محمد حنیف خان
سماج بہت سی وحدتوںکا مجموعہ ہے،وہ متعدد اکائیوں سے مل کر تشکیل پاتا ہے جس میں عام افراد سے لے کر حکومت سے وابستہ افراد بھی شامل ہیں، چھوٹے، نوجوان، بزرگ ،مرد اور عورت سب اس کی وحدتیں ہیں۔اسی طرح کسان، تاجر، فوجی، طالب علم، اساتذہ، سیاستداں اور منتظمہ کے افراد بھی اسی کی اکائی ہیں۔جب ہر ایک اپنی ذمہ داریاں ادا کرتا ہے تو ایک پرامن سماج کی تشکیل ہوتی ہے، جس سے ملک و سماج دونوں ترقی کرتے ہیں۔چونکہ سماج متعدد اکائیوں کا مجموعہ ہے، اس لیے اس میں پرامن شہریوں کے ساتھ ہی شر پسند بھی ہوتے ہیںجن کے شر سے پر امن شہریوں کو محفوظ رکھنے کے لیے محکمہ پولیس کا وجود عمل میں آیا،دوسرے لفظوں میں اگر کہا جائے تو جس طرح بیرونی حملوں اور شر و فساد سے ملک کو مامون و محفوظ رکھنے کے لیے فوجی ہوتے ہیں،بالکل اسی طرح اندرونی شرپسندوں سے نمٹنے کے لیے پولیس ہوتی ہے۔مگر پولیس کا کام پر امن شہریوں کو خوف زدہ کرنا نہیں ہوتا ہے۔
ملکی سلامتی کے قومی مشیر اجیت ڈوبھال ایک ایسے شخص ہیں جنہوں نے ملک و قوم کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردی، پہلے خفیہ ایجنسی میں رہے،پھر اس کے سربراہ ہوئے اور اب سبکدوشی کے بعد قومی سلامتی کے مشیر ہیں۔ وہ سرحدوں کی حفاظتوں کے ساتھ ہی داخلی سلامتی پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ایسے مواقع بھی سامنے آئے ہیں جب فسادات کے ایام میں وہ شہریوں کے درمیان گئے اور حالات کو قابو میں کوشش کرنے کے جتن کیے۔چونکہ مشیر برائے قومی سلامتی ایک نہایت اہم عہدہ ہے، اس لیے اس کی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔گزشتہ دنوں وہ حیدر آباد میں واقع نیشنل پولیس اکیڈمی میں تھے جہاں تربیت یافتہ افسران سے خطاب کر رہے تھے۔یہ وہ افسران ہیںجو قوم کی خدمت اور ان کی سلامتی کے لیے اپنی ڈیوٹی پر جانے والے تھے۔ان کو خطاب کرتے ہوئے جو بات انہوں نے کہی اس سے شہریوں کی پیشانیاں شکن آلود ہوگئیں اور یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ آخر اتنا اہم افسر اب ایسا کیوں سوچنے لگا؟وہ افسران کو کس طرح کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی تلقین کرنے لگا ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ ’’جنگ کا نیا مورچہ اب سول سوسائٹیاں ہیں۔‘‘اب سب سے پہلے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سول سوسائٹی کے ضمن میں کون سے لوگ آتے ہیں؟
سول سوسائٹی سماج کی وہ اکائی ہے جو حکومت اور اس کے اداروں کی پروا کیے بغیر حقوق انسانی کے لیے منظم طور پر کام کرتی ہے۔اس کو جہاں کہیں بھی کمی نظر آتی ہے بغیر کسی کی پرواہ کیے اس کے خلاف وہ میدان میں آجاتی ہے۔وہ جو بھی کرتی ہیں، مفاد عامہ میں کرتی ہیں۔اس کی ایک زندہ مثال دہلی میں نربھیا ریپ کیس ہے۔ جب دہلی میں اتنی بڑی واردات ہوئی تو سول سوسائٹیاں میدان میں آگئیں، یہیں سے حکومت کے تختہ پلٹ کی بنیاد پڑی اور الیکشن میں مقتدرہ پارٹی کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔عالمی سطح پر اگر اس کی اہمیت دیکھی جائے تو عرب بہاریہ جو تیونس سے شروع ہوئی تھی جس نے کئی ملکوں کی نئی تاریخ رقم کردی، اس میں بھی سول سوسائٹیاں ہی کار فرماں تھیں۔ایمنسٹی انٹر نیشنل سمیت ملک میں متعدد ملکی و غیر ملکی سماجی تنظیمیں ہیں جو عوام کے لیے کام کرتی ہیں، سماج کے مختلف پہلوؤں پر ریسرچ کرتی ہیں اور پھر وقتاً فوقتاً اپنی رپورٹ بھی شائع کرتی ہیں۔یہ حکومتوں کے عوام مخالف یا عوام کو نقصان پہنچانے والے پروجیکٹوں اور منصوبوں کے خلاف میدان میں آجاتی ہیں۔جس طرح سے ملک کے مختلف علاقوں میںجنگل کی کٹائی کرکے ترقیات کے نام پرکنکریٹ کے محل تیار کیے جارہے ہیں،اس کے خلاف یہ سول سوسائٹیاں ہی لڑ رہی ہیں۔اسی طرح گلوبل وارمنگ ،فضائی آلودگی اور ندیوں کی صفائی وغیرہ سے متعلق یہی سول سوسائٹیاں میدان میں دکھائی دیتی ہیں۔ ان سوسائٹیوں کی رپورٹ پر عالمی سطح پر اس لیے توجہ دی جاتی ہے کیونکہ ان کے ذاتی مفادات اس سے وابستہ نہیں ہوتے ہیں جبکہ حکومت کی رپورٹ کو شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ حکومتوں کو اپنا چہرہ پالش کرنا ہوتا ہے، اس لیے وہ ایسی رپورٹ کو یا تو شائع نہیں کرتی ہیں یا پھر ان کو ہلکا کردیتی ہیں جن سے حکومت کی شبیہ خراب ہوتی ہو۔حکومتیں تو ہمیشہ چین ہی چین لکھتی ہیں اور لکھنا چاہتی ہیں، اس لیے حکومت کی ناک میں نکیل ڈالنے کے لیے عالمی سطح پر سول سوسائٹیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے خواہ ان کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو۔
این ایس اے اگر ان سول سوسائٹیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو اس کے پیچھے بہت سے عوامل کار فرما ہوں گے۔مگر ان کی اس بات سے دانشور طبقہ میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔کہنے کے لیے وہ یا حکومت کوئی بھی سماج کو مطمئن کرنے کے لیے کہہ سکتا ہے کہ چونکہ ان سول سوسائٹیوں میں بھی شرپسند افراد گھس آئے ہیں یا غیر ملکی طاقتوں کے کھلونے بن کر ملک کی شبیہ خراب کر رہے ہیں، اس لیے پولیس کے اعلیٰ افسران کو ہوشیار کیا گیا ہے اور ان کو بتایا گیا ہے کہ کس طرح داخلی سلامتی کو یقینی بنانا ہے اور اس کے لیے کہاں کہاں نظر رکھنی ہے، بادی النظر میں یہ بات بھلی معلوم ہوتی ہے اور سچ بھی لگ سکتی ہے،اٹھنے والی انگلیوں کا اس طرح کی باتوں سے رخ بھی موڑا جا سکتا ہے لیکن یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔اس کے پس پشت بہت کچھ ایسا ہے جس سے حکومت کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیا جائے تو اس میں یہ سوسائٹیاں ناکام نظر آئیں گی جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے ان کے خلاف بہت سختی کا مظاہرہ کیا ہے۔ان کی باتوں پر کان نہیں دھرا کیونکہ اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اس سے اس کی شبیہ خراب ہوتی ہے یا پھر اس سے وابستہ افراد کسی کے آلہ کار ہیں اس لیے ان کی باتوں کو توجہ ہی نہیں دی گئی جبکہ سماج نے ان سول سوسائٹیوں کی وجہ سے حکومت کی اصلیت اور اس کا اصلی چہرہ دیکھا۔مثال کے طور پر جب سی اے اے اور این پی آر سے متعلق بل پاس ہوئے اور اس کے خلاف مسلمان میدان میں آئے تو سول سوسائٹیوں نے ان کا ساتھ دیا۔اس مسئلے کو انہوں نے ہی عالمی سطح کا بنا دیا مگر حکومت نے اس پر غور کرنے کے بجائے ان کے خلاف کریک ڈاؤن کرد یا۔یہی حال کسانوں کے خلاف لائے گئے تین بلوں کا ہے۔کسان ان بلوں کے خلاف سڑک پر ہیں جن کا ساتھ سول سوسائٹیاں دے رہی ہیں،ان کو محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے ان کے خلاف بل پاس کیا ہے مگر چونکہ مسئلہ حکومت کے خلاف ہے اس لیے اس نے کسانوں اور سول سوسائٹیوں دونوں کو درکنار کردیا ہے۔اس طرح حکومت نے جمہوریت سے آمریت کی طرف چلنا شروع کردیا۔وہ سول سوسائٹیاں جو حکومت کو آمریت کی طرف سفر سے روکتی تھیں، وہی اب بے دست و پا نظر آ رہی ہیں۔ان ہی سول سوسائٹیوں کی طرف این ایس اے نے اشارہ کیا ہے اور ان کو خطرے کی صورت میں نشان زد کیا ہے۔
ریوڑ میں اگر ایک بھیڑیا گھس آئے تو اس کیلئے پورے ریوڑ کو نہ چھوڑا جاسکتا ہے اور نہ ہی مارا جا سکتا ہے۔فوجیوں سے زیادہ محب وطن کون ہو سکتا ہے جو ملک کی سرحدوں کی حفاظت اپنی جان کی بازی لگا کر تا ہے مگر ان میں بھی بہت سے ایسے تھے جو دشمنوں کیلئے کام کرنے کے جرم میں گرفتار کیے گئے۔کیا اس ایک یا چند کی وجہ سے پوری فوج کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جا سکتا ہے بعینہٖ یہی معاملہ سول سوسائٹیوں کے ساتھ ہے۔ یہ سول سوسائٹیاں جمہوریت کو جمہوریت بنائے رکھنے میں کسی بھی دوسرے ادارے سے زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہیں ،اس میں حکومت کی راتب سے دانشوری نہیں آتی ہے بلکہ سماج کا درد، ملک سے محبت اور حقوق انسانی کی پاسداری ان کو بے چین رکھتی ہے۔اس لیے ان کے خلاف پولیس افسران کو اکسانے کے بجائے ان کے لیے راہ مزید آسان کی جانی چاہیے اور ایسا ماحول دینا چاہیے جس میں وہ ملک و قوم کی آزادانہ خدمت کرسکیں، اسی میں ہماری اور جمہوریت کی بھلائی ہے ورنہ آمریت کا شکنجہ کسے جانے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
[email protected]