بن بیاہی لڑکیوں کے مسائل کا ذمہ دار کون ؟
مولاناعبدالحفیظ اسلامی
ہمارا معاشرہ اس وقت بن بیاہی لڑکیوں کے مسائل سے دوچار ہے، بالخصوص غریب طبقہ سے لے کر اوسط درجہ کے لوگ اس مسئلہ میں گھرے ہوئے ہیں۔ حیدرآباد اور اس کے اطراف کے علاقوں کا جائزہ لے کر دیکھا جائے تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ کوئی گھر ایسا نہیں ہے جن میں لڑکیاں بن بیاہی بیٹھی نہ ہوں، ان میں کتنی ہی لڑکیاں ایسی ہیں جو اپنی شادی کے انتظار میں بڑی عمر تک پہنچ چکی، جن کے سروں میں چاندی کا ظہور ہوچکا، دولت مند حضرات کے کچھ مسائل ہیں تو اوسط درجے کے لوگوں کے الگ مسائل ہیں اور غریب طبقہ جو روز کی روزی روز کے اساس پر زندگی بسر کررہا ہے ان کے مسائل بھی بہت دکھ بھرے ہیں۔
40-35 سال قبل بھی یہ مسائل تھے لیکن آسانی سے حل ہوجایا کرتے تھے جبکہ معاشی لحاظ سے اس شہر میں بسنے والے عام لوگ بہت کمزور تھے، لیکن مالدار لوگ اپنے دل میں عزیز و اقارب اور غرباء و مساکین کا بہت زیادہ پاس و خیال رکھتے تھے۔ اس طرح بن بیاہی لڑکیوں کا اتنا مسئلہ نہیں تھا جتنا کہ آج ہے۔ لیکن خدائے تعالیٰ نے ہم پر رحم فرماتے ہوئے عرب ممالک کے دروازے جب کھول دیا تو ہمارے معاشرہ کا رنگ ہی نہیں بلکہ ڈھنگ بھی تبدیل ہوگیا یعنی چالیس برس قبل جو معیار زندگی، طرز معاشرت تھا اس میں یکسر طور پر نمایاں تبدیلی محسوس کی جانے لگی۔ تقسیم ہند کے بعد سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند ہوتے چلے گئے اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا، نتیجہ کے طور پر مسلمانوں نے اپنی جائیداد غیر منقولہ کو جن میں بڑی بڑی کوٹھیوں اور دیوڑھیوں سے لے کر عام رہنے کے مکانوں کو تک بڑے بڑے سیٹھوں کے پاس اوّل تو رہن رکھ دیا، پھر دھیرے دھیرے ان ہی کے ہاتھوں لاکھوں ہزاروں روپئے کی جائیداد کو کوڑیوں میں فروخت کردیا۔ لیکن اللہ نے جب ان کی نئی نسل کو خلیجی ممالک میں روزگار مہیا کردیا تو ان کی زندگی میں ایک تبدیلی پیدا ہوئی اور اس نئی پود نے باہر ممالک میں ایسی محنت و مشقت کی کہ اپنے ملک کا نام روشن کیا۔ خود ملک کو فارن ایکسچینج ملا وہیں ان لوگوں نے اپنے بڑوں کی فروخت شدہ جائیدادوں کو کئی گنا اضافہ رقم دے کر واپس حاصل کرلیا۔ ایسی مثالیں ملک عزیز کے پرانے شہر کے اکثر محلوں میں ہمیں ملتی ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ لوگ اپنے پرانے مکانات کی تعمیر جدید کرچکے، کچّے مکانوں کی جگہ شاندار بنگلے تعمیر کئے گئے اور جہاں پر نئی نئی بستیاں بنیں وہاں بھی باہر کی محنتِ شاقہ کے ذریعہ کمائی ہوئی دولت سے اچھے اچھے مکانات تعمیر ہوئے اور ایک تبدیلی یہ بھی محسوس ہوئی کہ یہاں کے رہنے بسنے والوں کا تعلیمی شعور بھی جاگا جس کی وجہ سے ڈاکٹر و انجینئرس کی ایک قابل لحاظ تعداد ہمیں نظر آتی ہے۔ علاوہ ازیں کئی ایک خوشگوار تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب انسان کے پاس دولت آتی ہے اگر اس کا غلط استعمال کیا گیا تو پھر یہی دولت ایک اچھے معاشرہ کو خراب کرکے رکھ دیتی ہے۔ ٹھیک اسی طریقہ سے دولت ہمارے لوگوں کے لئے بھی آزمائش بنی ہوئی ہے۔
یوں تو ہمارے کئی مسائل ہیں جس میں کچھ ہماری لاعلمی کا دخل ہے اور کچھ لاپرواہی اور کاہلی کی بناء پر ہے اور ان میں کئی مسائل تو ایسے ہیں جو حکومتوں کی مہربانیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ خیر یہ ایک علیحدہ بحث ہے لیکن ہمارے عظیم ملک بھارت میں بن بیاہی لڑکیوں کے جو مسائل ہیں کیا اس کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی؟ اور ہمارا موجودہ مسلم معاشرہ اس کا ذمہ دار نہیں ہے؟یقیناً اس معاملہ میں ہم سب قصوروار ہیں۔
یہ ایک اصول ہے کہ جب معاشرے کے دولت مند لوگ اپنی زندگی میں اعتدال کا دامن چھوڑتے ہیں تو ان کا دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی ان کی نقالی میں اپنی چادر سے زیادہ پیر پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حیدرآباد کے علاوہ پورے ملک میں شادی بیاہ کے معاملہ میں کچھ ریاستوں کو چھوڑ کر یہی کچھ ہورہا ہے۔ اکثر لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ فلاں کی شادی فلاں سے ہورہی ہے اور یہ بات بھی جب معلوم ہوتی ہے کہ فلاں صاحب نے اپنی لخت جگر کی شادی میں اتنے لاکھ نقد دیا ہے اور بھاری قسم کا جہیز دیا ہے، بڑے شادی خانہ میں ضیافت کی گئی ہے یہ اور یہ پکوان کئے گئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ جب دولت مندوں کی یہ تصویر عام لوگوں کے سامنے آتی ہے تو ان کے اندر بھی لالچ پیدا ہوتی ہے اور لڑکی والوں سے ڈیمانڈ کئے جانے لگتے ہیں اور جو لوگ ان کی خواہشات کو پورا کرنے تیار ہوئے ان کا مسئلہ تو حل ہوگیا۔ لیکن اس کے پیچھے کئی مسائل وجود میں آئے جس کی بناء پر اوسط طبقہ اور غریب طبقہ بہت زیادہ متاثر ہوا اور ان کی لڑکیاں اٹھنا پہاڑ اْٹھنے جیسا ہوگیا۔ جوڑے گھوڑے کی لعنت اتنا جڑ پکڑ لی ہے کہ معمولی آدمی بھی بغیر لین دین یا کم جہیز پر ہرگز تیار نہیں۔ لوگوں کی مانگ کو پوری کرتے کرتے لڑکیاں والے اپنے گھروں کو تک فروخت کررہے ہیں اور جن کے پاس کچھ بھی نہیں ان کا تو اور بھی بْرا حال ہوگیا۔ بعض غریب لڑکیاں اپنی بیاہ کا بندوبست کرنے کے لئے مختلف کارخانوں کا رْخ کرتی ہیں تاکہ محنت مزدوری کرکے کچھ رقم جمع کرلی جائے لیکن اکثر موقع پر مالکین ان بے بس و نادار لڑکیوں کا استحصال کرتے ہیں، جو یہاں پر بیان نہیں کیا جاسکتا۔
دلہوں کے ہراج میں بڑھ چڑھ کر بولی دینے والا وہ متمول طبقہ تھوڑا اِس منظر کو اپنی آنکھوں میں لائے اور سوچے کہ جب محلہ کے کسی امیر گھرانے کی لڑکی کی شادی ہورہی ہو اور اس کی بارات بڑی دھوم دھام سے آتی ہو تو ان بن بیاہی لڑکیوں کے دل میں یہ بات پیدا ہوتی ہوگی کہ آہ کاش ہمارے والدین کے پاس بھی اتنی رقم ہوتی کہ ہمارے لئے بھی عقد، نکاح اور دولہن بننے کا انتظام ہوجاتا۔ دوسری جانب بے بس ماں باپ اپنی غریبی کا رنج و غم اپنے سینوں میں لئے تڑپ کر رہ جاتے ہیں۔
اس طرح ان نادار لڑکیوں کے دل سے نکلی ہوئی آہ اور ان کے دل کی تڑپ مالدار لوگوں کے ضمیر کو جگانے کے لئے کافی نہیں۔ جلسوں، وعظ و نصیحت کی محفلوں میں اور مسجد کے منبر و محراب سے موقع بہ موقع دین کی باتیںبیان کی جاتی ہیں اور گھوڑے جوڑے اور جہیز کی لعنت پر بھی لوگوں کو متوجہ کیا جاتا ہے لیکن افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ ’’من تو پرانا پاپی ہے‘‘ کے مصداق لوگ اصلاح حال پر توجہ نہیں لیتے۔ اب ہمیں اپنی حالت پر غور کرنا چاہئے۔ دولت مند لوگ کم سے کم شادی بیاہ کے معاملہ میں تو سادگی اختیار کریں اور بے جا رسومات سے پرہیز کریں۔ بیاہ کے موقع پر لڑکوں کو رشوت دینا بند کریں۔ اس طرح دولت مند اور بڑے لوگ اپنے اندر سدھار لائیں تو متوسط لوگوں کے اندر بھی تبدیلی آنے کی قوی اْمید کی جاسکتی ہے۔ دوسری چیز یہ کہ ہر انسان کی دولت میں دیگر بندوں کا بھی حق بنتا ہے۔ کوئی دولت مند شخض اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی کررہا ہو اْسے چاہئے کہ اپنے خاندان یا برادری یا پڑوس پر بھی ایک نظر ڈالے کہ کون کون لڑکیاں بن بیاہی بیٹھی ہیں پھر اِن میں سے کسی ایک لڑکی کی شادی بیاہ کا بندوبست کرے۔ یہ کام بہت آسان ہے جوکہ بے جا رسموں اور اسراف سے بچتے ہوئے تھوڑی کفایت شعاری سے کام لیا جائے تو ہمارے ملک میں بہت سی بن بیاہی لڑکیوں کے مسائل حل ہوسکتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو پھاڑ دے گا اور ہمارا معاشرہ گناہوں کے دلدل میں اْترتا چلا جائے گا جس کے جواب دہی ضرور ہوگی۔ کسی نے یہ بہت خوب کہا ہے:
ہوشیار کو یک حرف نصیحت ہے کفایت
ناداں کو کافی نہیں دفتر نہ رسالہ
جیساکہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ ہمارے منبر ومحراب سے شادی بیاہ اور ولیمہ کی تقاریب میں بیجا اخراجات پر روک لگانے اور جوڑے گھوڑے کی لعنت سے بجنے کی خوب سے خوب تر نصیحتیں کی جاتی ہیں اور ان خطیب حضرات و ائمہ مساجد کی باتوں کو غور سے سنا بھی جاتا ہے، لیکن بات مسجد سے باہر نکلتے ہی بے اثر ہوجاتی ہے ایسا آخر کیوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ راقم الحروف نے پچھلے 20 برسوں میں اس موضوع پر بہت سارے مضامین لکھے ہیں اور حالات کا جائزہ بھی لیا ہے تو یہ بات معلوم ہوئی کہ ہمارے اکابر جن میں علماء و مشائخ اور نظماء مدارس کے علاوہ ائمہ وخطباء کا ان لوگوں کی شادی بیاہ اور دعوت ولیمہ میں شرکت کرنا ہے، و نیز دینی جماعتوں کے ذمہ داروں کا ان تقاریب میں شریک ہونا سند جواز بن رہا ہے۔