نئی دہلی (ایجنسی): 15 اگست کو جب طالبان جنگجو کابل کا محاصرہ کر رہے تھے اسی دوران صدر اشرف غنی نے اچانک ملک چھوڑ دیا۔اس وقت یہ علم نہیں تھا کہ وہ کہاں گئے۔ بہت سے لوگ ان کے ازبکستان یا تاجکستان جانے کی بات کر رہے تھے۔ پھر اشرف غنی نے خود متحدہ عرب امارات میں ہونے کی تصدیق کی۔ متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اشرف غنی کو انسانی بنیادوں پر سیاسی پناہ دی ہے۔ جب کہ غنی نے ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملک سے فرار نہیں ہوئے بلکہ انھوں نے ایک بڑے سانحے کو ٹال دیا ہے۔ اشرف غنی نے کہا: ‘میں ابھی متحدہ عرب امارات میں ہوں تاکہ خونریزی اور افراتفری کو روکا جا سکے۔’ اشرف غنی نے یہ بھی کہا کہ وہ افغانستان واپس آنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ متحدہ عرب امارات پہنچنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ملک سلامتی اور رازداری فراہم کرتا ہے۔ یہاں پرسکون رہنے اور اپنے پیسے لگانے کے کافی مواقع ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے پاس جدید ترین کیمرے ہیں اور سکیورٹی کا بہترین نظام ہے۔ شاہی خاندان کی حکومت مضبوط گرفت ہے۔ ایسی صورتحال میں یہاں پہنچنے والے سیاسی افراد محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر سے سیاستدان اور سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ پناہ کے حصول کے لیے متحدہ عرب امارات پہنچ رہے ہیں۔ فوجی بغاوت میں اقتدار سے باہر ہونے والے تھائی لینڈ کے وزیر اعظم تھاکسن شیناواترا اور ینگ لک شیناوترا نے بھی متحدہ عرب امارات میں پناہ لی تھی۔ اس کے علاوہ اسپین کے سابق بادشاہ ہوان کارلوس، فلسطینی رہنما محمد دہلان اور یمن کے مرحوم رہنما علی عبداللہ صالح کے بڑے بیٹے احمد علی عبداللہ صالح نے بھی دبئی میں پناہ لی تھی۔