محمد حنیف خان
کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی کے منازل نہیں طے کرسکتاہے جب تک اس ملک کی اقلیتیں خوشحال نہ ہوں، عوام کی خوشحالی اس ملک کی فضا، ماحول اور حکومت کی پالیسیوں سے مشروط ہے۔کسی بھی ملک کا چھوٹا طبقہ اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتاہے جب تک حکومت کا اس کو ساتھ نہ ملا ہو۔جمہوری حکومتوں کا ایک بڑا حسن یہ بھی ہوتا ہے کہ اس میں اقلیتیں بھی اکثریت کے برابر حقوق رکھتی ہیں بلکہ کہا جاتا ہے کہ اقلیتیں / محروم طبقات کو اکثریت سے زیادہ حقوق /مواقع دیے جاتے ہیں، جس کا صرف ایک ہی مقصد ہوتاہے کہ کسی بھی طرح سے ملک کا یہ چھوٹا سا طبقہ آگے بڑھ جائے، اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے لگے، اس سے اہم بات یہ ہے کہ اس طبقے کو ملک پر بوجھ بننے سے بچایاجاتاہے اور اس کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں مدد دی جاتی ہے۔جن ملکوں میں اقلیتیں محفوظ اور خوشحال ہوتی ہیں وہاں ترقی میں پنکھ لگ جاتے ہیں۔جس کا سب سے بڑا سبب یہ ہوتاہے کہ کہیں بھی کوئی شخص محروم نہیں ہوتاہے بلکہ ہر ایک کو مواقع ملتے ہیں جن سے فائدہ اٹھاکر وہ طبقہ آگے بڑھتاہے۔
ملک کے آئین نے اقلیتوں اور سماج کے محروموں کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑا ہے، اس نے ان دونوں کو اضافی / خصوصی حقوق دیے ہیں، ان کی بنا پر محروم طبقات اور اقلیتیں آگے بڑھ رہی ہیں۔مجموعی طور سے آئین سے ملی مراعات کا فائدہ صرف فرد واحد یا ایک طبقے کو نہیں ملتاہے بلکہ درحقیقت اس کا فائدہ پورے ملک کو ملتاہے۔فی کس آمدنی میں اضافہ سے لے کر ملک کی جی ڈی پی میں ان مراعات کا اہم کردار ہوتا ہے۔اس کے باوجود بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کو لگتا ہے کہ سماج کے محروم طبقات(اوبی سی/ایس سی/ایس ٹی)، اقلیتوں (مسلم، سکھ، عیسائی، یہودی، پارسی وغیرہ) سے ان مراعات اور ان حقوق کو چھین لینا چاہیے جو آئین نے ان کو دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اقلیتی کمیشن کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کرکے اس کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔عرضی گزاروں کی دلیل ہے کہ اقلیتوں کو الگ سے مراعات اور خصوص پیکیج کسی بھی صورت میں نہیں دینا چاہیے کیونکہ یہ اصول و ضوابط کے خلاف ہے۔حالانکہ ان کو یہ معلوم ہونا چاہیے تھا کہ حکومت ہند میں باضابطہ اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لیے ایک پوری وزارت ہے جو غیر قانونی نہیں ہوسکتی ہے۔اقلیتی کمیشن سے لے کر اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لیے دیگر ادارے اسی وزارت کے ماتحت کام کرتے ہیں جس کو ختم کرنے کا عدالت سے مطالبہ کیا گیاہے۔
سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اقلیتوں کو ملنے والی مراعات سے کسی کو کیا تکلیف ہے؟ آخر ان لوگوں کا اس سے کیا فائدہ ہے تو اس کا بہت آسان اور سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ہندوستان میں جب لفظ اقلیت کا استعمال کیا جاتاہے تو اس میں سب سے پہلے مسلمان آتے ہیں چونکہ مسلمان ہندوستان میں سب سے بڑی اقلیت ہیں اس لیے جب اقلیتی اداروں کے ساتھ اچھے برتاؤ یا برے برتاؤ کی بات ہوگی تو اس کا سیدھا سا مطلب یہی ہوگا یہ رویہ مسلمانوں کے ساتھ اختیار کیا جا رہاہے۔ابھی تک جس طرح سے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ رویہ اپنایاگیا،وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔لنچنگ سے لے کر مسلم خواتین کی بولی تک بہت کھل کر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی رویہ اپنایا گیا مگر اب یہ رویہ اس کی آخری حدوں میں پہنچ چکاہے جس کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں سے وابستہ آئینی اداروں کو بھی نشانے پر لیا جانے لگا ہے اور ان کو ختم کرنے کی کوششیں شروع کردی گئی ہیں۔
عـدلـیـہ کـے سـاتھ اقـلـیـتــی طـبـقـہ اور اکـثـریـتـی طـبـقـہ دونـوں کو سامنے آنا چاہیے کیونکہ کـمـزور کا سـاتـھ اگـر کـوئـی طاقتور نہیں دے گا تو کل وہ طاقتور بھی کسی زیادہ طاقتور کے سامنے زیر ہوگا۔جن بـنـیـادوں پر مـتـشـدد ذہنیت کے لوگ آگـے بڑھ رہے ہیں، اس میں ان افراد کـے لیـے بـھـی جـگـہ نـہـیـں ہـے جـو انسانیت کـو تـرجـیـح دیـتـے ہـیـں، اس لیـے انسانیت کـے علمبرداروں کـو اب سامنـے آنا ہـی ہوگا ورنـہ ملک کـی رنگارنگی کہیں ایسی جگہ کھوجائے گی جس کی تلاش نامـمـکن ہـو جـائـے گـی۔
در اصل ملک کی اکثریت کی ایسی ذہن سازی کی گئی ہے جس میں اقلیتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، نہ ان سے ہمدردی ہے اور نہ ہی محبت اور جہاں ہمدردی اور محبت نہ ہو وہاں انسان کے بجائے صرف مشینری بچتی ہے۔یہ بات کہنے کی نہیں ہے کہ مشینری سے کام تو نکالے جاسکتے ہیں مگر اس سے ایک متنوع سماج وجود میں نہیں آسکتاہے جو اس ملک کی صدیوں کی شناخت رہی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ملک کے آئین نے اقلیتوں کو تحفظ نہ دیا ہو، اس نے ہر جانب سے محروم طبقات اور اقلیتوں کو تحفظ دیا، ان کی سماجی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کی، آئین سے ملی رعایتوں کا ہی نتیجہ ہے کہ قومی سطح پر وزارت برائے اقلیتی بہبود کا قیام عمل میں آیا جس کے لیے ہر بجٹ میں ایک خطیر رقم مختص کی جاتی ہے تاکہ اقلیتوں کی تعلیم و تربیت، روزگار سے لے کر ان کی سماجی زندگی کو بہتر بنایا جا سکے۔اسی کے تحت قومی اور ریاستی سطح پر اقلیتی کمیشنوں کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ یہ کمیشن اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کریں، ان کو سرکاری اور عوامی مظالم سے بچائیں، اس وقت جس قدر بھی اقلیتیں ملک میں محفوظ یا خوشحال ہیں اس میں آئین کا سب سے بڑاکردار ہے۔لیکن اس کے باوجود کچھ دماغ ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ اقلیتوں کو دبا کر رکھا جائے، ان کو کسی بھی طرح کی خصوصی رعایت نہیں ملنی چاہیے۔ان کو خود کو نہ ملنے سے زیادہ تکلیف کسی دوسرے کو ملنے سے ہے۔وہ بظاہر نعرہ تو یکسانیت کا لگاتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ مساوات اور یکسانیت کے حامی نہیں ہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ سماج میں صدیوں پرانی اس روایت کو قائم رکھا جائے جس میں امیر و غریب ہوں، ذات اور مذہب کی بنیاد پر وہ تفاوت کے خواہاں ہیں جبکہ ہمارا آئین سب کو ایک زینے پر کھڑا کرنا چاہتاہے۔وہ سماج کے کسی بھی طبقے کو کسمپرسی کے عالم میں نہیں چھوڑنا چاہتا ہے، اسی لیے سماج کے محروم اور پسماندہ طبقات کو ریزرویشن دیاگیا تھا تاکہ ان محرومین کو اعلیٰ طبقے کے برابر پہنچایا جاسکے۔چونکہ مذہب کی بنیاد پرآئین نے کسی طرح سے امتیازی سلوک نہیں روا رکھاتھا اس لیے کسی بھی اقلیت کو اس طرح سے ریزرویشن نہیں دیا گیاتھا بلکہ اس کی سماجی حیثیت کو پیمانا بنایا گیا اور ذات کی بنیاد پر ہر سماج کی درجہ بندی کی گئی کہ کون کون سماجی سطح پرمضبوط یا مجبور ہے اور اسی بنیاد پر ریزرویشن دیا گیا مگر جب یہ دیکھا گیا کہ اقلیتیں بھی سماجی سطح پر محروم ہیں تو ان کو ریزرویشن دینے کے بجائے ان کے لیے کمیشن بنائے گئے جن کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ ان طبقات کی فلاح و بہبود کے لیے نہ صرف کام کریں بلکہ لائحہ عمل تیار کرکے حکومت کو سونپیں تاکہ آگے کا ایجنڈا تیار ہوسکے مگر کیا حقیقت میں کبھی ایسا ہوا ہے؟ جواب نفی میں ملے گا۔اس کے باوجود اقلیتیں صرف اس بات سے خوش ہیں کہ ان کی بھلائی کے لیے سرکاری ادارے موجود ہیں لیکن اس وقت کیا ہوگا جب یہ سرکاری ادارے بھی نہیں ہوں گے؟
ہندوستان میں اقلیت بن کر رہنا کوئی مسلمانوں سے پوچھے، اس درد کو سب سے زیادہ مسلمانوں نے ہی برداشت کیا ہے۔یہ سبھی جانتے ہیں کہ اقلیتی اداروں میںجو لوگ ہوتے ہیں ان سے بہت زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔ملک میں مسلمانوں کے خلاف ماب لنچنگ کریک ڈاؤن ہوا، ملک کے ہر کونے سے مسلمانوں کی چیخیں سنائی دینے لگیں لیکن کہیں بھی اور کبھی بھی اقلیتی کمیشن کی آواز سنائی نہیں دی، اگر سنائی دیتی ہے تو کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود بحیثیت ملک کی اقلیت ہم نہیں چاہتے ہیں کہ ہماری وہ علامتی حیثیت بھی ختم کردی جائے۔اس لیے عدلیہ سے گزارش ہے کہ وہ اس طرح کی عرضیوں پر اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے کے بجائے دیگر اہم معاملات پر اپنی توجہ صرف کرے۔جب عدلیہ میں اقلیتی کمیشن کے خاتمے سے متعلق ایک ہندو تنظیم کے چھ افراد کے ایک گروپ کی جانب سے عرضی داخل کی گئی تو اس نے کمیشن کو اپنی حیثیت ثابت کرنے کے لیے نوٹس بھیجا جس کے جواب میں اقلیتی کمیشن نے تحریری طور پر عدلیہ کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس کا وجود آئینی ہے اور ہندوستان میں مسلمانوں کو ایک کمزور طبقہ مانا جانا چاہیے۔ اقلیتی کمیشن کی بات بالکل درست ہے،اسی کمزوری کی وجہ سے یہ اور اس طرح کے اقلیتی ادارے وجود میں آئے تھے۔آج متشدد ذہن کے افراد ان سرکاری اداروں کو نہیں برداشت کر پارہے ہیں، کل یہی افراد اس سے بھی آگے بڑھیں گے،اس لیے سپریم کورٹ کو نفرت کی جلنے والی اس چنگاری کو یہیں پر بجھا دینا چاہیے۔ جس ذہنیت کے کچھ افراد اس وقت اقتدار میں ہیں وہ بیک ڈور سے ان ہی جیسے افراد کا سہارا لے کر ان اداروں کو بھی ختم کرنے کی طرف قدم بڑھادیں گے۔عدلیہ کے ساتھ اقلیتی طبقہ اور اکثریتی طبقہ دونوں کو سامنے آنا چاہیے کیونکہ کمزور کا ساتھ اگر کوئی طاقتور نہیں دے گا تو کل وہ طاقتور بھی کسی زیادہ طاقتور کے سامنے زیر ہوگا۔جن بنیادوں پر متشدد ذہنیت کے لوگ آگے بڑھ رہے ہیں، اس میں ان افراد کے لیے بھی جگہ نہیں ہے جو انسانیت کو ترجیح دیتے ہیں، اس لیے انسانیت کے علمبرداروں کو اب سامنے آنا ہی ہوگا ورنہ ملک کی رنگا رنگی کہیں ایسی جگہ کھوجائے گی جس کی تلاش ناممکن ہو جائے گی۔
[email protected]