے کہ ایران سے امریکہ کے تعلقات اچھے نہیں ہیں لیکن یوکرین جنگ میں روس کے خلاف براہ راست کوئی رول ادا نہ کرنے سے امریکہ کی ساکھ پر اثر پڑا ہے۔ یوکرین پر روس کے قابض ہوجانے کے بعد کئی یوروپی ملکوں کا جھکاؤ امریکہ سے ہٹ کر اس کی طرف ہوجانے کا امکان ہے۔ یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کا امریکہ نہیں کہ سوویت یونین کے دائرہ اثر کو ختم کرنے کے لیے اس نے ’ٹرومین ڈاکٹرین‘ متعارف کرایا تھا۔ اس وقت امریکہ خود قرض دار ہے۔ روس کے دائرہ اثر کو محدود کرنے کے لیے وہ زیادہ ڈالر نہیں خرچ کر سکتا مگر اپنے اتحادی ملکوں کو وہ گنوانا بھی نہیں چاہتا ہے، چنانچہ اسی لیے اس نے سعودی عرب کا ایک دیرینہ مطالبہ پورا کر دیا۔ اس کے علاوہ حوثی تحریک کو عالمی دہشت گرد تنظیم کی فہرست سے نکالنے کا جو اشارہ اس نے دیا تھا، اس پر بھی اس نے عمل درآمد نہیں کیا ہے، کیونکہ گزشتہ دنوں متحدہ عرب امارات پر حوثیوں نے کئی ڈرونز حملے کیے تھے۔
سعودی عرب کو پیٹریاٹ اینٹی میزائل انٹرسپٹرس دینے سے یہ ہوگا کہ وہ امریکہ کی خواہش کے مطابق تیل پیدا کرے گا۔ اس سے تیل کی قیمتوں پر کنٹرول رکھنا آسان ہوگا اور بڑے آئل ایکسپورٹر کی روس کی حیثیت گھٹے گی، اس کے خلاف امریکی پابندی زیادہ اثرانداز ہوسکے گی، دنیا یہ سمجھ سکے گی کہ سپرپاور امریکہ ہی ہے، یوکرین پر اگر روس قبضہ بھی کرلے گا تو اس کے لیے معیشت کو مستحکم رکھنا آسان نہیں ہوگا۔ مطلب یہ کہ امریکہ نے روس اور یوکرین جنگ کے بعد کے حالات کی تیاری ابھی سے شروع کر دی ہے مگر امریکہ کی اس حکمت عملی کا برا اثر فلسطینیوں پر پڑے گا۔ امریکہ اگر ان عرب ملکوں کو دفاعی طور پر مستحکم کرنے لگے گا جن کے اسرائیل سے اچھے تعلقات ہیں، چاہے وہ خفیہ ہی کیوں نہ ہوں، تو وہ فلسطینیوں کو پہلے سے زیادہ نظرانداز کر دیں گے جبکہ یوکرین کی جنگ کے اندیشے سے ہی فلسطینیوں کے حالات خراب ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، 2022 کی ابتدا سے لے کر 7 فروری تک صہیونی آبادکاروں نے 53 بار فلسطینیوں پر حملے کیے۔ ان حملوں میں 46 فلسطینی جائیدادوں کو نقصان پہنچایاگیا۔ یوکرین جنگ پر ہونے والی ہنگامہ آرائی پر اسی لیے آئرلینڈ کے لیڈر رچرڈ بوئڈبیرٹ کا ماننا ہے کہ آئرش حکومت کا یوکرین جنگ کی وجہ سے روس پر پابندی عائد کرنا اور فلسطین کے خلاف اسرائیل کی کارروائی پر ایسا نہ کرنا دوہرے معیار کو ظاہر کرتا ہے مگر رچرڈ بوئڈ جیسے لیڈران عالمی سیاست میں ہیں کتنے؟ اگر بائیڈن سعودی عرب کو پیٹریاٹ اینٹی میزائل انٹرسپٹرس دینے کے ساتھ یمن میں امن بحال کرانے کی کوشش بھی کرتے، ایک طرف سعودی عرب کو اور دوسری طرف ایران کو متنبہ کرتے کہ وہ یمن کو جنگ کا میدان نہ بنائیں تو بات کچھ اور ہوتی مگر امریکی صدر کو یمن میں مرنے والے انسانوں کا خیال نہیں، خیال یہ ہے کہ روس کے طاقت دکھا دینے کے بعد کہیں عرب ملکوں کا جھکاؤ اس کی طرف نہ ہو جائے۔ یہ خیال انہیں اس لیے بھی ہوگا،کیونکہ امریکہ شام کی خانہ جنگی ختم نہیں کراسکا اور روس کے ساتھ دینے سے بشارالاسد کی پوزیشن مستحکم رہی۔ بشار نے حال ہی میں متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا ہے۔ 2011 کے بعد یہ کسی بھی عرب ملک کا ان کا پہلا دورہ ہے۔ یہ دورہ اگر یہ اشارہ ہے کہ عرب ملکوں کی شام پالیسی بدل رہی ہے تو اشارہ یہ بھی ہے کہ وہ امریکہ تک ہی محدود نہیں رہنا چاہتے، روس سے تعلقات کے لیے بھی گنجائش رکھنا چاہتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل قریب میں امریکہ عرب ملکوں کو روس کے پالے میں جانے سے روکنے کے لیے ان پر کن نوازشوں کی بارش کرتا ہے!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS