باب علم کی دہلیز سے کردیا کیوں دور ہمیں: محمد حنیف خان

0

محمد حنیف خان

قوموں کی ترقی کا واحد زینہ تعلیم ہے،اسی لیے 1857 کی ناکام جنگ آزادی کے بعد سرسید احمد خاں نے مسلمانوں کو تعلیم کا راستہ دکھایا تھا،جس نے بر صغیر میں مسلمانوں کے وجود کو استحکام بخشا اور وہ اس لائق ہوئے کہ اپنے ہم وطنوں کی طرح سوچ سکیں اور ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھ سکیں۔تعلیم کی بھی کئی سطحیں ہوتی ہیں،جس کی سب سے اونچی سطح اعلیٰ تعلیم ہے،جس قوم و مذہب میں اعلیٰ تعلیم کی سطح جس قدر بلند ہوگی، اس کے ترقی کے امکانات اسی قدر روشن ہوں گے۔اسی لیے سرسید نے ایک بڑے وژن اور مشن کے ساتھ ایم اے او کالج شروع کیا تھا مگر آج تعلیم کے معاملے میں مسلمانوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔
حال ہی میں آل انڈیا سروے آن ہائیر ایجوکیشن(اے آئی ایس ایچ) کی رپورٹ2020-21 منظرعام پر آئی ہے جس میں ملک کے سبھی طبقات کی اعلیٰ تعلیم میںداخلوں کی شرح بتائی گئی ہے،جس میں ہر طبقے کے داخلوں میں اضافے کی بات کہی گئی ہے۔یہ رپورٹ یہ واضح کرتی ہے کہ ملک کے ہر طبقے نے اعلیٰ تعلیم کے معاملے میں بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی ہے۔
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اعلیٰ تعلیم میں داخلہ کی شرح میں اضافے پر ہر طرف خوشیاں منائی جا رہی ہیں،ہر رپورٹ میں یہ بتایا جا رہا ہے 2014-15سے اب تک اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلے میں کس قدر اضافہ ہوا ہے،یہ بتانے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ مرکز کی بی جے پی کی حکومت میں تعلیم کے محاذ پر بڑی ترقی ہوئی ہے،لیکن کوئی بھی اخبار،ویب پورٹل اور ٹیلی ویژن یہ نہیں بتا رہا ہے کہ اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کی کیا حالت ہے،ان کے شرح داخلہ میں کتنا اضافہ ہوا یا کس قدر کمی آئی ہے اور اگر کمی آئی ہے تو اس کے اسباب و وجوہ کیا ہیں۔دی گارجین میں فرقان قمر کا ایک مضمون’’Why are Muslims Missing from Higher Education‘‘شائع ہوا ہے جس میں اعلیٰ تعلیم میں مسلم بچوں کے شرح داخلہ کا تحلیل و تجزیہ کیا گیا ہے۔جس کے مطابق 2019-20میں جو تعداد 21.01 لاکھ تھی وہ 2020-21میں کم ہو کر 19.22رہ گئی ہے۔ فیصد کی سطح پر مجموعی داخلہ میں مسلم بچے 5.45فیصد تھے جو اب 4.64رہ گئے ہیں۔جبکہ ایس ٹی میں 2014کے مقابلے میں لڑکوں میں47 فیصد اور لڑکیوں میں 63.4فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔اسی طرح ایس سی میں لڑکوں میں 28اور لڑکیوں میں38فیصد کا اضافہ ہواہے۔ملک کی 36ریاستوں بشمول یونین ٹریٹریز میں سے 22میں مسلم طلبا کے اعلیٰ تعلیم میں اندارج میں کمی آئی ہے۔اتر پردیش جہاں مجموعی اضافہ میں سرفہرست ہے، وہیں مسلم کے اعلیٰ تعلیم سے باہر ہونے کے معاملے میں بھی سب سے آگے ہے۔
یہ رپورٹ ثابت کرتی ہے کہ بی جے پی کی حکومت میں جہاں ایک طرف ہر طبقے نے تعلیمی سطح پر ترقی کی ہے، وہیں مسلمان پسماندگی کا شکار ہوئے ہیں۔ اگر اس تعلیمی پسماندگی اور درماندگی کا جائزہ لیا جائے تو اس کے دو سب سے بڑے اسباب سامنے آتے ہیں، اول مسلمانوں کی تعلیم سے دوری اور دوم حکومت کی اغماص اور اس کی نظراندازی۔
کوئی بھی مسلم بستی، محلہ یا مسلم اکثریت والا شہر دیکھ لیں، اچھے تعلیمی اداروں کا فقدان نظر آئے گا۔تعلیم سے متعلق بیداری صفر کے برابر ملے گی، جس سے اندازہ ہوتا ہے مسلمانوں کے یہاں تعلیم کو نہ تو اولیت حاصل ہے اور نہ ہی ان کی نظر میں اس کی اہمیت ہے۔ دوسرا سبب جو پہلے سبب سے چھوٹا بالکل نہیں وہ حکومت کا مسلم طبقے کی جانب سے آنکھیں موند لینا ہے۔مسلم محلوں اور بستیوں میں تعلیمی اداروں کا عدم قیام اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔اول سرکاری اسکول کس سطح کے ہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں، دوم یہ اسکول بھی ان علاقوں میں قائم نہیں کیے جاتے اور جن علاقوں میں سرکاری اسکول ہیں، وہاں کا نظام تعلیم ایسا نہیں ہے کہ بچے اعلیٰ تعلیم تک پہنچ سکیں۔
آج تعلیم کے میدان میں حد درجہ مقابلہ ہے، کسی بھی درجے میں داخلہ بغیر داخلہ ٹیسٹ کے نہیں ملتا، ایسے میں وہ بچے جو بہتر نظام کے پروردہ نہیں ہیں کسی بھی صورت میں ایسے امتحانات میں کامیاب نہیں ہوسکتے، مسلمان چونکہ معاشی سطح پر سب سے زیادہ پسماندہ ہیں، اس لیے ان کے پاس اتنی رقم ہی نہیں ہوتی کہ وہ بچوں کو اچھے اسکولوں میں تعلیم دلا کر ایسے امتحانات کے لائق بنا سکیں، ایسے میں اعلیٰ تعلیم کے لیے ہونے والے داخلوں میں ان کی شرح کا کم ہونا بعید از قیاس نہیں، اہم بات یہ بھی ہے کہ جو بچے اعلیٰ تعلیم کے لیے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ لے لیتے ہیں، ان میں سے ایک معتد بہ تعداد ایسی ہے جوگریجویشن سے آگے نہیں بڑھ پاتی اور بہت سے تو ایسے طلبا و طالبات بھی ہیں جو گریجویشن تک مکمل نہیں کرپاتے، جس کے پس پشت ان کی معاشی اور سماجی حالت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ان کے اہل خانہ کی معاشی حالت اس لائق نہیں ہوتی کہ وہ آگے کی تعلیم جاری رکھ سکیں۔حکومت بھی اس جانب بالکل توجہ نہیں دے رہی ہے کیونکہ وہ ان کے ترقیاتی منصوبے کا صرف دستاویزی حصہ ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو اعلیٰ تعلیم کے لیے دی جانے والی اسکالر شپ وہ کیوں بند کرتی۔کانگریس نے اپنے دور حکومت میں 2009 میں ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے اقلیتوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک اسکیم مولانا آزاد اسکالر شپ شروع کی تھی، اس اسکیم نے اقلیتوں کی اعلیٰ تعلیم میں بہت مدد کی مگر موجودہ بی جے پی کی حکومت نے اس اسکیم کو بھی بند کردیا۔ ہزار مخالفتوں، احتجاج اور دھرنے کے باوجود اس نے اس اسکیم کو دوبارہ جاری نہیں کیا، اس طرح اعلیٰ تعلیم کے لیے ملنے والی واحد اسکالرشپ بھی بند ہوگئی، جس کا منفی اثر مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم پر پڑنا واجب ہے۔حالانکہ اس رپورٹ میں اس کے نتائج کو ابھی شامل نہیں کیا گیا ہے، آئندہ برس آنے والی رپورٹ میں اس کا مزید خسارہ مسلمانوں کو برداشت کرنا ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق شیڈیول ٹرائب کی لڑکیوں کے شرح داخلہ میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، جبکہ مسلم طبقہ میں کمی آئی ہے اس کی وجہ سماجی پس منظر ہے، مسلم طبقہ لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے بجائے ان کی شادی کو ترجیح دیتا ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ فرض سے سبکدوشی ہوتی ہے، لیکن اس کو یہ نہیں معلوم کہ فرض سے سبکدوشی کے چکر میں وہ صرف ایک بیٹی کو ترقی سے نہیں روک رہا ہے بلکہ نسلوں کو وہ اس سے محروم رکھ رہا ہے، اعلیٰ تعلیم انسان کو نہ صرف معاشی سطح پر مضبوط کرتی ہے بلکہ سماجی سطح پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، ایسے مسلمانوں کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کی شرح میں کمی پر حکومت کو بھی سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ ملک کی ہمہ جہت ترقی اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک ملک کا ہر طبقہ یکساں ترقی نہ کر رہا ہو، ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد 15سے20 فیصد ہے، یہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں، اگر تعلیمی سطح پر یہ پسماندہ رہے تو اس سے ملک کی ترقی پر منفی اثر پڑے گا۔اس کو اس بات کا بھی علم ہونا چاہیے کہ ایک طبقے کو علم سے دور رکھ کر جہل کے اندھیروں میں دھکیل کر ملک کو ترقی نہیں دی جاسکتی ہے۔
مرکز میں 2014 میں بی جے پی اقتدار میں آئی تھی، اس وقت سے لے کر اب تک اگر مجموعی جائزہ لیاجائے تو ہر طبقے نے تعلیم کے میدان میں ترقی کی ہے، صرف مسلمان ہی ایسے ہیں جو اس میدان میں بھی سال بہ سال پیچھے ہوتے گئے، ایسے میں حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان اسباب و وجوہ کا جائزہ لے اور ان مسائل اور رکاوٹوں کا تدارک کرے جن کی وجہ سے مسلمان تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے جا رہے ہیں، اس کی یہ ذمہ داری اس لیے بھی ہے کہ وہ ہمیشہ یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس کی کوئی ایسی اسکیم نہیں ہے جو مسلمانوں کے لیے نہ ہو، بلا مذہب و ملت تفریق کے اس نے ہر طبقے کو مستفید کیا ہے، ایسے میں مرکزی وزارت تعلیم کی اس کی اپنی رپورٹ ہی اسے آئینہ دکھانے کے لیے کافی ہے کہ اس کے دور حکومت میں مسلمان کس قدر تعلیم کے میدان میں پسماندگی کا شکار ہوئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسلمان ایک خاص ذہنیت اور ایجنڈے کا شکار ہوئے ہیں، ان کو جان بوجھ کر ترقی کے راستوں سے نہ صرف دور کیا جا رہاہے بلکہ ان پر وہ سبھی راستے بند کیے جا رہے ہیں جو اکیسویں صدی میں انہیں روشنی دکھا سکتے ہیں۔ اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS