طالبان کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔

0

 

امام علی مقصود فلاحی۔

متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔

آج کل طالبان بڑے سرخیوں میں ہیں، ہر طرف ان ہی کا نام‌ لیا جارہا ہے، سوشل میڈیا سے لیکر نیشنل اور انٹرنیشنل چینل تک، علاقائی اخبار سے لیکر بین الاقوامی اخباروں میں انہیں کا چرچا ہے۔
کبھی عمران خان ان پر اچھے تبصرے کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی صدر ایران ابراہیم رئیسی انکے حق میں لب کشائی کرتے ہیں، کبھی شیخ الاسلام مفتی طالبان کو مبارکباد پیش کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق طالبان کو سراہتے ہیں۔
وہیں دوسری جانب مخالفین کے نظر میں طالبان گرے ہوئے اور آتنکواد شمار کیے جاتے ہیں۔
ملک کے امن کو برباد کرنے والے اور خواتین پر ظلم کرنے والے شمار کیے جاتے ہیں۔
جس کی وجہ بے شمار لوگ حیران و ششدر ہیں کہ آخر یہ طالبان ہیں کون؟
کیا واقعی یہ آتنکواد ہیں؟ کیا واقعی یہ عورتوں پر ظلم‌ ڈھانے والے ہیں؟ کیا واقعی یہ ملک کے امن کو خطرے میں ڈالنے والے ہیں؟
اگر ہیں تو کچھ لوگوں کی نظر میں کیوں اچھے ہیں؟
تو آئیے ذرا جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ طالبان ہیں کون؟ انکی تاریخ کیا ہے؟ اور یہ کیا چاہتے ہیں؟

سنہ 1994 میں ملا محمد عمر نے خانہ جنگی کے دوران بڑھتے ہوئے جرائم اور حادثات کو چیلنج کرنے کے لیے اپنے بےشمار پیروکاروں کے ساتھ “طالبان” کی بنیاد رکھی۔ طالبان کا لفظی مطلب پشتو میں “طلباء” ہے ، اور اس کے بانی ملا محمد عمر ہیں۔

طالبان گروہ میں ان “مجاہدین” جنگجوؤں کو داخل کیا گیا جنہوں نے 1980 کی دہائی میں سابقہ سویت یونین افواج کو افغانستان سے باہر دھکیلا تھا اور 1996 تک ملک کے بیشتر حصوں کا کنٹرول سنبھالا تھا. اس گروہ نے تقریبا پانچ سال تک افغانستان پر حکومت کی، یہاں تک کہ 2001 میں امریکی افواج نے اسے اکھاڑ پھینکا۔

یہ وہ گروہ ہے جو 1994 میں جنوبی افغان شہر قندھار سے ابھرا۔
یہ سوویت یونین کے انخلا کے بعد ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے لڑنے والے افغان جنگجو گروپوں میں سے ایک تھا۔

طالبان میں شامل اکثریت ان مجاہدین کی تھی جنہوں نے امریکا کی مدد سے 1980 کی دہائی میں سوویت افواج کو افغانستان سے بھاگنے پر مجبور کیا۔

طالبان کے بانی ملا محمد عمر طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد روپوش ہوگئے تھے، لیکن جب آپ 1994 میں سامنے آئے تو پھر دو سال کے اندر طالبان نے کابل سمیت ملک کے بیشتر حصوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ۔
ملا عمر کے ٹھکانے اتنے خفیہ تھے کہ 2013 میں ان کی موت کی تصدیق بھی ان کے بیٹے نے انتقال کے دو سال بعد کی۔

طالبان کیا چاہتے ہیں؟
طالبان اصل میں ملک میں شرعی قوانین نافذ کرکے خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ طالبان اپنے پانچ سال کے اقتدار کے دوران سخت شرعی قوانین نافذ کیے تھے، انہوں نے خواتین کو بنیادی طور پر کام کرنے سے روک دیا تھا اور مرد سرپرست کی غیرموجودگی میں انہیں گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔
طالبان کے دور میں سرعام پھانسی اور کوڑے مارنے کی سزائیں عام تھیں
ان کے دور میں سرعام پھانسی اور کوڑے مارنے کی سزائیں عام تھیں جب کہ مغربی فلموں اور کتابوں پر پابندی لگا دی گئی۔

طالبان افغانستان کے لیے ایک ایسا حقیقی اسلامی نظام چاہتے ہیں جس میں ثقافتی روایات اور مذہبی قوانین کے مطابق خواتین اور اقلیتوں کو ان کے حقوق فراہم کرے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS