پولیس حراست میں اموات کے لئے ذمہ دار کون؟

0

شاہد زبیری

پولیس حراست میں ہو نے والی اموات اور پولیس انکائونٹر میں ہلاکتوں کولے کر ہماری پولیس ایک مرتبہ پھر سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ حال ہی میں پولیس حراست میں اموات اور انکائونٹر میں ہلاکتوں پر مسلم لیگ کے ایم پی عبدالصمد صمدانی کے ایک سوال کے جواب میں پارلیمنٹ میں وزارت داخلہ کی طرف سے جو کچھ اعداد وشمار بتا ئے گئے وہ یقینا ہر اس انسان کے لئے تشویش کا باعث ہیں جو انسانی حقوق اور انسانی اقدار کی پامالی کو لے کر فکر مند ہے۔ وزارتِ داخلہ کی طرف سے بتا یا گیا کہ یکم اپریل 2020سے لے کر 31مارچ 2022 تک جو اعدا وشمار پیش کئے گئے اس کے مطابق 2020-21میں کل ایک ہزار 940موتیں ہوئیں جبکہ 2021-22میں 2ہزار 544کیس درج کئے گئے ۔ان اعدادو شمار میں یو پی سر فہرست ہے ۔یوپی میں اس عرصہ میں 451لوگوں کی جانیں گئیں، مغربی بنگال میں 158اور مدھیہ پردیش میں 163 افراد پولیس حراست میں مارے گئے۔2021-22میں بھی اس معاملہ میں یوپی پہلے نمبر پر ہے یہاں دوسرے سال یہ ہندسہ بڑھ کر 501 ایک ہو گیا،بنگال میں 257اور مدھیہ پر دیش میں 201 لوگ پولیس حراست میں مارے گئے۔پولیس انکائونٹر میں 2020-21 میں جہاں 82لوگ ہلاک کئے گئے 2021-22میں یہ تعداد بڑھ کر 151ہو گئی انکائونٹر میں یو پی بدنام مانا جاتا رہا ہے اور یو گی سرکار پر ’ٹھوکو سرکار‘ کا ٹھپّہ لگتا رہا ہے لیکن چھتیس گڑھ اور جمو ںوکشمیر آگے نکل گیا ان دونوں صوبوں کی پولیس کے ہاتھوں انکائونٹر میں زیادہ لوگ مارے گئے جموںو کشمیر میں پولیس کے ہاتھوں 45افراد موت کے گھاٹ اتارے گئے چھتیس گڑھ کے اعداد و شمار نہیں بتا ئے گئے تاہم یہ مانا گیا کہ یہاں مائو وادی سرگرمیوں کے سب پولیس انکائونٹر کیس زیادہ درج کئے گئے ہیں ۔
یوپی میں پولیس حراست میں اموات کو لے کر سابق وزیر اعلیٰ اور سماجوادی پارٹی کے قائد اکھلیش یادو نے بی جے پی کی یو گی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ پولیس حراست میں ہونے والی موت کو قتل مانا جا تا ہے اور اس معاملہ میں یو پی کا نمبر ون ہونا بی جے پی کی سرکار پر کلنک ہے۔اکھلیش نے 29جولائی کو اخبارات کو جاری اس بیان میں کہا کہ 2020سے 2022تک ان دوسالوں میں پولیس حراست میں کُل 952موتیں ہوئی ہیں۔ کیا اچھا ہوتا وہ یہ بھی بتا دیتے کہ ان کی اور ان کے پتا شری ملائم سنگھ جی کی سرکار میں پولیس حراست میں کتنے لوگ مارے گئے اور بقول ان کے پولیس کے ہاتھوں قتل کئے گئے،لیکن سب جانتے ہیں سرکاریں کسی کی بھی رہی ہوں پولیس حراست میں اموات اور انکائونٹر کا سلسلہ کم یا زیادہ رہتا ہے اور قانون کی محافظ کہی جانے والی پولیس پر انگلیاں اٹھتی رہی ہیں یہ مسئلہ ہمارے ملک یا ہمارے کسی ایک صوبہ کا نہیں عالمی مسئلہ بھی ہے ابھی کل کی بات ہے جب امریکہ میں ایک پولیس اہلکار نے ایک سیاہ فام شہری کی گردن پر گھٹنا رکھ کر اس کی جان لے لی تھی جس سے پورا امریکہ غصہ سے ابل پڑا تھا اور امریکہ کی پولیس امریکی عوام کے سامنے گھٹنوں پرآ گئی تھی اور اس کے لئے معافی مانگی تھی لیکن ایسا کبھی ہمارے ملک میں دیکھنے میں نہیں آیا کہ انسانی حقوق اور انسانی اقدار کی پاسداری کی بے حر متی کو لے کر ہمارے عوام سڑکوں پر آئے ہوں۔
قابل ذکرہے کہ 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا تھا۔انگریز حکمرانوں نے حکومت کرنے کے لئے 1860میں پولیس محکمہ کی بنیاد رکھی اور 1861میں پولیس ایکٹ بنا یا جس میں گاہے بگا ہے پولیس ریفارم کے لئے جزوی ترمیمات اور اصلاحات کی جاتی رہیں اور 1902-3میں بھی پولیس کمیشن کی تجدید کی گئی ہندوستان آزاد ہوا تو 1958میں کیرالہ میں پولیس ریفارم کیلئے کمیٹی تشکیل دی گئی 1960میں بنگال میں،1961میں پنجاب میں، 1962میں دہلی میں، 1966میں یوپی میں اور 1968میں تملناڈو میں اسی طرح کی پولیس ریفارم کے لئے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں ریٹائرڈ آئی پی ایس جے ایف روبیرو کی سربراہی میں روبیرو کمیٹی بھی بنا ئی گئی جس کی سفارشات کو کافی شہرت بھی ملی،پولیس ریفارم کیلئے جنتا پارٹی کی سرکار نے 15نومبر 1977میں پہلا کمیشن وجود میں آیا اس نے پولیس ریفارم کے لئے 1981میں پہلی رپورٹ پیش کی اور 1981کے درمیان کمیشن کل 8رپورٹیں سرکار کو پیش کیں لیکن 1980میں اندرا گاندھی کی واپسی کے بعد کمیشن غیر مؤثر ہوگیا۔ اس کمیشن نے صوبوں میں اسٹیٹ سیکورٹی کمیشن تشکیل کئے جانے کی سفارش پیش کی تھی۔ قومی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں پولیس کے ڈھانچہ کو تبدیل کئے جانے کی بھی سفارش کی تھی لیکن اس کی سفارشات قابل توجہ نہیں سمجھی گئیں ،سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ بھی پولیس کی نکیل کستے رہے دہلی پولیس اور یو پی پولیس کے علاوہ گجرات،چھتیس گڑھ اور بہار پولیس انسانی حقوق کی پامالی کے لئے بدنام مانی جا تی رہی ہیں ۔ 1975-76 میں ایمرجنسی کے زمانہ میں پولیس کا کیا رول رہا، ملیانہ ہاشم پورہ میں پی اے سی نے کیا کارنامہ انجام دیا، دہلی میں 1984 کے سکھ مخالف فساد میں پولیس کا رول کیا رہا، 1991-92میں ایودھیا میں، 2002 کے گجرات فساد میںاور گزشتہ سالوں میں دہلی کے فسادات سمیت ملک بھر میں ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات میں پولیس کی کیا کرم فرمائیاں رہیں حال ہی میں اہانت رسولؐ کیخلاف احتجاج میں گرفتار سہارنپور کے نوجوانوں پر تھانہ میں کس بے دردی اور بے رحمی سے لاٹھیاں برسائی گئیں یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ، دہلی کے حالیہ جہانگیر پوری کے فساد میں دہلی پولیس کے کارنامے بھی لوگ بھو لے نہیں ہیں ۔
پولیس آئینی لحاظ سے ایک خود مختار ادارہ ہے جو قانون کے سامنے جواب دہ ہے لیکن سرکاریں اور ہمارا سسٹم پولیس کو ایک ٹول کی طرح استعمال کرتے ہیں سیاسی لیڈران کا دبائو پولیس پر رہتا ہے لیکن انگلیاں صرف پولیس پر اٹھتی ہیں ۔ سپریم کورٹ بھی پولیس کی نکیل کستا رہا ہے معروف دانشور مرحوم اصغر علی انجینئر نے ایک نجی ملاقات میں دورانِ گفتگو پولیس ریفارم کی بابت اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہاکہ ان کو پولیس اکیڈمی کی طرف سے منعقدہ پولیس ورکشاپ میں سیکولرزم اور انسانی حقوق اور فرقہ وارانہ عصبیت پر لکچرس دیتے ہو ئے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ حکومتیں شہریوں کے حقوق کے تحفظ سے زیادہ اپنے مخالفین کی آواز دبانے اور فرقہ وارانہ فسادات میں پولیس کا من مانا استعمال کرتی ہیں ۔اصغر علی انجینئر مرحوم کے تجربہ میں آئی ہوئی باتوں سے ضروری نہیں کہ پوری طرح اتفاق کیا جا ئے لیکن پولیس ریفارم کی کوششوں اور سفارشات سے یہ ظاہر ہے کہ پولیس کے ہاتھوں انسانی حقوق اور انسانی اقدار کی پا مالی کے لئے صرف پولیس کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا یا جا سکتا سیاسی سسٹم میں جو گندگی اور غلاظت در آئی ہے اس کو بھی صاٖ ف کرنا ضروری ہے۔انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے قومی اور ریاستی کمیشن موجود ہیں ان کی کار کردگی سے ظاہر ہے کہ ان کے بھی ہاتھ سرکاروں نے باندھ رکھے ہیں عالمی انسانی حقوق کمیشن گرچہ بڑی حد تک پولیس اور سرکاروں کے ہاتھوں انسانی حقوق اور انسانی اقدار کی پامالی پر آواز بلند کرتا رہتا ہے علاوہ ازیں نجی طور پر بنائی گئی انسانی حقوق کے تحفظ کی تنظیمیں اور شخصیات بھی لب کشائی کرتی رہتی ہیں اور اس کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں بھی ان کو جھیلنا پڑتی ہیں ، سرکاریں ایسی تنظیموں اور شخصیات کو اپنے لئے خطرہ سمجھتی ہیں۔ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں ایک آئین ہے ہماری پولیس بھی آئین کے تحت کام کرنے کی پابند ہے اگر پولیس کے ہاتھوں انسانی جانوں کا اتلاف ہوتا ہے تو انسانی حقوق اور انسانی اقدار کے ساتھ یہ آئین کی بھی پامالی ہے۔ اس لئے اس پر تشویش ہونا لازمی ہے۔ اس سے نجات کے لئے پولیس کے ڈھانچہ کے ساتھ ساتھ سیاسی ڈھانچہ کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS