یکساں سول کوڈ کو لے کر صرف مسلمانوں پر ہی یلغار کیوں ؟: شاہد زبیری

0
racolblegal.com

شاہد زبیری

آزادی کے بعد ملک نے ترقی کی جن بلندیو ں کوچھو ا ہے اس میں یکساں سول کوڈ کی کہیں کوئی ضرورت نہیں پڑی تو عین 2024کے پارلیمانی انتخابات کے وقت کیا ضرورت آن پڑی اور بھوپال کے پارٹی پروگرام میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اس قومی ایشو پر مسلمانوں پر ہی کیوں فوکس کیا اور ایک پیچیدہ اور خالص قانونی مسئلہ کولے کر فرقہ پرست فسطائی طاقتوں، سرکار اور چاپلوس میڈیا نے ایک ہی ساتھ مسلمانوں پر ہی کیوں یلغار بول رکھی ہے ؟ ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کی گھیرا بندی کی جا رہی ہے۔ لاء کمیشن اس پیچیدہ اور سنجیدہ قانونی مسئلہ پر مثبت اور مفید بحث کرا نے کے بجا ئے ایسے عام لوگوں کی آراء کو اپنی تجاویز میں شامل کررہا ہے جو یکساں سول کوڈ تو کیا آئین اور قانون کے فرق کو بھی نہیں جانتے اور نہ ہی سمجھتے ہیں، سرکار بھی ہڑبڑاہٹ اور جلدی میں دکھا ئی دیتی ہے۔ اترا کھنڈ کی بی جے پی سرکار کی جسٹس رنجنا دیسائی کی قیادت میں تشکیل کر دہ کمیٹی نے اپنی تفصیلی رپورٹ اترا کھنڈ سرکار کو سونپ دی ہے۔ نہیں معلوم کس گرائونڈ پر اس کا ڈرافٹ یا بلو پرنٹ تیار کیا گیا ہے جس کے جلد نفاذ کی بات کہی جا رہی ہے جبکہ اس کے خلاف ملک بھر میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ عام آدمی پارٹی کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگوت سنگھ مان اور اکالی دل کے علاوہ سکھ کمیونٹی کی سب سے با اثر تنظیم شرو منی اکا لی دل نے بھی یکساں کوڈ کی مخالفت کی ہے اورعام طور پر سکھوں میں اضطراب ہے۔ بی جے پی کی حلیف پارٹی اے ڈی ایم کے اس کی کھل کر مخالفت کررہی ہے ، بی ایس پی سپریمو مایا وتی نے بھی اصولی طور پر یکساں سول کوڈ کی تو حمایت کی ہے، لیکن اس کے نفاذ کو جبراً تھوپے جا نے کو آئین کے خلاف قرار دیا ہے۔ کانگریس کی حکومت میں سابق وزیر قانون اور سینئر کا نگریسی لیڈر ویر پّا موئلی نے دو ٹوک کہا کہ یونیفارم سول کوڈ کے نام پرتنازعات کا پٹارہ نہ کھو لا جائے۔ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی اور لاء کمیشن سمیت سبھی سیاسی جماعتوں سے اپیل کی ہے کہ ایسا نہ کیا جا ئے اور سماج میں افرا تفری کا ماحول نہ پیدا کیا جا ئے۔ انہوں نے تو یہاںتک کہہ دیا کہ یہ ایشو اس لئے اٹھا یا جا رہا ہے تاکہ سماج کو تقسیم کیا جاسکے اور سماج کی تکثیریت کو ختم کیا جاسکے۔ انہوں نے آگاہ کیا کہ اس سے ملک غیر مستحکم ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین جیسے دانشور بھی اس کے زور زبردستی نفاذ پر اعتراض کرچکے ہیں اور اس کی آڑ میں ہندو راشٹر کے قیام کی کوشش کا الزام عائد کر چکے ہیں۔
ان حقائق کے باوجود یکساں سول کوڈ کے مسئلہ کو ہوا دی جا رہی ہے ۔یہ مسئلہ ملک کے 20کروڑ مسلمانوں کا نہیں تقریباً 13کروڑ ان قبائل کا بھی ہے جو ملک کی ایک سے زائد ریاستوں میں رہتے ہیں اور ان میں سے کچھ ریاستوں کو آئین نے 371 کے تحت خصوصی درجہ اور تحفظات دے رکھے ہیں۔ ان قبائل میں عیسائی قبائل بھی ہیں اور سرینا نام کے مذہب کو ماننے والے قبائل بھی ہیں جن کے اپنے رسم رواج ہیں جو ہمارے آئین میں تسلیم شدہ رواجی قانون (W (CUSTOMRY LA کے تحت اپنے شادی بیاہ ،وراثت، وصیّت اور مرد و عورت کے مابین تعلقات وغیرہ سے متعلق رسم رواج کے مطابق صدیوں سے زندگی گزارتے آئے ہیں اور آزادی کے بعد ہمارے آئین سازوں نے بھی اس کا خاص خیال رکھا ہے۔ کیا بی جے پی کشمیر کی دفعہ 370کی طرح 371اور اس کی ذیلی دفعات کو ختم کرنے کی جرأت کر سکتی ہے؟ ان کے علاوہ عیسائی ، سکھ اورپارسی وغیرہ مذہبی اقلیتیں ہیں اورجنوبی ہند کے ان ہندوئوں کی تعداد بھی کم نہیں جن کے شادی بیا ہ وغیرہ کا طریقہ شاستروں پر عمل کرنے والے ہندوئوں سے الگ ہے لیکن ہدف صرف مسلمانوں کو بنا یا جا رہا ہے ، فسطائی، فرقہ پرست طاقتوں اور میڈیانے سرکار کی سر پرستی میں مسلمانوں پر یلغار بول رکھی ہے۔ بی جے پی کے نمائشی مسلم شعبے راشٹریہ مسلم منچ ،مسلم اقلیتی مورچہ بھی اسی کام پر لگے ہوئے ہیں چاپلوس میڈیا نہ صرف شہروں میں نیم خواندہ عام مسلمانوں کی چوپال لگا کر یکساں سول کوڈ پر ان سے ہاں کہلانے کی کوشش کرر ہاہے بلکہ چھوٹے مدارس کے غیر معروف مولوی اور قاری حضرات سے تین طلاق، حلالہ اورایک سے زائد بیویوں اور خواتین کی وراثت میں حصہ داری جیسے مسائل پر ان کے منھ میں اپنی با تیں رکھنے اور اپنی پسند کے جواب حاصل کرنے کیلئے زور آزمائی کررہا ہے۔حد تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے گھروں میں داخل ہو کر میڈیا کے نمائندے گھونگھٹ کر نے والی خواتین سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا حلالہ پر پابندی لگنی چا ہئے یا نہیں وغیرہ وغیرہ۔اس کی تصدیق ایک سے زائد دہلی اور نوئیڈا کے بڑے میڈیا کارپوریٹ کے ٹی وی چینلوں کی سوشل میڈیا پر ڈالی گئی کلپس سے کی جا سکتی ہے ۔جبکہ سچا ئی یہ ہے کہ یکساں سول کو ڈ یا یونیفارم سول کوڈ (UCC) کا مسئلہ ملک کا مسئلہ ہے ۔ سرکردہ علماء اور مسلم دانشور یہ بات ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے ہیں اور یہ بھی سب کومعلوم ہے کہ آزادی کے بعد سے یہ مسئلہ موجود ہے۔ دفعہ 44کی جو تلوار مسلمانوں کو دکھا ئی جا رہی ہے اس بابت آئین سازکمیٹی میں بحث اور اعتراضات کے بعد کمیٹی کے چیئر مین ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈ کر نے بھی اس بحث کو یہ کہہ کر مکمل کر دیا تھا کہ اسٹیٹ ملک کے تمام طبقات کی رضامندی سے آئین کے رہنما اصولوں میں شامل دفعہ 44کے تحت یونیفارم سول کوڈ یا یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی بتدریج کوشش کرسکتی ہے لیکن زور زبردستی اور جبراً اس کو کسی پر تھوپا نہیں جا سکتا۔یہی بات دفعہ 44کے ساتھ بھی شامل رکھی گئی ہے، لیکن باوجود اس کے دفعہ 44کی آڑ لے کر یکساں سول کوڈ کو جبراً تھوپے جانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ خاص طور پر جس سے اقلیتوں میں بے چینی ہے۔ 22ویں لاء کمیشن کے مانگے جا نے پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے اعتراض داخل کئے جانے کے علاوہ جمعیۃ علماء ہند (الف) نے علیحدہ سے اپنا اعتراض داخل کیا ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ اپنے قیام کے پہلے دن سے اسی بات کو کہتا آرہا ہے اور سرکار پر یہ واضح کرتا رہا ہے کہ یکساں سول کوڈ کا مسئلہ مسلمانوںکے مذہبی تشخص کے ساتھ ان کے عقیدہ اور دین و ایمان سے جُڑا ہے لہٰذا مسلمانوں کو اس سے مستثنیٰ رکھا جا ئے، لیکن سرکار اور لا ء کمیشن نے ایسا نہ کر کے مسلمانوں کے خلاف ہی محاذ آرائی شروع کردی ہے جبکہ سرکار کی طرف سے یہ خبریں بھی غیر مصدقہ طور گشت کررہی ہیں کہ سرکار یو نیفارم سول کوڈ سے قبائل کو مستثنیٰ رکھنے کا راستہ ڈھونڈ رہی ہے شاید یہ اس کی مجبوری ہے کہ وہ آئین کی 371اور اس کی ذیلی دفعات سے خود کو جکڑا ہوا محسوس کرتی ہے اور قبائل کی کروڑوں کی تعداد کو جو میگھالیہ،اروناچل پردیش، آسام، جھار کھنڈ،چھتیس گڑھ ،مہا راشٹر، گجرات ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں پھیلی ہو ئی ہے ابھی چھیڑ نا نہیں چاہتی اورا س وقت ایک لائق فائق قبائلی خاتون عزت مآب محترمہ دروپدی مرمو ہماری صدرِ جمہوریہ ہیں۔ یہ بات حکوت کو معلوم ہونی چایئے کہ اس حساس مسئلہ پر سیاست ہر گز ملک کے مفاد میں نہیںہے۔
یہاں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی مقتدر اور ذی علم شخصیات سے چند معروضات بھی ضروری ہیں۔ بورڈ سے بعض شکایات کے باوجود یہ تسلیم ہے کہ بورڈ اپنی طرف سے مسلم پرسنل لاء کی حفاظت کے لئے کو شاں ہے، لیکن اصلاحِ معاشرہ کی مہم غیر مؤثر دکھائی پڑتی ہے ، قانونی محاذ پر شاہ بانو کا مسئلہ ہو ،یا بابری مسجد اور تین طلاق کا مسئلہ ہو بورڈ عدالتوں میں ہزیمت اٹھاتا آرہا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ لاء کمیشن کے سابق چیئرمین اور معروف قانون داں پروفیسر طاہر محمود ،لائق اور فائق وکیل عبدالمجید میمن اور لاء یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اورمسلم یو نیورسٹی کے فیکلٹی آف لاء کے پروفیسر فیضان مصطفی جیسے ماہرین ِ قانو ن جو قانون کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں ان جیسے ماہرین کی خدمات لی جائیں۔ ان شخصیات کے علاوہ ملک کی دوسری مذہبی اقلیتوں کے ماہرقوانین سے بھی صلاح مشورہ کیا جا ئے ،جیسے پارسی فرقہ کے معروف قانون داں نریمن،قبائلی ماہرِ قانون سگما وغیرہ۔اگر ایسا ہوتا ہے تو عدالتوں میں اس لڑائی کو مؤثر ڈھنگ سے لڑا جا سکتا ہے اورموجودہ حالات میں یہ بھی ضروری ہے کہ بورڈ دوسری مذہبی اقلیتوں کو اعتماد میں لے کر اور ان کو ساتھ لے کر یہ لڑائی لڑے ،بورڈ کو ان کے ساتھ روابط بنانے چاہئے اورمل کر پروگرام کرنے چاہئے ہر چند کہ مہلت بہت کم بچی ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS