عرب ممالک برکس کا حصہ کیوں بننا چاہتے ہیں؟

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللہ

اس سے قبل کہ برکس میں عرب ممالک کی رکنیت پر روشنی ڈالی جائے، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ برکس کا وجود عمل میں کیسے آیا۔ اس تنظیم کی فکری بنیاد سب سے پہلے 2001 میں پڑی جب گولڈمین ساکس کے چیف اکنانمسٹ جیم اونیل (Jim O’Neill) نے اپنا ایک مضمون لکھا تھا اور پھر اپنے دوسرے مضمون میں اس کی مزید تشریح پیش کی تھی۔ جیم اونیل کے مطابق چونکہ انڈیا، برازیل، روس اور چین نہ صرف دنیا کی چار بڑی اقتصادیات میں شامل تھیں بلکہ سب سے تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی منزلیں طے کرنے کی طرف بھی گامزن تھیں۔ جیم اونیل نے اس بات پر زور دیا تھا کہ آنے والی دہائی میں یہ چار ممالک ایک مضبوط اقتصادی قوت کے طور پر نمودار ہوں گے، اس لیے ان کا ایک ساتھ آنا امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے دبدبہ کو چیلنج کر سکتا ہے۔ اس آئیڈیا کے سامنے آنے کے بعد مذکورہ بالا چاروں ممالک کے لیڈران اس کو بروئے کار لانے کے لیے کئی اعلی سطحی میٹنگیں کیں اور بالآخر 16 جون 2009 میں اس کی باضابطہ پہلی سالانہ میٹنگ کا انعقاد روس کے شہر ایکاٹیرنبرگ کے اندر عمل میں آیا اور اس کا نام برکس (BRIC) رکھا گیا جو ہر ممبر ملک یعنی برازیل، روس، انڈیا اور چین کے ناموں کا ابتدائی حرف تھا۔ اس کے ایک سال کے بعد 2010 میں جب جنوبی افریقہ اس تنظیم کا حصہ بنا تب اس کا نام برکس پڑ گیا اور اب تک اسی نام سے معروف ہے۔
برکس کا بنیادی مقصد امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے عالمی دبدبے کو کم کرکے گلوبل ساؤتھ کی آواز کو مضبوط بنانا تھا، کیونکہ ان ممالک کے لیڈران کا ماننا یہ ہے کہ باوجودیکہ صرف برکس ممالک کی آبادی دنیا میں 42 فیصد سے زیادہ ہے، ان کا حصہ گلوبل جی ڈی پی میں تقریبا 30 فیصد تک پہنچ چکا ہے اور عالمی تجارت کی 16 فیصد مالیت کے مالک یہ ممالک ہی ہیں لیکن ان سب کے باوجود انہیں عالمی اسٹیجوں پر وہ نمائندگی نہیں ملتی ہے جس کے وہ حق دار ہیں اور اسی لیے امریکہ و مغربی کا ایک متبادل کھڑا کرنا بہت ضروری سمجھا۔ اسی مقصد کے تحت ان کی سالانہ میٹنگیں گزشتہ ایک دہائی سے جاری ہیں اور چونکہ اس تنظیم کی صدارت روٹیشن کی بنیاد پر بدلتی رہتی ہے، اس لیے اس برس برکس کی صدارت جنوبی افریقہ کو حاصل ہے جس کے شہر جوہانسبرگ میں اس تنظیم کی سالانہ میٹنگ منگل سے شروع ہوئی اور جمعرات تک جاری رہی۔ اس چوٹی کانفرنس کی کوشش یہ رہی کہ برکس کے دائرئہ اثر کو بڑھایا جائے اور عالمی سیاست میں بڑی تبدیلی کے لیے زور ڈالا جائے۔ اس چوٹی کانفرنس میں جنوبی افریقہ کے صدر سیریل راما فوسا کی دعوت پر چین کے صدر شی جی پنگ، ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی اور برازیل کے صدر لوئس ایناسیو لولا ڈیسلوا تشریف لائے۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتن بذات خود اس چوٹی کانفرنس میں شامل نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ اپنی حاضری درج کرائی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یوکرین میں جاری جنگ کی وجہ سے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے پوتن کے خلاف وارنٹ جاری کر رکھا ہے۔ پوتین پر الزام ہے کہ وہ یوکرین میں جنگی جرائم کے معاملوں میں ملوث ہیں۔ اب چونکہ جنوبی افریقہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کا رکن ہے۔ اس اعتبار سے اگر پوتن کی حاضری وہاں ہوتی تو پروٹوکول کے مطابق انہیں گرفتار کرنا پڑتا۔ اس رسوائی سے بچنے کے لیے یہ راستہ نکالا گیا کہ وہ خود ویڈیو کے ذریعہ خطاب کریں گے جبکہ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف پوتن کی نمائندگی برکس چوٹی کانفرنس میں حاضر ہوکر کریں گے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جس مغربی رسوخ کو چیلنج کرنے کے لیے اس گروپ کی تشکیل عمل میں آئی ہے، اس کی راہ میں ابھی کتنے مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ برکس ممالک کے لیڈران چار براعظموں میں بسنے والے اربوں انسانوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور اپنی اقتصادی ترقیوں کے مختلف مراحل سے گزر رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کی حیثیت اور وزن کے مطابق انہیں ان کا مقام ملے اور اسی لیے وہ اس عالمی نظام کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جن کے بارے میں ان کی رائے یہ ہے کہ وہ صرف امیر ترین مغربی قوتوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے لیکن کیا یہ کوشش اتنی باثمر ہوگی کہ ایک متبادل نظام عالم کے قیام کا خواب پورا کر سکے؟ اس بات کا جواب تو ابھی قبل از وقت ہی سمجھا جائے گا لیکن برکس کے قائدین اس سلسلے میں اپنی کوششیں لگاتار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امسال بھی جوہانسبرگ میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ ایسا ممکن ہے۔ جوہانسبرگ کے سانڈٹون میں واقع کانفرنس سنٹر میں ’فرینڈرس آف برکس‘‘ کا جو پروگرام منعقد ہوا، اس میں ہی 50 ملکوں کے نمائندگان اور افسران کی موجودگی متوقع تھی۔ اس کے علاوہ جنوبی افریقہ نے اعلان کیاکہ 40 ملکوں نے برکس میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے جبکہ 23 ممالک نے باضابطہ طور پر اپنی درخواستیں پیش کی ہیں۔ جن ملکوں نے برکس میں رکنیت حاصل کرنے کی رغبت کا اظہار کیا ہے، ان میں کئی عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ الجزائر، مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے علاوہ کویت اور فلسطین نے باضابطہ طور پر برکس میں رکنیت کے لیے درخواستیں پیش کی ہیں۔
مراقش کے بارے میں بھی یہ رپورٹ آئی تھی کہ اس نے بھی رکنیت کی درخواست پیش کی ہے لیکن مراقش نے اس بات سے انکار کیا ہے۔ بہر صورت اس سال جوہانسبرگ میں منعقد برکس چوٹی کانفرس میں یہ فیصلہ لیا جانا تھا کہ کن معیاروں کی بنیاد پر برکس میں توسیع کی جا سکتی ہے اور نئے اراکین کو اس گروپ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اگر توسیع کی باتیں سچ ثابت ہوجائیں تو نئے اراکین اگلے برس روس میں منعقد ہونے والی برکس چوٹی کانفرنس میں حصہ لے سکیں گے۔ اس بات کی امید ظاہر کی جا رہی ہے جن عرب ممالک نے رکنیت کے لیے درخواستیں پیش کی ہیں، ان میں سے غالباً سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور الجزائر کو رکنیت دے دی جائے گی۔ اس کا اشارہ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے اس بیان میں تلاش کیا جا سکتا ہے جو انہوں نے گزشتہ جون میں دیا تھا۔ لاوروف نے کہا تھا کہ سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور الجزائر کی برکس میں شمولیت سے گروپ کو بہت فائدہ ہوگا، کیونکہ یہ ممالک عرب اسلامی تہذیبی وراثت کے امین ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو برازیل کے صدر لولا ڈیسلوا کی حمایت بھی حاصل ہے۔ وہ ان ملکوں کے بارے میں کہہ چکے ہیں کہ سعودی عرب کا برکس میں شامل ہونا نہایت اہم ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات اور ارجنٹینا بھی شامل ہو سکتے ہیں اگر وہ اس کی رغبت رکھتے ہیں۔ سعودی عرب کی رکنیت کا سب سے بڑا فائدہ اس گروپ کو یہ ہوگا کہ اس کا اقتصادی وزن بڑھ جائے گا۔ گزشتہ سال جب ’’فرینڈس آف برکس‘‘ ممالک کے درمیان مذاکرات کے لیے میٹنگ کا انعقاد ہوا تھا تو اس میں بھی سعودی عرب نے شرکت کی تھی۔ کل دس ملکوں کی شرکت اس میٹنگ میں درج کی گئی تھی۔ سعودی عرب کی طرف سے اس کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان جبکہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے اس کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زاید نے کیپ ٹاؤن میں نمائندگی کا فریضہ انجام دیا تھا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات چونکہ تیل پیدا کرنے والے اہم ممالک میں شمار کیے جاتے ہیں، اس لیے ان کی شمولیت سے خود ان کا اپنا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ چین اور ہندوستان کی صورت میں دنیا کے دو بڑے خریدار انہیں مل جائیں گے۔ تجزیہ نگاروں نے یہ لکھا ہے کہ امریکہ سے چونکہ سعودی عرب کے تعلقات بہت خراب ہوچکے ہیں، اس لیے چین اور روس سے اس کی قربت میں اضافہ ہوا ہے اور برکس میں شمولیت کے ذریعے وہ یک قطبی عالمی نظام کو بدلنا چاہتا ہے۔ اس سے قبل گزشتہ سال SCO کی میٹنگ میں بھی بطور ڈائیلاگ پارٹنر شامل ہوکر سعودی عرب نے یہی اشارہ دیا تھا۔ متحدہ عرب امارات نے بھی گزشتہ مئی جون میں خود اس بحری فورس سے خود کو الگ کر لیا تھا جس کی قیادت امریکہ خلیج میں کرتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس نے 9 اگست سے جاری ملٹری مشقوں میں چینی فضائی فورسز کے ساتھ کام کیا ہے۔ اس میں بھی اہم اشارہ موجود ہے کہ امارات اور واشنگٹن کے تعلقات کس قدر خراب ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ جب برکس نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی بالادستی کو چیلنج کرنے کے لیے نیو ڈیولپمنٹ بینک قائم کیا تھا تو متحدہ عرب امارات ان اولین ملکوں میں شامل تھا جس نے اس عمل میں حصہ لیا تھا تاکہ ترقیاتی پروجیکٹوں کے معاملہ میں امریکہ اور مغرب پر انحصار ختم کیا جا سکے۔ نیو ڈیولپمنٹ بینک اپنے اس مشن میں کتنا کامیاب ہوا ہے، یہ بحث کا الگ موضوع ہے۔ الجزائر نے گرچہ پہلے برکس میں اپنے صدر کے ذریعہ نمائندگی کا اشارہ دیا تھا لیکن بعد میں تبون حکومت کے ایک وزیر کو ہی بھیجا گیا البتہ تبون یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ برکس کے بینک میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور اس کے لیے انہوں نے 1.5 بلین ڈالر کی اپنی حصہ داری کی بھی پیشکش کی ہے۔
الجزائر کی خواہش ہے کہ وہ چین اور دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرکے اپنے اقتصاد کو متنوع بنائے۔ اسی طرح مصر کو امید تھی کہ برکس کی رکنیت کے لیے روس کا تعاون اسے حاصل ہوگا اور اس کے لیے رکنیت کی راہ ہموار ہو چکی ہے۔ مصر اپنے اس اقدام کے ذریعے فارن کرنسی پر بڑھتے دباؤ کو کم کرنا چاہتا ہے، کیونکہ حالیہ دنوں میں ڈالر کے مقابلہ مصری پاؤنڈ میں بھاری گراوٹ آئی ہے۔ چونکہ برکس کا بنیادی مقصد ڈالر کے رول کو ختم کرنا ہے، اس لیے مصر کو فائدے کی امید ہے۔ روس اور چین تو چاہتے ہی ہیں کہ ڈالر کے اثر کو توڑا جائے۔ یوکرین جنگ کے نتیجے میں روس پر جو مغربی پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور چین و امریکہ کے درمیان جو کشمکش جاری ہے، ان کے پیش نظر یہ مقصد سب سے اہم ہے۔ اس غرض سے برکس یہ چاہتا ہے کہ ایک مشترک سکہ رائج کیا جائے تاکہ ڈالر پر انحصار ختم ہو سکے۔ سعودی عرب، امارات، مصر کو برکس میں شمولیت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ان کی شمولیت کا ایک بڑا فائدہ انرجی کے سیکٹر میں یہ ہوگا کہ آئندہ برسوں میں یہ ممالک کلین انرجی کے سب سے بڑے مراکز ہوں گے جبکہ عرب اور افریقی ممالک کو برکس سے یہ فائدہ ہوگا کہ غلہ اور صنعتی وسائل آسانی سے حاصل ہوجائے گا، کیونکہ روس، چین اور ہندوستان ان معاملوں میں ان کی مدد کر سکیں گے۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS