کیوں ہے غذائی بحران کا اندیشہ

0

عالمی سطح پر غریبی ہٹانے کے لیے ترقی یافتہ ملکوں نے کیا کبھی اجتماعی طور پر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے؟ اس کا جواب ایک لفظ میں ہے، نہیں! اگر کیا ہوتا تو دنیا کی 59 فیصد آبادی 5 ڈالر یا اس سے کم نہیں کماتی۔ روزانہ ہزاروں لوگ غذا کی کمی کی وجہ سے نہیں مرتے۔ غریبی دور کرنے کے لیے اگر ترقی یافتہ اور طاقتور ملکوں نے غریب ملکوں کی مدد بھی کی ہے تو یہ خیال رکھتے ہوئے کہ ان سے کیا فائدے اٹھائے جا سکتے ہیں، کیونکہ عالمی سیاست میں اگر کوئی چیز مستقل ہے تو وہ مفاد ہی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ نے ’مارشل پلان ‘کے تحت مغربی یوروپ کے ملکوں کی مدد کی تھی، اس کے بعد ہی ناٹو عالم وجود میں آیا، البتہ امریکہ نے مدد کے نام پر اس طرح مغربی یوروپ کے ملکوں کو الجھایا نہیں جیسے چین نے دنیا بھر کے ملکوں کو ’قرض-جال‘ میں الجھا دیا ہے مگر چین کی حقیقت جانتے ہوئے بھی بیشتر ممالک اس سے قرض لینے پر مجبور ہیں، کیونکہ پہلے کورونا نے ان کی تجارت پر اثر ڈالا، اس کے بعد یوکرین جنگ کی وجہ سے ان کے لیے پریشانیاں پیدا ہوئی ہیں، اسی درمیان دھیرے دھیرے ہی سہی مندی بھی دستک دے رہی ہے۔ ایسی صورت میں اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے سربراہ ڈیوڈ بیسلی کے اس انتباہ کو ہلکے پن سے لینا ٹھیک نہیں ہے جو انہوں نے غذائی بحران کے بارے میں دیا ہے۔ ڈیوڈ بیسلی کا کہنا ہے کہ ’یہ ایسا بحران ہوگا جو ہم نے زندگی میں نہیں دیکھا۔‘ان کا کہنا ہے کہ یوکرین جنگ سے پہلے کے حالات کے مقابلے موجودہ حالات بدتر ہوئے ہیں،کیونکہ جنگ سے پہلے کے مقابلے اب مزید 9 کروڑ 90 لاکھ لوگ غذائی بحران کا شکار ہیں۔ اس کے باوجود اچھی اقتصادی پوزیشن والے ممالک فراخ دلی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں۔ ڈیوڈبیسلی کے مطابق، ورلڈ فوڈ پروگرام کے لیے امریکی امداد اس مالی سال میں 6 ا رب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے مقابلے چین نے صرف 30 لاکھ ڈالر کی امداد دی ہے۔ ظاہر ہے،چین جیسا ملک جو اقتصادی طور پر امریکہ کے بعد دوسرا ملک ہے، وہ اگر اتنی کم رقم دیتا ہے تو یہ امید کس طرح کی جا سکتی ہے کہ دیگر ممالک انسانوں کو غذائی بحران سے بچانے کے لیے فراخ دلی کا مظاہرہ کریں گے۔ اسی لیے ڈیوڈ بیسلی کی اس بات میں دم نظر آتا ہے کہ ’یہ ایسا بحران ہوگا جو ہم نے زندگی میں نہیں دیکھا۔‘ اندیشہ اس بات کا ہے کہ یہ غذائی بحران وسیع ہو،کیونکہ کورونا وائرس کی وجہ سے زیادہ تر ملکوں کی اقتصادی حالت خستہ ہے، وہ پہلے ہی بے روزگاری، مفلسی اور مہنگائی سے نبردآزما ہیں توان سبھی لوگوں کو خوراک کیسے فراہم کرا پائیں گے جن کے پاس اتنی رقم نہیں کہ دو وقت کی روٹی کھا سکیں۔ جنوبی سوڈان اور صومالیہ جیسے ملکوں کو تو چھوڑیے، غدائی بحران کے اندیشوں کو سمجھنے میں ان ممالک کے حالات سے بھی مددمل سکتی ہے جن کی بظاہر اقتصادی حالت اچھی نظر آتی ہے، اس کے باوجود وہاں خاصی تعداد میں لوگ خط افلاس کے نیچے زندگی جینے پر مجبورہیں۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS