عذاب قبر سے بچیں

0

مفتی اصغرعلی قاسمی

’’عذاب قبر ‘‘ قرآن کریم ،احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔جس طرح دنیا میں آنے کے لئے ماں کا پیٹ پہلی منزل ہے اور اس کی کیفیات دنیا کی زندگی سے مختلف ہیں، بعینہ اس دنیا سے اخروی زندگی کی طرف منتقل ہونے کے اعتبار سے قبر کا مقام اور درجہ ہے۔ قبر آخرت کی منزلوں میں سب سے پہلی منزل ہے ۔اور اس کی کیفیات کو ہم دنیا کی زندگی پر قیاس نہیں کر سکتے ہیں۔
عذاب قبر سے مراد وہ عذاب اور سزا ہے جو موت سے لے کر حساب وکتاب کے لیے دوبارہ اٹھائے جانے یعنی قیامت سے پہلے تک اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کودی جاتی ہے ۔ نبی کریم ؐ نماز کے تشہد میں اور اپنی دیگر دعاؤں میں عذاب قبر اور قبر وحشر کے فتنوں سے بکثرت اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ اس لئے اہل سنت والجماعت کے عقیدے کے مطابق عذاب قبر بر حق ہے اور اس پر کتاب وسنت کی بہت سی دلائل و براہین واضح طور پر دلالت کرتی ہیں ۔جبکہ بعض کوتاہ نظر ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس کا انکار کیاہے۔ جیسا کہ عصر حاضر میں منکرین حدیث ہیں جو اس کا کلی انکار کرتے ہیں اور اسی طرح برزخیوں کا ٹولہ ہے جو کہتے ہیں کہ اس قبر میں میت کو عذاب نہیں ہوتا۔
عذاب قبر کے ثبوت میں احادیث:
(۱)حضرت امام خالد بنت خالد بیان کرتی ہیں کہ میں نے سنا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عذاب قبر سے پناہ طلب کررہے تھے۔ بخاری شریف ۔ (۲)حضرت سعدؓ پانچ کلمات پڑھنے کا حکم دیتے تھے اور ان کلمات کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے تھے :(۱)اے اللہ!میں بخل سے سیری پناہ میں آتا ہوں(۲)اے اللہ!میں بزدلی سے تیری پناہ میں آتا ہوں(۳) اے اللہ!میں ارذل عمر(ناکارہ حیات)سے تیری پناہ میں آتا ہوں (۴) اے اللہ !میں دنیا کے فتنہ یعنی فتنہ دجال سے تیری پناہ میں آتا ہوں(۵)اے اللہ !میں عذاب قبر سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ بخاری شریف ۔ (۳) حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ یہود کی بوڑھی عورتوں میں سے دو بوڑھی عورتیں میرے پاس آئیں، وہ کہنے لگیں کہ قبر والوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جاتا ہے، میں نے ان کی تکذیب کی اور ان کی تصدیق کرنے کو اچھا نہیں جانا، وہ چلی گئیں اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، میں نے آپ سے عرض کیا اور ان دو بوڑھی عورتوں کے آنے اور عذاب قبر کی خبر دینے کا تذکرہ کیا، آپ نے فرمایا : ان دونوں نے سچ کہا، قبر والوں کو اتنا عذاب دیا جائے گا کہ اس کو تمام جانور سنیں گے، پھر میں نے دیکھا کہ آپ جب بھی نماز پڑھتے تو عذاب قبر سے پناہ طلب کرتے۔بخاری شریف ۔حا فظ ابن حجر عسقلانیؒ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ اس سے پہلے آپ پر یہ وحی نہیں کی گئی تھی کہ مومنوں کو بھی عذاب قبر ہوگا، آپ کو وحی سے صرف یہ علم تھا کہ یہود کو عذاب قبر ہوتا ہے اور اس موقع پر آپ کے پاس یہ وحی آئی کہ مومنوں کو بھی عذاب قبر ہوگا، آپ کو وحی سے صرف یہ علم تھا کہ یہود کو عذاب قبر ہوتا ہے اور اس موقع پر آپ کے پاس یہ وحی آئی کہ مومنوں کو بھی عذاب قبر ہوگا، تب آپ نے عذاب قبر سے پناہ طلب کی۔ فتح الباری۔ (۴)حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا کرتے تھے : اے اللہ !میں عاجزی سے سستی سے، بزدلی سے اور بڑھاپے سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور عذاب قبر سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور زندگی اور موت کے فتنہ سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ بخاری شر یف ۔ (۵) حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مردوں کو قبر میں عذاب دیا جائے گا حتی کہ جانور بھی ان کی آوازوں کو سنیں گے۔(معجم کبیر)(۶)حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تم مردوں کو دفن کرنا نہ چھوڑو تو میں اللہ سے دعا کروں کہ وہ تمہیں عذاب قبر سنائے۔(صحیح مسلم)
(۷)حضرت عثمان بن عفان ؓکے آزاد کردہ غلام ہانی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے کہ آپ کی ڈاڑھی آنسوں سے بھیگ جاتی، آپ سے کہا گیا کہ آپ جنت اور دوزخ کا ذکر کرتے ہیں تو آپ نہیں روتے اور قبر کو یاد کرتے ہیں تو اس قدر روتے ہیں، آپ نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آخرت کی منازل میں سے پہلی منزل قبر ہے، اگر انسان کو اس منزل سے نجات مل جائے تو اس کے بعد کی منازل زیادہ آسان ہوتی ہیں اور اگر اس منزل میں نجات نہ ہو تو بعد کی منازل زیادہ دشوار ہوتی ہیں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ میں نے قبر سے زیادہ ڈرانا اور وحشت ناک منظر اور کئی نہیں دیکھا، اس حدیث کی سند حسن ہے۔ترمذی۔ (۸)حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کافر پر اس کی قبر میں ننانوے سانپ مسلط کیے جاتے ہیں جو اس کو کاٹتے ہیں اور بھنبھوڑتے رہیں گے حتی کے قیامت قائم ہوگی، اگر ان میں سے ایک سانپ زمین میں پھونک مارے تو زمین سبزہ نہیں اگائے گی۔ مسند احمد۔ (۹)حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مومن کیلئے قبر میں ضرور سرسبز باغ ہوتا ہے، اس کی قبر میں ستر ہاتھ وسعت کردی جاتی ہے اور اس کی قبر کو چودھویں رات کے چاند کی طرح منور کردیا جاتا ہے، کیا تم کو علم ہے کہ یہ آیت کس کے متعلق نازل ہوئی ہے ؟ترجمہ :اور جو میری یاد سے اعراض کرے گا، اس کی زندگی تنگی میں گزرے کی اور اسے ہم قیامت کے دن اندھا کرکے اٹھائیں گے۔(طہ: 124)۔ تشریح :آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ تنگی میں زندگی گزارنے سے کیا مراد ہے ؟ مسلمانوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول ہی کو علم ہے، آپ نے فرمایا : اس سے مراد کافر کا عذاب قبر ہے اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، اس(کافر)کے اوپر ننانوے تنین مسلط کئے جائیں گے، تم کو معلوم ہے تنین کیا چیز ہیں ؟ وہ ستر سانپ ہیں، ہر سانپ کے سات سر ہیں، وہ اس کو قیامت تک کاٹتے اور ڈنک مارتے رہیں گے۔مسند ابویعلی۔(۱۰)حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی شخص کو قبر میں دفن کیا جاتا ہے تو اس کے پاس دو سیاہ رونیلی آنکھوں والے فرشتے آتے ہیں۔ ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے وہ کہیں گے کہ تم اس شخص کے متعلق کیا کہتے تھے ؟ پس وہ شخص وہی کہے گا : جو وہ زندگی میں کہتا تھا، وہ کہے گا : وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، وہ فرشتے کہیں گے کہ ہم کو معلوم تھا کہ تم یہی کہو گے، پھر اس کی قبر میں ستر ہاتھ در ستر ساتھ وسعت کردی جائے گی، پھر اس کی قبر منور کردی جائے گی، پر اس سے کہا جائے گا : سو جا ! وہ کہے گا : میں اپنے گھرجا کر گھر والوں کو اس کی خبر دوں، فرشتے کہیں گے : تم اس دولہن کی طرح سو جا جس کو وہی شخص بیدار کرتا ہے جو اس کو گھر والوں میں سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے حتی کہ اللہ اس کو اس کی قبر سے اٹھائے گا اور اگر وہ منافق ہو تو وہ کہے گا : میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے ہوئے سنا تو میں نے بھی اس کی مثل کہہ دیا، مجھے کچھ علم نہیں، فرشتے کہیں گے : ہم کو معلوم تھا کہ تم یہی کہو گے، پھر زمین سے کہا جائے گا : اس کو دبا، زمین اس کو دبائے گی تو اس کی پسلیاں ایک طرف سے دوسری طرف نکل جائیں گی، پھر اس کو مسلسل عذاب ہوتا رہے گا حتی کہ اللہ اس کو اس کی قبر سے اٹھائے گا۔سنن الترمذی ۔ (۱۱)حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب بندہ کو اس کی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی پیٹھ پھیر کر چلے جاتے ہیں تو وہ لوگوں کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے، اس کے پاس دو فرشتے آکر اس کو بٹھا دیتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ تم اس شخص (سیدنا محمد )صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیا کہا کرتے تھے ؟ وہ کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کے بندہ اور اس کے رسول ہیں، پھر اس سے کہا جاتا ہے : دیکھو اپنے دوزخ کے ٹھکانے کو، اللہ نے اس کو تمہارے لیے جنت کے ٹھکانے سے تبدیل کردیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ اپنے دونوں ٹھکانوں کو دیکھے گا اور رہا کافر یا منافق تو وہ کہتا ہے : میں نہیں جانتا، میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے، اس سے کہا جائے گا : تم نے نہ کچھ جانا نہ کہا، پھر اس کے دوکانوں کے درمیان لوہے کے ہتھوڑے سے ضرب لگائی جاتی ہے جس سے وہ چیخ مارتا ہے اور جن وانس کے علاوہ سب اس کی چیخ کو سنتے ہیں۔ بخاری شریف ۔
(۱۲)حضرت عثمان بن عفانؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کو دفن کرکے فارغ ہوئے تو آپ اس کی قبر پر کھڑے رہے اور فرمایا : اس کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو کیونکہ اس سے سوال کیا جائیگا۔ (سنن ابوداؤد۔ (۱۳)حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب میت کو قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو اسے ڈوبتے ہوئے سورج کی مثل دکھائی جاتی ہے تو وہ آنکھیں ملتا ہوا بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے : مجھے نماز پڑھنے دو ۔( ابن ماجہ)
اسباب عذاب قبر : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: پیشاب(کے چھینٹوں)سے بچو؛ کیوں کہ عمومی قبر کا عذاب اسی وجہ سے ہوتا ہے۔ دارقطنی۔اس حدیث میں نبی ؐ نے عذاب قبر کے اسباب میں سے ایک سبب کو ہمارے لیے بیان فرمایاہے ، جو کہ بہت زیادہ پایا جاتا ہے، یعنی پیشاب سے نہ بچنا اور اس سے پاک صاف نہ رہنا۔
عذاب قبر سے حفاظت: حضرت ابوہریرؓ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :قرآن مجید میں ایک ایسی سور ۃہے جس کی تیس آیات ہیں وہ آدمی کی سفارش کرے گی حتیٰ کہ اسے بخش دیا جائے گا ، اور وہ سورۃ الملک ہے ۔ سنن ترمذی ۔ اس حدیث سے مراد اور مقصود یہ ہے کہ انسان اس سورہ کو ہر رات پڑھے اور اس کے احکام پر عمل کرے اور اس میں پائے جانے والے اخبار پر ایمان لائے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جس نے ہر رات سورۃ الملک پڑھی، اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اسے عذاب قبر سے نجات دے گا ۔ ہم اس سور ہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ’’المانعۃ‘‘ بچا ؤکرنے والی سورہ کہتے تھے ۔ کتاب اللہ میں یہ ایسی سورہ ہے جو بھی اسے ہررات پڑھے گا، اس نے بہت اچھا اور زیادہ کام کیا ۔ (سنن النساء ) اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو عذاب قبر سے محفوظ فرمائے۔ آمین

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS