اے- رحمان
انسانی معاشرے کے لیے جو آفاقی اصول اور اخلاقی اقدار وضع کیے گئے ہیں کیا سیاست پر بھی ان کا اطلاق ہونا چاہیے ۔ یہ سوال تہذیب انسانی کے آغاز سے آج تک کیاجاتارہا ہے۔ مغربی فلسفے کے باوا آدم ارسطو نے اپنے استاد افلاطون کے مکالمات میں بکھرے ہوئے نظریات کو مجتمع کرکے سیاسی اخلاقیات کا ایک ضابطہ ترتیب دیا جس میں مذکور بنیادی اصول بیشتر مغربی سیاسی نظریات کی اساس قرار دیے گئے۔ جمہوریت کا تصور اور تقریباً تمام مغربی ممالک کا جمہوری ڈھانچہ ارسطو کے ذریعے طے کردہ سیاسی ضابطے سے ماخوذ ہے۔ارسطو نے سیاست او راخلاقیات دونوں کے عملی پہلو پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایک مثالی معاشرے کے لیے اچھے برے کی واضح تخصیص اور سیاسی حکمت عملی کا اخلاقی حدود میں رہنا نہایت ضروری ہے اور اخلاقی حدود محض تجریدی یا روحانی اصطلاح پر نہیں بلکہ معاشرے کے ذریعے مکمل طور پر قبول کردہ اصولوں پر مبنی ہونا چاہئیں۔ بالفاظ دیگر اقوال و افعال کی اچھائی اور برائی کا پیمانہ سیاست اور معاشرے دونوں میں یکساں ہونا ضروری ہے۔ ارسطو کے تقریباً ہم عصر( انیس سال کے فرق سے) ہندوستانی فلسفی، قانون ساز اور ماہر اقتصادیات چانکیہ نے ’ ارتھ شاستر‘ کی صورت میں ایک مفصل سیاسی ضابطہ تر تیب دیا تھاجسے بجا طور پر ہندوستان کا پہلا سیاسی آئین کہا جا سکتا ہے۔ چانکیہ کی سیاسی حکمت عملی جسے ’چانکیہ نیتی‘ سے موسوم کیا جاتا ہے پورے طور پر ایسی اخلاقی اقدار پر مبنی ہے جو سچ، جھوٹ اور اچھائی برائی کے واضح تصورات سے مملو ہیں۔ چانکیہ کے بارے میں یہ عام تاثر کہ اس نے اخلاقیات کو ملحوظ نہ رکھتے ہوئے چالاکی اور عیارانہ تراکیب اور پینترے بازی کو اپنے سیاسی نظریات کی بنیاد بنایا قطعی غلط ہے۔ اس کے نظریات نہ صرف یہ کہ ارسطو کے سیاسی نظریات سے مماثلت رکھتے ہیں بلکہ اس نے فرد اور معاشرے کے باہمی تعلق کے تناظر میں ایسے اخلاقی اصول بھی تریب دیے جو ایک کامیاب اور خوشحال معاشی اور معاشرتی زندگی کے لیے زریں اصولوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ارتھ شاستر اپنی نوعیت کا دنیا کا پہلا سیاسی ضابطہ تھا جو ہندوستانی سیاق میں آج بھی کئی زاویو ں سے معنویت کا حامل کہا جا سکتا ہے۔ چانکیہ سے اٹھارہ سوسال بعد اطالوی مورخ اور فلسفی نکو لو میکیاولی(Niccolo Machiavelli) نمودار ہوا جسے بعض لوگ جدید پولیٹکل سائنس کا باوا آدم کہتے ہیں۔اس نے سیاست کو اخلاقیات سے معریٰ قرار دیتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا کہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ’بے ضمیری‘ لازمی ہے اور بقائے اقتدار کے لیے بے ایمانی، بد عنوانی اور معصوم عوام کا قتال تک قطعی جائز بلکہ بعض اوقات ضروری ہو جاتا ہے۔ اس کی سیاسی حکمت عملی کا ایک بنیادی اصول ” If you cannot beat them join them” ’ اگر تم (ناپسندیدہٌ )نظام کو شکست نہیں دے سکتے تو خود بھی اس کا حصہ بن جاؤ‘‘ آج تک نہ صرف مشہور زمانہ ہے بلکہ معاشرتی رویوں کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ میکیاولی نے ارسطو کے سیاسی ضابطے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے یہ سیاسی نظریہ تشکیل دیا کہ اقتدار کے راستے میں اخلاقی اقدار یا اصول ایک بڑی رکاوٹ کا کام کرتے ہیں۔
وطن عزیز میں فی زمانہ جو سیاست رائج ہے وہ علی الاعلان مکمل طور پر شرافت اور اخلاق کے آفاقی اصولوں سے عاری ہے۔ سیاسی کلامیہ زوال پذیر ہو کر بازاری اور مذموم سطح تک گر چکا ہے اور زوال کا یہ عمل ابھی جاری ہے۔ سیاسی جماعتوں کا نظریاتی فرق معدوم ہو گیا ہے اور اقتدار کے حصول کے لیے تمام مشقت جھوٹ، مکاری اور فریب دہی تک محدود ہے۔ ہندوستان میں2014 کے انتخابات سے قبل پہلی مرتبہ سیاسی جماعت کے نام یا نظریے کے بجائے مودی کے نام سے ووٹ مانگا گیا۔ ’اب کی بار مودی سرکار‘ تشہیری مہم کا کلیدی نعرہ تھا۔ جمہوری اخلاقیات کے نقطۂ نظر سے یہ قطعی ناجائز تھا کیونکہ کسی فرد واحد کو کسی مخصوص سیاسی نظریے کی تجسیم قرار دینا جمہوری نظام کے منافی ہے۔ اب بات آتی ہے اخلاقیات کی تو مودی نے اپنی تقاریر میں عوام کو ہرے بھرے سبز باغ دکھائے، بہتر معیشت اور مثالی معاشرت کے بلند بانگ دعوے کیے، طرح طرح کی چالاک پینترے بازیوں سے بھولے بھالے عوام کو رجھایا (بھولے بھالے عوام ہی ان چالاکیوں کا شکار ہوئے جس کا ثبوت یہ ہے کہ مودی کی جماعت کو محض31 فی صد ووٹ حاصل ہوئے) اور اقتدار میں آنے کے بعد بڑی صاف گوئی سے کہہ دیا گیا کہ وہ سب وعدے تو محض انتخابی ’جملہ بازی‘ تھی۔ اس نوع کی دھوکہ دہی اور جھوٹ غیر اخلاقی ہی نہیں مجرمانہ کہی جا سکتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی پلیٹ فارم سے بولا گیابڑے سے بڑا جھوٹ بھی تعزیری قوانین کی زد میں نہیں آتا خواہ اس جھوٹ سے عوام کو کیسا ہی سنگین دھوکہ دیا گیا ہو۔ (لیکن اب یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ کانگریس نے اپنے طویل دورِ حکومت میں عوام سے کئے گئے کتنے وعدے پورے کئے۔) 2019 کے انتخابات میں بھی مودی کا کلیدی نعرہ ’’ پھر ایک بار مودی سرکار ‘‘تھااور اس مرتبہ بی جے پی (یا مودی سرکار ) کو پہلے سے زیادہ یعنی اڑتیس فیصد ووٹ حاصل ہوئے ۔ اسے مودی جی کی عوامی قبولیت اور پسندیدگی کا ثبوت سمجھا جا سکتا ہے اور ایسا کہا بھی گیا۔لیکن دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد بجائے اپنی کامیابیاں اور حصولیابیاں گنوانے کے حکومت اور بی جے پی کاسارا زور بیان اس پر رہاکہ آزادی کے بعد جو کچھ بھی غلط یا برا ہوا اس کا ذمہ دار نہرو گاندھی خاندان ہے نیز یہ کہ ملکی سیاست میں جو کچھ خرابیاں ہیں وہ فلاں فلاں اشخاص کی کرنی کا پھل ہے۔ یہ پورے طور پر ایک ناخوشگوار اور منفی تشہیری رویہ ہے جس کے سبب سیاسی مکالمہ باہم دشنام طرازی تک محدود ہو گیا ہے۔ ’ تو چور ہے‘‘، ’’ نہیں تیرا باپ چور تھا‘‘ قسم کے الزامات اور جوابی الزامات سے فضا معمور ہے۔ حکومت اور اس کی جماعت کی جانب سے تو اب ملک کی فلاح، معاشی ترقی اور عوامی بہبود کی بات تک نہیں کی جا رہی۔ غرض یہ کہ سیاسی اور معاشرتی اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ ہر سیاسی جماعت اور سیاسی رہنما ایک بے مہار اونٹ ہے جس کے قول و فعل پر کسی قسم کی قدغن نہیں۔ ظاہر ہے یہ صورت حال نہ صرف جمہوری نظام کے لیے تباہ کن ہے بلکہ بد نظمی اور سیاسی انتشار کا پیش خیمہ ہے۔ مگر اس مرحلے پر موضوع کے ایک دوسرے اور غالباً زیادہ اہم پہلو کا ذکر لازمی ہے۔فرانسیسی سیاسی مفکّر جوزف دی میستر کا مشہورِ زمانہ قول ہے ’’ عوام کو وہی حکومت میسر آتی ہے جس کے وہ اہل ہیں‘‘۔دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ عوام کا اپنا کردار سیاسی رہنماؤں کے کردار میں منعکس ہوتا ہے۔وہ کون سے عوامل ہیں جن کے زیر اثر ہمارے عوام کسی سیاسی امیدوار کو ووٹ دے کر اپنا رہنما یا رہبر منتخب کرتے ہیںاس سوال کا جواب تلاش کیا جائے تو بے شمار ایسے اسباب و حالات کا تجزیہ کرنا پڑے گا جن کا تعلق عوام کی تعلیم، نفسیات،معاشرتی اور معاشی کیفیت ، مذہب اور ذاتی وفا داریوں سے ہوتا ہے۔ لہٰذایسا کوئی بھی تجزیہ نہایت پیچیدہ اور دقت طلب ہوگا۔کئی مفکروں اور دانشور حضرات نے تجزیہ کرنے کی کوشش کی تو ہے لیکن مسئلے کا کوئی حل پیش نہیں کیا۔ یہ بھی نا قابلِ تردید حقیقت ہے کہ مسئلے کا بیان یا اس پر آہ و بکا کرنا مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ اس پر شاید ہی کوئی اختلاف کرے کہ ایک غیر اخلاقی اور بے اصول سیاسی ڈھانچہ طوائف الملوکی کا سبب بنتا ہے۔شدید تقاضائے وقت ہے کہ سیاسی پنڈت اور دانشور سر جوڑ کر ہندوستانی آئین،معاشرے اور سیاست کے سیاق میں ایک ایسا اخلاقی ضابطہ تشکیل دیں جو سیاسی سرگرمیوں اور سیاست داں حضرات کے اقوال و افعال کی حدود اربعہ کا تعین کرے اور حدود کے تجاوز پر سخت تعزیر اور عوامی عتاب کا نزول ممکن بنائے۔ کم از کم چانکیہ کے ’ارتھ شاستر‘ اور اس میں مذکور مثالی سلطنت ’’چکرورتی‘‘ کے بنیادی تصوّر سے ہی عوام اور سیاسی رہنماؤں کو دوبارہ روشناس کرا دیا جائے۔
[email protected]