اپوزیشن اتحاد اور لوک سبھا الیکشن

0

آئندہ برس لوک سبھا انتخابات سے قبل اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کی کوششیں بڑی شدومد کے ساتھ جاری ہیں۔ پارلیمنٹ کی نو تعمیر عمارت کی افتتاحی تقریب میں کم و بیش 2 درجن سیاسی جماعتوں کی غیر موجودگی اور اس سے قبل نیتی آیوگ کی میٹنگ میں 11 ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کی عدم شرکت آئندہ برس عام انتخابات کیلئے اپوزیشن کے اتحاد کی سمت مثبت پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔ ایک تاثر یہ پیدا ہونے لگا ہے کہ اپوزیشن کی چھوٹی بڑی جماعتوں کو یکجا کرنے کی حکمت عملی کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ تاہم معاملہ اتنا بھی سادہ نہیں ہے جتنا کہ اسے سمجھا یا پیش کیا جارہا ہے۔ مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والی اور مختلف نظریات پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو ایک ایسے نظریہ پر اکٹھا کرلینا اتنا آسان نہیں ہے جس کی کوئی فکری اساس نہیں ہے۔ مجوزہ اپوزیشن اتحاد کی اول و آخر بنیاد یہ ہے کہ کسی طرح سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو 2024 کے عام انتخابات میں اکثریت کے حصول سے دور رکھا جائے۔ اس مقصد کیلئے شیوسینا (ادھو بالا صاحب ٹھاکرے) سے بھی تعاون کی توقع کی جارہی ہے جو فکری اور نظریاتی طور پر ایک طویل عرصہ تک مہاراشٹر میں بی جے پی کی ہم خیال رہی ہے۔ اس اپوزیشن اتحاد کے سرخیل نتیش کمار خود بھی چند برس قبل تک بی جے پی کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ تھے۔ دوسری جانب کانگریس نے اس اپوزیشن اتحاد کیلئے سنجیدہ کوشش نہیں کی ہے، وہیں اپوزیشن اتحاد کیلئے نتیش کمار کی ملاقاتیں بھی علاقائی سیاسی جماعتوں تک ہی محدود رہی ہیں جبکہ وہ اپنے تصوراتی اتحاد سے جس کامیابی کے متمنی ہیں وہ کامیابی کانگریس کو ساتھ ملائے بغیر ممکن نہیں ہے۔ حالیہ کرناٹک اسمبلی الیکشن کے نتائج نے بھی اسے ثابت کیا ہے۔ کرناٹک اسمبلی الیکشن کے نتائج نے جہاں یہ تاثر دیا ہے کہ ملک میں بی جے پی ناقابل شکست نہیں ہے، وہیں کانگریس کو بھی اس تفاخر میں مبتلا کردیا ہے کہ صرف وہی تن تنہا بی جے پی کو شکست دے سکتی ہے۔ یہ تاثر اور تفاخر ریاستوں کی حدود میں ضرور تسلیم کیا جاسکتا ہے لیکن ایک وسیع رقبہ کے حامل ہندوستان کے طول و ارض میں ایسا سوچنا قبل از وقت ہوگا۔
ایک اہم سوال یہ بھی موجود ہے کہ مجوزہ اپوزیشن اتحاد کے پاس عوام کے سامنے پیش کرنے کیلئے وہ چہرہ کون سا ہوگا جو وزیراعظم مودی کی ملک گیر مقبولیت کے سامنے چیلنج پیش کرسکے۔ کرناٹک کے عوام نے وزیراعظم کی انتخابی مہم کے باوجود بی جے پی کو مسترد ضرور کردیا ہے لیکن کرناٹک الیکشن کے نتائج پورے ملک پر مسلط نہیں کیے جاسکتے ہیں۔ نتیش کمار اگر اپوزیشن جماعتوں کو یکجا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں تو لازم ہے کہ انہوں نے یوم آزادی و جمہور سے لال قلعہ کی فصیل سے تقریر کرنے کا خواب دیکھ رکھا ہوگا۔ اگر ان کی آواز پر ممتابنرجی اور شرد پوار جیسے آہنی اور سینئر لیڈران ان کے ساتھ آتے ہیں تو لازم ہے کہ ان کی بھی اپنی کچھ توقعات ہوں گی۔ ابتدائی مرحلے میں بی جے پی کا خوف دلا کر یا بی جے پی کو شکست دینے کا خواب دکھلا کر مختلف علاقائی جماعتوں کو ایک جگہ جمع کر لیا جائے تو کیا اس اتحاد کو کسی ایک قیادت کے نام پر برقرار رکھا جاسکے گا۔ یہ ناممکن نہیں تو دشوار گزار ضرور ہے۔ عام انتخابات کیلئے اپوزیشن اتحاد کی تشکیل کا آئیڈیا بنیادوں کو پختہ کیے بغیر بلند عمارت کی تعمیر کا سا ہے۔ بنیاد یہ ہے کہ اس آئیڈیا پر ملکی سطح پر کام کرنے کے بجائے ریاستی سطح پر کام کیا جائے، لیکن بہار میں بنائے گئے مہا گٹھ بندھن کو ماضی میں خود نتیش کمار ہی زک پہنچا چکے ہیں۔ ماضی کے تجربے کی بنیاد پر کیا نتیش کمار سے امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں وہ ملکی سطح پر بنائے گئے اتحاد کو نقصان نہیں پہنچائیں گے؟
کسی طاقتور سیاسی جماعت کا مقابلہ کرنے کیلئے کمزور سیاسی جماعتوں کا متحد ہونے کا آئیڈیا نیا نہیں ہے۔ تاہم یہ آئیڈیا اپنی کامیابی کیلئے مضبوط بنیادوں کا متقاضی ہے۔ نتیش کمار جو کوششیں کر رہے ہیں وہ فی الوقت بے بنیاد معلوم ہوتی ہیں۔ جس عظیم اتحاد کو وہ اپنے منصوبے کی بنیاد کے طور پر پیش کرسکتے تھے اسے ماضی میں وہ خود ڈھا چکے ہیں۔ اب اس اتحاد کیلئے نئے سرے سے ریاستوں کی سطح پر بنیاد رکھتے ہوئے ان بنیادوں کے پختہ ہونے کا انتظار کرنا ہوگا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS