ملت کی زبوں حالی کا ذمہ دار کون؟

0

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

جب بھی قومیں زوال پذیر یا نکبت و ادبار کا شکار ہوتی ہیں تو اس کے پس پردہ بہت ساری وجوہات ہوتی ہیں۔ اس لیے ہر وقت اپنا محاسبہ کرنا نیز حکمت و دانائی کے ساتھ منصوبہ بندی ہر باشعور قوم اور سنجیدہ معاشرے کی علامت رہی ہے۔ اگر تاریخ کے اوراق کھنگالیں تو پتہ چلتا ہے کہ عصری تقاضوں سے شناسائی اور مناسب منصوبہ سازی سے ایسے عظیم کارنامے انجام دیے گئے ہیں جو رہتی دنیا تک ہماری نسلوں کے لیے مشعل راہ کا کام کریں گے۔ آ ج کا المیہ یہ ہے کہ جن خطوط پر یا اصولوں کو مدنظر رکھ کر ہماری رہنمائی کے لیے دستاویزات ترتیب دیے گئے تھے، ان سے آ ج استفادہ تو دور کی بات بلکہ اب انہی کے افکار و نظریات یا کارناموں کو نہ صرف نظرانداز کیا جارہا ہے بلکہ ان کو مستقبل کی مجموعی ترقی، حال کی نکتہ سنجی اور ماضی کی روشنی میں مستقبل کی تعمیر کا کوئی خیال ہی نہیں گزرتا ہے۔ آ ج جہاں ہمارے اندر نظریاتی و فکری توازن کی بہت حدتک کمی ہے۔ وہیں زمینی سطح پر ہمارے پاس کوئی منصوبہ بھی نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اخبارات میں بیان دینے کو ہی اپنی کامیابی اور معاملہ کی گرفت تصور کرلیا جاتاہے۔ یہی نہیں بلکہ خودستائی اور خودپسندی بھی غالب آ چکی ہے۔ بعض دفعہ تو یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ اگر کوئی شخص یا رہنما کہیں بیان دیتا ہے تو وہ اپنے متعلقین وحواریین سے فوراً یہ دریافت کرتا ہے کہ ’’بیان کیسا رہا ،میرا خطاب اچھا تھا یا نہیں؟‘‘گویا وہ اپنی تقریر و تحریر یا بیان وخطاب کی قیمت فوراً وصول کرنا چاہتا ہے۔ جو لوگ حلقہ ارادت میں ہوتے ہیں، وہ اپنے شیخ کی تعریف وتوصیف کے پل باندھ دیتے ہیں۔ اگر انہوں نے حوصلہ افزائی کے نام پر اپنے شیخ کی تعریف نہیں کی تو ان کو خوف رہتا ہے کہ کہیں ہمارے شیخ ناراض نہ ہو جائیں۔ نتیجہ کے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ آ ج خلوص کا جس قدر فقدان ہے وہ کسی کی نظروں سے مخفی نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہی لوگ یا نام نہاد قائدین یہ کہتے نہیں تھکتے ہیں کہ ملت اپنے قائدین کی قدردانی نہیں کررہی ہے۔ عزت و احترام اور وقعت و توقیر انہی لوگوں کی ہوتی ہے جو قوم وملت اور معاشرے کے لیے مخلصانہ جد وجہد کرتے ہیں، ان کے سینہ میں ملت کا درد پوشیدہ ہوتا ہے۔ ان کی اولین ترجیح بقائے باہم اور عوامی ضروریات کا خیال ہو۔ وہی لوگ اور انہیں قوموں کے منصوبے فلاح کو پہنچتے ہیں جو قوم وملت کی خدمت بے لوث ہوکر کرتے ہیں۔ جب بھی مفادات کا تصادم ہوا ہے تو اس سے ملت کو خسارہ ہی اٹھانا پڑا ہے۔ ملت کی عظمت رفتہ اور متوازن سوچ وفکر کو بروئے کار لانے کے لیے اول ان لوگوں کو اپنے کردار وعمل میں مطابقت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاص وایثا ر کو اپنا نصب العین بنانا ہوگا ،اسی طرح خودستائی جیسی بیماری سے بھی خود کو بچانا ہوگا۔ تبھی جاکر ہم معاشرے کو اجتماعی مفادات سے وابستہ اور ملت اسلامیہ ہند کو درست منہج پیش کرسکیں گے۔ افسوسناک بات تو یہ بھی ہے کہ آ ج ہم حقائق یا تجربات و مشاہدات پر کم بلکہ سنی سنائی باتوں اور جذباتیت پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنی جذباتیت،عقیدت کی بناء پر ایسے فیصلے کر گزرتے ہیں جن کا انجام مایوس کن ہی ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کی زیاں اور عالمی تحدیات کے اس دورے میں ملت اسلامیہ ہند کو ایسے پختہ اور مضبوط اصولوں کی ضرورت ہے جس کے تناظر میں ہم صحت مند سماج ترتیب دینے میں کامیاب ہوسکیں۔ جب بھی ملت کو کوئی مسئلہ در پیش ہوتا ہے تو ہماری فکر اور دما غ پر جذباتیت غالب آ جاتی ہے ، عقل و خرد سے کم بلکہ بے خیالی اور رواروی سے زیادہ کام لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں، ابھی حال ہی میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے کار گزار جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے ایک مضمون میں لاؤڈ اسپیکر سے اذان کے متعلق رائے دی، انہوں نے کہا تھا کہ ’’اگرایک محلہ میں کئی مساجد ہوں تو ضروری نہیں کہ سب ہی میں لاؤڈ اسپیکر سے اذان دی جائے بلکہ کسی ایک مسجد کا لاؤڈ اسپیکر استعمال کرلینا چاہیے بقیہ مساجد میں بغیر مائک کے اذان دے دی جا ئے۔‘‘ اس رائے سے اختلاف کی گنجائش تھی لیکن اس طرح کے معاملات میں اس بات کا خیال رہے کہ سامنے والے کی شخصیت مجروح ہر گز نہ ہو۔ اگر بادی النظر میں دیکھا جائے تو مولانا کی یہ رائے نہایت معتدل اور متوازن تھی لیکن جیسے ہی یہ بیان آ یا کہ ایک ٹولہ ابھر کر سامنے آگیا اور نہ جانے کیا کیا کہنے لگا۔ حتیٰ کہ بعض نام نہاد مفکرین نے تو یہ تک کہہ دیا کہ مولانا کا بائیکاٹ کردینا چاہیے۔ یہ حال ہے ملت کے مفکرین کا ، اگر کوئی بات یا اپنی رائے دینے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو برداشت کرنا تو دور کی بات بلکہ تردید، یا کسی کی رائے سے اختلاف کے اسلوب و آداب تک ہم نے ابھی تک نہیں سیکھے ہیں۔ یاد رکھئے قومیں وہی زندہ رہتی ہیں جو جذبات سے دور ہوں اور سنجیدگی کے ساتھ اپنے مشن و منصوبہ کو جاری رکھتی ہیں۔ ملت کی زبوں حالی کے آ ج ایسے ہی بہت سے نامور مفکرین بھی ذمہ دار ہیں جن کے پاس نہ کوئی منصوبہ ہے، نہ کوئی تدبیر و حکمت بلکہ ان کا مشغلہ ہی یہی ہے کہ شہر ت حاصل کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔ بلا سوچے سمجھے تنقید کی جائے یا کسی کے منصوبے کو ناکام کیا جائے۔ اسی طرح اگر غور سے تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آ ج ہمارے سامنے جو چیزیں یا تحریریں آ رہی ہیں، ان کے اندر منفی فکر کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔ یا وہ مسلمانوں کو خوف وہراس میں مبتلا کرنے پر آ مادہ ہیں۔ ہر چیز کو مسلمانوں سے جوڑ کر وہ کہیں نہ کہیں مسلم کمیونٹی میں بے چینی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ مولانا خالد سیف اللہ کی اس رائے کی تردید یا قبول کرنا الگ ایشو تھا، البتہ تمام اہل علم کو اس پر سوچنا تھا ، مذاکرہ کرنے کی ضرورت تھی اور پھر کسی رائے کو اختیار کیا جاتا تو یقینا دیگر اس کے فوائد بر آ مد ہوتے۔ خیر اب مولانا نے خود ہی اپنے بیان سے رجوع کرلیا ہے، یہ ان کا بڑکپن ہے۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ آ ج ملت کے سامنے کوئی ہدف اور منصوبہ کیوں نہیں ہے؟ دریں اثنا یہ بھی عرض کیا جاسکتا ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ ہر فرد وجماعت کسی ایک رائے یا فکر پر متحد ہو۔ فکری اختلافات سے معاشرے میں توازن و اعتدال اور ہم آ ہنگی پیدا ہوتی ہے۔ آ سانیاں اور سہولتوں کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اسلام کے پاس تو اختلاف آ راء کی شاندار تاریخ و تہذیب ہے۔ ہمارا نظام اتنا سنجیدہ اور شستہ ہے کہ دنیا کی دیگر تہذیبوں میں شاید اس کی کوئی مثال ملتی ہو۔ مگر افسوس ہم نے اپنی ان تہذیبی قدروں اور اختلافات کے سنجیدہ اسلوب سے ہی انحراف نہیں کیا بلکہ اس کی روحانیت اور اجتماعی حقوق و مفادات تک کو کچل ڈالا ہے۔ جن آ ثار و شواہد یا رسمی باتوں پر ہم نے یقین و اعتماد کیا ہے وہ بھی بہت حدتک مناسب نہیں ہے۔ ان حالات میں عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے اور مستقبل کی بہتر تعمیر وترقی اور خوشحالی کے لیے یقینا ان خطوط و راہ کو اپنا نصب العین بنانا ہوگا جن کو آ ج بے اہمیت سمجھ کر ترک کیا جارہا ہے۔ دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ کسی مسئلہ کے اندر خیر و فلاح کے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہوسکتاہے کوئی مسئلہ ظاہری طور پر مفید نہ ہو اس کے باوجود اس میں کوئی نہ کوئی اچھائی اور خیر کا پہلو ایسا ہوتا ہے جس سے خود اختلاف و نزاع کرنے والے تک حیران و ششدر رہ جاتے ہیں۔ ملت اسلامیہ ہند کے سامنے جو آ ج چیلنجز ہیں، ظاہرہے وہ اب سے پہلے نہیں تھے لیکن کہیں نہ کہیں ہم بھی اپنی ذمہ داریوں اور اپنے مقدس مقام و رتبہ کو بھول چکے ہیں۔ اس لیے ترجیحات بدل سکتی ہیں لیکن اگر اس میں اجتماعیت کا عنصر غالب ہے تو اس کے اثرات دیر پا اور مؤثر ثابت ہوں گے۔
آ خر میں یہ عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آج ملک کی مشترکہ قدروں کو فسطائی اور صہیونی طاقتیں ختم کرنے پر تلی ہوئی ہیں اور وہ ہماری تہذیب کو یکسر معدوم کردینا چاہتی ہیں جس سے سماج میں بے چینی اور عدم اطمینان کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے، چنانچہ اس طرح کے افکار و نظریات سے دور رہنے کی بے حد ضرورت ہے۔ اسی طرح ہمیں پوری طرح ان تحریروں و تقریروں اور بیانات سے ہوشیار رہنا ہے جو اسلام کا لبادہ پہن کر مسلم کمیونٹی کو مشتعل کرتے ہیں۔ وہ مسلم معاشرے میں لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح کی ذہنیت رکھنے والے بھی ملت کی زبوں حالی اور شکست وریخت کے ذمہ دار ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS