ایم اے کنول جعفری
گزشتہ 11 برسوں میں ہندوستان کی شہریت کو خیرباد کہہ کر دوسرے ممالک میں جا بسنے والے افراد کی تعداد 16لاکھ سے تجاوز کرگئی۔9 فروری کو ایوان بالا میں حکومت کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2011 سے 2022تک16,63,440لوگوں کے ذریعہ وطن کی شہریت چھوڑنے کو نیک فال نہیں کہا جاسکتا۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ایک سوال کے تحریری جواب میں بتایا کہ سال 2011میں 1,22,819لوگوں نے ہندوستان کی شہریت چھوڑی۔ 2012 میں 1,20,923افراد نے، 2013 میں 1,31,405 اشخاص نے،2014 میں 1,29,328 لوگوں نے، 2015 میں 1,31,489 افراد نے، 2016 میں 1,41,603 اشخاص نے، 2017 میں 1,33,049 لوگوں نے، 2018 میں 1,34,561 شہریوں نے، 2019میں 1,44,017 افراد نے، 2020 میں 85,256اشخاص نے، 2021 میں 1,63,370 لوگوں نے اور 2022 میں 2,25,620 شہریوں نے دوسرے ممالک کی شہریت اختیارکی۔
کسی شخص کے ہندوستانی شہری ہونے کا تعین آئین کی دفعات پانچ تا 11(حصہ دوم) کے تحت کیا جاتا ہے۔ یہ قانون شہریت کے ایکٹ 1955سے متعلق ہے۔اس میں1986،1992،2003، 2005اور2015میں ترامیم کی گئی ہیں۔ آئین کی دفعہ9 کے مطابق اپنی مرضی سے دوسرے ملک کی شہریت لینے والا شخص ہندوستان کا شہری شمار نہیں کیا جائے گا۔ پاسپورٹ ایکٹ کے مطابق دوسرے ملک کی شہریت پانے والے شخص کو ہندوستانی شناختی دستاویزات کے استعمال کرنے کا حق نہیں رہے گا۔ اُسے ہر حالت میں ہندوستانی پاسپورٹ، ووٹر کارڈ اور شناختی کارڈ وغیرہ واپس کرنے ہوں گے۔ اس صورت میں پاسپورٹ واپس نہیں کرنا قابل تعزیر جرم ہے۔یکم جنوری 1949میں جب برطانوی قومی ایکٹ برائے1948پر عمل شروع ہواتو تب سے 25جنوری 1950تک بھارتی شہری بھارتی صوبوں میں رہنے والی برطانوی رعیت مانے جاتے تھے۔ 26نومبر 1949سے برطانوی ریاستوں میں رہنے والے افراد کو ہندوستانی شہریت دی گئی۔ 26جنوری 1950کو آئین ہند کے نفاذ کے ساتھ بھارت جمہوری ملک بن گیا۔ 1955میں آئین ہند میں ترمیم کے بعد نوابی ریاست یا باہر پیدا ہونے والے تمام افراد بھارتی شہری قرار دیے گئے۔ 20دسمبر 1961 کو فوجی کارروائی کے بعد پرتگال کے زیر انتظام علاقے گوا، دمن و دیو اور دادر نگر حویلی پر ہندوستان کا قبضہ ہوگیا۔ پانڈچیری، کریکل،ماہی، ینم اور چندرانگر کا فری ٹاؤن فرانس سے معاہدے کے بعد بھارت کا حصہ بن گئے۔ 16مئی 1976کو سکم بھارت کا حصہ بنا۔ بھارت کے مشرقی جانب کے کچھ حصے پاکستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ معاہدوں کے تحت بھارت کا حصہ بنے۔ حکومت ہند کی جانب سے1962میں جاری حکم نامے کے تحت گوا، دمن اور دیو کے لوگ بھارتی شہری بنے،تو دادر نگر حویلی اور پانڈچیری کے رہنے والوںکو بھی شہریت دی گئی۔بعد میں صدر جمہوریہ نے اپنے اختیارات کا استعمال کرکے شہریت کے حقوق کی دفعہ7 کے تحت سکم کو بھی شامل کر لیا۔شہریت ایکٹ 1955کی دفعہ8 کے تحت کسی بالغ اور عاقل ہندوستانی کے شہریت چھوڑنے کے فیصلے سے اس کی شہریت ختم ہونے کے ساتھ ہی اس کے نابالغ بچوں کی شہریت بھی ختم ہوجاتی ہے۔دوسری جانب اس طرح کے بچے کی عمر18برس ہونے پر اُسے بھارتی شہریت واپس لینے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ 1956 کی شہریت قانون کے مطابق دوسرے ملک کا پاسپورٹ حاصل کرنے کو اُس ملک کی شہریت اختیار کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔
گزشتہ برس جولائی میں پارلیمنٹ میں پیش دستاویزات میں کہا گیا کہ شہریت چھوڑنے والے لوگوں نے ذاتی وجوہات کی بنا پر بھارت کی شہریت ترک کی۔ وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق2021 میں جن 1,63,370افراد نے ہندوستان کی شہریت چھوڑی، اُن میں78,284لوگوں نے امریکہ،23,533 لوگوںنے آسٹریلیا، 21,597 نے کنیڈا،300نے چین اور 41افراد نے پاکستان کی شہریت اختیار کی۔ 2015 سے 2020کے درمیان آٹھ لاکھ سے زیادہ اور 2011 سے 2022کے درمیان16لاکھ سے زیادہ افراد نے ہندوستانی شہریت ترک کی۔ اس تعداد کو کسی بھی صورت میں کم نہیں کہا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہندوستان کے شہری اپنے آبائی وطن کی شہریت کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ غیر ممالک کی شہریت لینے کے پیچھے لوگوں کے الگ الگ دلائل ہیں۔ امریکہ کی شہریت حاصل کرنے والے کئی افراد کی دلیل ہے کہ امریکہ میں نوکری اور کام کاج کے زیادہ مواقع حاصل ہونے کے علاوہ وہاں موجود بہتر سہولیات کی بنا پر زندگی بہت آسان ہے۔زندگی کا معیار بہت اچھا ہے۔ بہتر تعلیم کی بدولت بچے پڑھائی میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔کام کرنے کے لیے ماحول بہت اچھا ہے۔ تنخواہ بھی اچھی ملتی ہے۔ کنیڈا کو پسند کرنے والوں کی دلیل ہے کہ وہاں تعلیم کا معیار بہت اچھا ہے۔ تعلیم کے بعد نوکری کے زیادہ مواقع ہیں۔ کام کا اچھا ماحول وہاں کی شہریت لینے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔کام کے اوقات طے ہونے کے علاوہ کام کی جگہ پر قواعدو ضوابط کی پیروی کی جاتی ہے۔ تنخواہ بھی کام کے مطابق ملتی ہے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ کوئی بھی شخص خوشی سے اپنا وطن چھوڑنا نہیں چاہتا،لیکن بہتر کام، زیادہ روپے اور بہتر و خوشحال زندگی کی خاطر ملک چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
بڑی تعداد میں ہندوستانیوں کے ذریعہ ملک کی شہریت چھوڑنے کو لے کر سیاست بھی شروع ہو گئی ہے۔ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی(این سی پی) کے ترجمان کلائیڈ کریسٹو نے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے ذریعہ ایوان بالا میں ہندوستانی شہریت چھوڑنے اور دنیا بھر کے 135ممالک کی شہریت اختیار کرنے والے بھارتیوں کی تعداد پر مبنی سالانہ ڈاٹا جاری کرنے کے اگلے روز مودی حکومت سے سوال کیا،’ اگر ہندوستان میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے تو لوگ اپنی شہریت کیوں چھوڑ رہے ہیں؟‘ سال 2022 میں 2,25,620 لوگوں کے ذریعہ شہریت چھوڑنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اوسطاً روزانہ 618 لوگوں نے ہمیشہ کے لیے ملک عزیز کو خیرباد کہہ دیا۔شہریت چھوڑنے والے لوگوں نے امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، البانیہ، ویٹکن، زمبابوے، کینیڈا، پرتگال، نیوزی لینڈ اور متحدہ عرب امارات سمیت 135 ممالک میں سے کسی ایک ملک کی شہریت حاصل کی ہے۔کریسٹو نے شہریت چھوڑ کر ملک سے جانے کی وجہ بڑھتی مہنگائی کو بتایا۔ وزیر مملکت برائے داخلہ نتیا نند رائے نے دسمبر2021کو کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ہیبی ایڈن کے سوال کے تحریری جواب میں بتایا تھا کہ غیر ملکی دوروں کے سلسلے میں عائد پابندیوں کے نرم کیے جانے کی وجہ سے بھارتی شہریت ترک کرنے کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا۔اس سے قبل تعلیم اور روزگار کو ترک سکونت کی کلیدی وجہ بتایا گیا تھا۔ شہریت ترک کرنے کی ایک وجہ پاسپورٹ کی عالمی درجہ بندی میں69ویں مقام پر ہونا بھی ہے جس کی وجہ سے بھارتی پاسپورٹ والے شہریوں کو مختلف ممالک کے سفر میں کئی قسم کی دشواریاں پیش آتی ہیں۔ مختلف امور پر سروے کرنے والے ادارے’سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹی‘ سے وابستہ پروفیسر ہلال احمد کے مطابق سیاسی، سماجی اور اقتصادی ماحول کا اچھا نہ ہونا، امن پسند شہری کے پاس دوسرے ملک میں جانے کے وسائل کا موجود ہونا اور جرائم میں تیزی سے اضافہ ہونا شہریت ترک کرنے کی وجوہات میں شامل ہیں۔ اس سلسلے میں جہاں حکومت کو اپنے وطن کے ساتھ شہریوں کی دلچسپی کم ہونے پر سنجیدگی سے غور وفکر کرنا چاہیے،وہیں شہریوں کو بھی جلدی بازی میں فیصلہ لینے کے بجائے سوچ سمجھ کر قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]