گجرات انتخابات میں کانگریس کی خاموشی کیوں

0

عارف شجر، حیدرآباد( تلنگانہ)
الیکشن کمیشن نے ہماچل پردیش میںا نتخاباب کی تاریخ کاا علان کر دیا ہے جبکہ گجرات اسمبلی انتخابات کا اعلان ہونا ابھی باقی ہے، اسمبلی انتخابات کو لے کر سیاسی جماعتوں کی انتخابی سرگرمیاں شباب پرہیں جس میں خصوصی طور سے بی جے پی اور عام آدمی پارٹی اپنے پورے دم خم کے ساتھ میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں لیکن تعجب اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کانگریس اس لڑائی میں کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہی ہے کانگریس کا سیاسی منظر نامہ دور دور تک نظر نہیں آ رہا ہے اس کو لے کرگجرات کی عوام حیران اور پریشان ہے یہاں تک کہ خود کانگریس کے گلیارے میں یہ چرچہ ہے کہ اس بار بی جے پی کو ٹکر دینے میں اور گجرات جیت پانے میں کانگریس کی کوئی دلچسپی نہیں ہے نہ تو ابھی تک کانگریس کا کوئی بڑا لیڈر گجرات کی دھرتی پر آ کر انتخابی ریلیوں کو خطاب کیا ہے اور نہ ہی مقامی سطح پر کوئی کانگریس لیڈر اپنی سرگرمی دکھا رہے ہیں۔ راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ انتخابی ریلیوں سے خطاب کریں گے لیکن پرینکا گاندھی ہماچل پردیش تو گئیں لیکن نہ راہل گاندھی گجرات آئے اور نہ اب تک پرینکا گاندھی ہی گجرات کی زمین پر اپنے قدم رکھا ہے،کانگریس کی اس خاموشی کے پیچھے راز کیا ہے یہ تو کسی کو نہیں پتہ لیکن بی جے پی کے سینئر قائدین کو کانگریس کی اس طرح کی خاموشی بے چین بھی کئے ہوئے ہے جس کا اظہار پی ایم مودی نے ایک انتخابی ریلی سے بھی کیا انہیں بھی کانگریس کی خاموشی اندر اندر چبھ رہی ہے اور ڈرا بھی رہی ہے۔ کانگریس کی اس صورتحال نے پی ایم مودی کی توجہ بھی مبذول کرائی ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے پتہ چلا کہ کانگریس کیا کر رہی ہے؟ تو معلوم ہوا کہ دیہی علاقوں میں جلسے ہو رہے ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے پارٹی کارکنوں کوالرٹ رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ راہل گاندھی نے 2017 میں گجرات میں سخت محنت کی تھی۔ تقریباً 70 اجلاس اور پروگرام منعقد ہوئے تھے اس کے نتیجے میں کانگریس پارٹی کو 77 اور اتحادیوں کو چار نشستیں ملیں تھیں۔ کانگریس کی اس کارکردگی کی سبھی نے تعریف کی تھی اور شاباشی بھی دی تھی اور کہا تھا کہ بی جے پی کے گڑھ میں کانگریس نے بہترین مظاہرہ کرکے بی جے پی کو ڈرا ضرور دیا تھا، لیکن ایسے میں جب 2022 سے 2024 کا راستہ نکلتا ہے، تو گجرات میں کانگریس کی مرکزی قیادت غائب ہے۔ پارٹی نے کہا کہ پرینکا گاندھی نوراتری میں آئیں گی۔ اس طرح کی تجویز گجرات پردیش کانگریس کمیٹی نے بھیجی ہے، لیکن معاملہ آگے نہیں بڑھا۔ اس حوالے سے صورتحال واضح ابھی تک نہیں ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گجرات ہی ایک واحد راستہ ہے جہاں سے مرکزی اقتدار تک پہنچا جا سکتا ہے، لیکن کانگریس کا مایوس کن رویہ سے تو یہ ابھی تک ظاہر نہیں ہو پارہا ہے کہ کانگریس دہلی کی کرسی پر براجمان ہو سکے گی کیونکہ دیکھا یہ جا رہا ہے کہ الیکشن کے دن عنقریب ہوتے ہوئے بھی کانگریس گجرات میں دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی ہے جب کہ عام آدمی پارٹی کی دستک ہو چکی ہے اور عام آدمی پارٹی پوری طاقت کے ساتھ بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے موڈ میں ہے اور جو ابھی میڈیا میں دیکھایا جا رہا ہے وہ بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے ساتھ مقابلہ دکھایا جا رہا ہے سی ووٹر نے بھی عام آدمی پارٹی کو کانگریس سے آگے دکھانے کی کوشش کی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کانگریس پہلے ہی اپنی شکست مان لی ہے اور عام آدمی پارٹی کو کھلا میدان دے دیا ہے ۔ کانگریس پارٹی 2017 کے مقابلے میں بہت کم متحرک ہے۔ 2017 میں، کانگریس کو گجرات سے سنجیوانی ملی تھی، اس کے بعد 2018 میں راجستھان، چھتیس گڑھ ۔ مدھیہ پردیش کو چھوڑ کر اب بھی دو ریاستوں میں کانگریس کی حکومت چل رہی ہے جھارکھنڈ، تمل ناڈو اور بہار میں اس کے شراکت دار ی ہے۔ چرچہ یہ کہ راہل گاندھی گجرات اسمبلی انتخابات میں صرف رسم ادائیگی کریں گے انکا ٹارگیٹ 2024 کا عام انتخابات ہے وہ چاہتے ہیں پہلے جنوبی ہندوستان کو مضبوط کرلیں پھر شمالی ہند پر دھیان پوری طرح مرکوز کریں گے تاکہ اس بار بی جے پی کو بری طرح سے شکست دی جا سکے ویسے بھی اگر عام لوگوں کی مانیں تو راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا سے بی جے پی تھوڑی بہت گھبرا ضرور گئی ہے جس طرح بھارت جوڑو یاترا میں راہل گاندھی کے ساتھ نوجوانوں کی ایک ٹیم بن رہی ہے اس سے تو صاف ظاہر ہو رہا ے کہ بی جے پی کے لئے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے لیکن دوسری جانب اس بات کو بھی رکھنا ضرووری ہے کہ بی جے پی کی جنوبی ہند کے مقابلے شمالی ہند میں جس طرح کی مضبوطی ہے اس میں کانگریس کی سیندھ ماری کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہوگا یعنی کانگریس کے دانت کھٹے ہو جائیں گے۔
بہر حال! گجرات میں کانگریس کو لے کر بہت ساری چرچائیں ہو رہی ہیں ۔ سیاسی حلقوں میں ایک نئی اصطلاح جو زیر بحث ہے وہ ہے ‘سویٹ سرنڈر’ کی۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ کانگریس نے بی جے پی کے سامنے پیار سے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ اس حقیقتت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر ریاست میں بی جے پی پچھلے 27 سالوں سے برسراقتدار ہے تو اس سے لڑنے والی پارٹی کا نام کانگریس پارٹی ہی ہے جس نے بی جے پی کو 2017 اسمبلی انتخابات کے دوران بے چین کر کے رکھ دیا تھا اگر ہم گزشتہ دو دہائیوں کے ووٹ فیصد پر نظر ڈالیں تو کانگریس بھی 38 فیصد ووٹوں سے نیچے نہیں آئی۔ 2002 میں اس نے 39.28 فیصد ووٹوں کے ساتھ 51 نشستیں حاصل کیں، 1998 کے مقابلے میں دو نشستوں کا نقصان ہوا۔ بی جے پی نے 12 سیٹوں کا اضافہ کیا اور 127 سیٹیں حاصل کیں۔ یہ ریاست میں بی جے پی کا اب تک کا سب سے زیادہ اسکور ہے۔ اس کے بعد 2007 کے انتخابات میں کانگریس کو 38 فیصد ووٹ اور 59 سیٹیں ملی تھیں۔ 2012 میں پارٹی نے 38.93 فیصد ووٹوں کے ساتھ 61 سیٹیں جیتی تھیں، لیکن 2017 میں پارٹی نے 41.44 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ اس نے اپنے طور پر 77 اور اتحادیوں کو ملا کر 82 نشستیں حاصل کیں۔ اس کے بعد بھی پارٹی 2022 کے انتخابات میں محاذ پر کیوں نہیں ہے؟ یہ سوال سب کو پریشان کر رہا ہے۔کانگریس نے 2017 میں 77 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی، لیکن یکے بعد دیگرے ایم ایل اے کے پارٹی چھوڑنے کے بعد، کانگریس تقریباً 2012 والے حالات میں پہنچ گئی ہے۔ کانگریس کے اس طرح سیاسی ہتھیار ڈالنے اور خاموش تماشائی بننے سے کس کو فائدہ ہوگا؟ یہ نتائج میں واضح ہو جائے گا لیکن چرچہ سیاسی میدان اور چوک چوراہوں پر ہو رہی ہے اس میں اس بات کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ کانگریس نے عام آدمی پارٹی کو بی جے پی سے لڑنے کے لئے کھلا میدان دے دیا ہے ایسا کہا جا رہا ہے کہ گجرات اسمبلی میں بی جے پی کو نقصان تو نہیں ہوگا البتہ کانگریس کو اس کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور دو کی لڑائی میں تیسرے یعنی عام آدمی پارٹی کو سیٹوں کا فائدہ پہنچے گا چونکہ کانگریس جو بھی سیٹ نقصان کرکے گی وہ سیٹ عآپ میں جائے گی اور بی جے پی کے مقابلے میں کھڑا ہونے کی کوشش کر سکتی ہے۔ جیسا کہ سی ووٹر کے اعدادو شمار ہیں اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کی جیت پکی ہے ، دوسرے مقام پر آنے کی لڑائی کانگریس اور عام آدمی پارٹی میں ہی ہے۔ کانگریس نے گجرات میں اپنی سرگرمی کیوں نہیں دیکھا رہی ہے اسکے پیچھے راز کیا ہیں یہ تو کسی کو بھی نہیں معلوم لیکن ان کی اس خاموشی نے بی جے پی کے اعلیٰ قائدین کو بھی سکتے میں ڈال دیا ہے۔
qqq

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS