ایک تاریخی کہانی ریشمی رومال کس پر مبنی تھی

0
ytube

رئیس صدیقی
تاریخ عالم میں ہر جنگ کسی نہ کسی مقصد کے لیے لڑی گئی ہے۔ کبھی کوئی جنگ بادشاہت کے لیے تو کبھی زمین کے لیے، کبھی دشمنی کی بنا پر، توکبھی کسی سے انتقام لینے کی غرض سے، کبھی مذہب کے نام پر، توکبھی نسلی برتری کے لیے، کبھی زن کے لیے اورکبھی زر کے لیے جنگیں ہوتی رہی ہیں۔
لیکن19 اگست 1388 ءکو انگلینڈ میں ایک ایسی جنگ لڑی گئی جو صرف ’’ایک ریشمی رومال‘‘کے لیے تھی!
ماضی کی یہ خونریز داستان، درحقیقت6، جولائی1388 ء میں اس وقت شروع ہوئی، جب اسکاٹ لینڈ کا ایک طاقتور جاگیردار ’’ڈگلس‘‘سیر و تفریح کے خیال سے ایک مختصر سی فوج کے ساتھ انگلینڈ میں داخل ہوا۔انگلینڈ میں اس وقت رچرڈ دوئم کی حکومت تھی۔ان دنوں انگلینڈ پرفرانس کے حملہ کا اندیشہ تھا اور اس امکانی حملہ کے پیش نظر پورے ملک میں زبردست ہنگامی حالات اور نفسی نفسی کا عالم تھا۔
چنانچہ ڈگلس کی کسی جگہ مزاحمت نہیں کی گئی۔ لہٰذا وہ ’’نیوکیسل‘‘ کی سرحد تک پہنچ گیا اور ’’نیوکیسل‘‘ نامی قلعہ کے بڑے دروازے پر اس کی ملاقات ایک جاگیردار ’’ہنری پرسی‘‘ (Henry Persy)سے ہوئی۔ وہ اپنی فوج کے ساتھ وہاں موجود تھا۔
ہنری پرسی نے اپنے کمانڈر کے ساتھ آگے بڑھ کر ڈگلس سے نیوکیسل آنے کا سبب پوچھا۔
ڈگلس نے اس کی بات کا جواب دینے سے قبل، اس انگریز جاگیردار ’’ہنری پرسی‘‘ کا ریشی رومال جھپٹ لیا اور بڑی بے نیازی سے بولا: ’’بس۔۔۔ یوں ہی چلا آیا، سیر و تفریح کرتے ہوئے !‘‘
اتنا کہہ کر ڈگلس نے اپنی فوج کی ایک ٹکڑی کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا کیونکہ اس کا ہنری پرسی سے لڑنے کا قطعی کوئی ارادہ نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسکاٹ لینڈ کی فوج نے نیوکیسل سے بتیس میل دور ایک قصبہ کے نزدیک پڑائو ڈالا تھا۔
سورج غروب ہوچکا تھا اور آہستہ آہستہ رات کی گہری تاریکی نے پوری فضا کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا تھا۔ ڈگلس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ انگریز جاگیر دار ’’ہنری پرسی‘‘ کی فوج اس کے تعاقب میں آرہی ہے۔
دراصل پرسی کو یہ بات بہت ناگوار گزری کہ ڈگلس نے اس کا ’’ریشمی رومال‘‘ چھین لیا۔ ہنری پرسی فیصلہ کرچکا تھا کہ وہ ہر قیمت پر اپنا ریشمی رومال ڈگلس سے واپس لے گا۔
بہر حال15؍ اگست1388ء ؁ کو ہنری پرسی اپنی فوج کے ساتھ ڈگلس کی فوج کے پڑائو کے بہت نزدیک پہنچ گیا۔ اس وقت تک ڈگلس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہنری پرسی کی فوج اس پر حملہ کرنے کی تیاری میں مصروف ہے۔ ادھر ہنری پرسی نے اپنی فوج کے سامنے ایک پرجوش تقریر کی۔ اس نے کہا: ’’اسکاٹ لینڈ کے اس جاگیردار نے میرا ریشمی رومال چھین کر میرا ہی نہیں بلکہ تم سب کا مذاق اُڑایا ہے! اب میں یہ فیصلہ کرچکا ہوں کہ ڈگلس سے اپنا ریشمی رومال واپس لے کر رہوں گا۔اس لیے میرے ساتھیو! آگے بڑھو۔۔۔ اور ڈگلس سے میرا رومال چھین لو۔‘‘ ہنری پرسی کی اس تقریر کو اس کے سرداروں اور فوج کے سپاہیوں نے بالکل پسند نہیں کیاکیوں کہ صرف ایک ریشمی رومال کے لیے جنگ نہ انہوں نے کبھی پہلے سنی تھی اور نہ کبھی سوچی تھی۔ان لوگوںنے بڑی بے دلی سے ہنری پرسی سے کہا: ’’اگر یہ حملہ رات کی تاریکی میں کیا جائے تو زیادہ مناسب رہے گا۔‘‘
ہنری پرسی نے اپنی فوج کی یہ بات مان لی۔
ہنر ی پرسی کے ساتھ اس وقت تین ہزار فوج تھی اور ڈگلس کے پاس صرف ایک ہزار سپاہی تھے۔ہنری پرسی کی فوج یہ سمجھتی تھی کہ وہ اپنی تعداد اور ڈگلس کی بے خبری کی وجہ سے پہلے ہی حملہ میں ڈگلس کا خاتمہ کردے گی، لیکن یہ اس کی غلط فہمی ثابت ہوئی۔
اب تک ڈگلس کو ہنری پرسی کے حملہ کی خبر مل چکی تھی اور وہ حملہ کا مقابلہ کرنے کے لیے بالکل تیار کھڑا تھا۔
ہنری پرسی کی تین ہزار فوج جیسے ہی ڈگلس کی فوج کے خیموں کے قریب آئی، اُن پر بے شمار اور لگا تار تیروں کی بارش شروع ہونے لگی اور سیکڑوں اسکاٹس فوجی اپنی تلواریں تان کر انگریزی فوج پر ٹوٹ پڑے اور ہنری پرسی کو شکست کا منھ دیکھنا پڑا!
اس طرح ایک ریشمی رومال کے لیے اس خوامخواہ کی جنگ میں ہزاروں بے قصور جانیں انا اور خودی کی بھینٹ چڑھ گئیں!!
کبھی کبھی ،کسی شخص کی کوئی غیر مہذب حرکت یا غیرمناسب بات اور بحث یا بلا وجہ کا اڑیل رویہ اور ضد غیرضروری لڑائی جھگڑا یا جنگ کو بھی جنم دیتی ہے!!!
( کہانی کار ڈی ڈی اردوو آل انڈیا ریڈیو کے سابق آئی بی ایس افسر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS