ایم اے کنولؔ جعفری
عدالت عظمیٰ کے حکم پرضلع گوتم بدھ نگر کے نیو اَوکھلا اِنڈسٹریل ڈیولپمنٹ اَتھارٹی (نوئیڈا) کے سیکٹر نمبر93اے کے پلاٹ نمبر چارمیںآسمان سے باتیں کرتے 100میٹر اُونچائی کے 32منزلہ اپیکس اور97میٹر اُونچائی کے 30منزلہ سیان ٹوئن ٹاورز کو 28 اگست بروز اتوار کو2.31بجے بعد از دوپہر زمیں دوزکر دیا گیا۔ ان کی تعمیر غیر قانونی طور پر کی گئی تھی۔ٹاوروں کو منہدم کرنے کی ذمہ داری مشہور کمپنی ایڈیفس انجینئرنگ ممبئی کو دی گئی۔اس میںجنوبی افریقہ کی جیٹ ڈمولیشن نے معاونت کی۔ فلک بوس ٹاوروں کو منہدم کرنے میںصرف نو سیکنڈ کا وقت لگا ۔ٹاوروں میں915فلیٹس اور21دُکانیں تھیں ۔ جائے وقوع پرتقریباً 80ہزار ٹن ملبے کا ڈھیر لگ گیا،جس کی اُونچائی قریب ساڑھے 4منزلہ عمارت کے برابر بیٹھتی ہے۔جڑواں ٹاوروں کی تعمیر کرانے میں سپرٹیک کو پانچ برس سے زیادہ کا وقت لگا تھا ۔ ٹوئن ٹاورز گرانے کے پیچھے بدعنوانی کو ذمہ دار بتایا جا رہا ہے۔ اس سے بلڈر کو کم و بیش 800کروڑروپے کا نقصان ہوا۔
نوئیڈا اَتھارٹی کے ذریعہ23نومبر2004کونوئیڈا سیکٹر93اے میں واقع پلاٹ نمبر چار رقبہ 13.5ایکڑ زمین کو ایمرالڈ کورٹ کے لیے الاٹ کیا گیاتھا۔ نوئیڈا اور گریٹر نوئیڈا ایکسپریس وے کے نزدیک تین،چار اور پانچ بی ایچ کے فلیٹس والی عمارتیں بنائی جانی تھی۔ سپر ٹیک کو نوئیڈا اَتھارٹی کی جانب سے گراؤنڈ فلور سمیت نو منزلہ14ٹاورز بنانے کی منظوری دی گئی،لیکن کمپنی نے 29 دسمبر 2006کو اَتھارٹی سے نوکی جگہ 11 منزلہ عمار ت کھڑی کرنے کی منظوری حاصل کرلی۔ٹاوروں کی تعداد بڑھ کر پہلے 15اور بعد میں16ہو گئی۔2009میں ترمیم کے بعد ٹاوروں کی تعداد17 ہو گئی ۔ دو مارچ 2012کو ٹاور نمبر 16اور17کے لیے پھرترمیم کرتے ہوئے ٹاورزاور شاپنگ کامپلیکس بنا نے کی منظوری دی گئی۔ 2012میں نوئیڈا اَتھارٹی نے پروجیکٹ کا جائزہ لیا۔اسی کے ساتھ ٹوئن ٹاورز کی اُونچائی بڑھاکر 40منزل طے کی گئی۔پروجیکٹ پر کام شروع ہو گیا۔ 2005میں یہ جگہ گرین ایریا (پارک) کے لیے مختص کی گئی تھی۔بلڈر نے افسران کے ساتھ سازش کر اس مقام پر دو فلک بوس ٹاورز کھڑے کرنے کے لیے زمین کے استعمال کے ضوابط ’لینڈ یوز‘ تبدیل کرا لیا ۔ اس پر ایمرالڈ کورٹ کے اصل تقسیم کاروں نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ سپر ٹیک نے ٹاور نمبر ایک کے سامنے پارک بنانے کا وعدہ کیا تھا،لیکن جون 2005 میں منصوبے میں ترمیم کی گئی۔ پارک کی اسی زمین پر32منزلہ اپیکس اور30منزلہ سیان ٹاورز بنائے گئے۔منصوبے کے تحت جڑواں ٹاوروں کی تعمیر40منزل تک ہونی تھی۔ اسی درمیان ایمرالڈ کورٹ کے مکینوںنے سپر ٹیک سے تعمیر بند کرنے کا مطالبہ کیا،لیکن اس نے توجہ نہیں دی۔اس کے بعد2012میں ریزیڈینٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن نے غیر قانونی طور پر تعمیر کی جا رہی عمارتوں کو منہدم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ہائی کورٹ الہ آباد میں اپیل دائر کی۔ ایسو سی ایشن کی جانب سے زبردست طریقے سے پیروی کرتے ہوئے اپنا موقف رکھا گیا۔ عدالت نے فریادیوں کو راحت دیتے ہوئے اپریل 2014 میں دونوں ٹاوروں کو منہدم کرنے کا حکم دیا۔
سپرٹیک نے ہائی کورٹ الہ آباد کے ذریعہ سنائے گئے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرتے ہوئے جڑواں ٹاوروں کو بچانے کے لیے آٹھ برس تک جدوجہد کی۔کمپنی کو لگ رہا تھا کہ لوگوں کو رہائش گاہ فراہم کرنے والے پروجیکٹ کے خلاف فیصلہ نہیں ہو گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔جیت بدعنوانی کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کی ہوئی۔31اگست 2021 کوعدالت عظمیٰ نے ہائی کورٹ الہ آباد کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے نہ صرف دونوں ٹاوروں کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دیا،بلکہ صاف الفاظ میں یہ بھی کہا گیا کہ غیر قانونی تعمیر کے ساتھ سختی سے پیش آنا ہوگا ۔ٹوئن ٹاورز کی تعمیر اَتھارٹی اور ڈیولپر کے درمیان سازش مثال ہے۔ عدالت عظمیٰ نے ہائی کورٹ الہ آباد کے فیصلے کو بالکل صحیح بتاتے ہوئے جڑواں ٹاوروں کو30نومبر2021 تک منہدم کرنے اور فلیٹس خریدنے والے لوگوں کو 12فیصد اضافی رقم( سود) کے ساتھ اُن کے روپے لوٹانے کا حکم دیا۔لیکن کمپنی نے سپریم کورٹ سے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کی۔ نظر ثانی کے دوران دونوں جانب سے کئی سماعتیں ہوئیں۔سماعتوں میں ایمرالڈ کورٹ کے رہائشیوں کے تحفظ کی بابت خدشات ظاہر کئے گئے ،لیکن سپریم کورٹ نے فیصلے میں کوئی تبدیلی نہیں کی ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اپیکس ٹاوار اور سوسائٹی کے 12منزلہ ایسٹر ٹو ٹاور کے درمیان کے فاصلے میں کم سے کم لازمی دُوری کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اُتر پردیش اپارٹمنٹ ایکٹ کے تحت نجی فلیٹ مالکوں کی لازمی رضامندی کو درکنار کرتے ہوئے غیر قانونی طریقے سے ٹاورز بنائے گئے۔دونوں ٹاوروں کے درمیان کی دُوری بھی بڑا مدعارہی۔موقع پر یہ فاصلہ صرف نو میٹر ہے،جو قانونی اعتبار سے غلط ہے۔ اسے کم سے کم 16میٹر ہونا چاہئے تھا۔ٹاورز منہدم کرنے کے فیصلے سے بلڈر کو دھکا لگنا لازمی تھا ۔ ٹوئن ٹاورز کے915میںسے711فلیٹوں کی بکنگ ہو چکی تھی ۔ عدالت عظمیٰ کے تاریخی فیصلے کے بعد652خریداروں کو اُن کی رقم لوٹا دی گئی۔ ان میں 300 سے زیادہ لوگوں نے اپنی رقم واپس لی،جبکہ باقی لوگوں نے دوسرے منصوبوں میں پراپرٹی کی خریداری کی۔دوسری جانب ابھی59 خریداروں کو بلڈر سے14کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم ملنی باقی ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ ٹاوروںکو درمیان کا فاصلہ کم ہونے کی وجہ سے منہدم کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کیا بلڈر بغیرنو آبجکشن سرٹیفکٹ( این او سی) کے ایسا کر سکتا تھا؟شاید نہیں۔ ایسا کرنا تب ہی ممکن ہے،جب بلڈر اور اَتھارٹی کی رائے ایک ہو جائے۔جڑواںٹاوروں کی تعمیر میںدونوں کی ملی بھگت اور سازش سے کسی بھی طور انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ٹوئن ٹاورز کے انہدام سے ایک بات صاف ہو جاتی ہے کہ عدالتوں میںبدعنوانی اور بدعنوانوں کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیںہے۔کرپٹ لوگوں سے سختی سے نمٹا جانا ہی چاہئے۔اس تازہ واردات سے یہ ثابت بھی ہو جاتا ہے کہ کرپشن میں ملوث افرادکے ہاتھ کتنے ہی لمبے کیوں نہ ہوں،وہ قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکتا۔ ہندوستان کی عدلیہ کے اس ا قدام کی دھمک پوری دنیا میں سنی گئی۔ ٹاوروں کے زمیں بوس ہونے کی واردات سے موقع پرست بلڈروں اوربدعنوان افسران کی سازش پر زبردست چوٹ ہوئی ہے۔ اس کے بعد جائیداد کی خریدوفروخت میں لگی کمپنیاں غیر قانونی تعمیر کرانے سے قبل بار بار سوچنے پر مجبور ہو جائیں گی۔ قابل غور ہے کہ عدالت عظمیٰ کے حکم پر ٹاور بنانے کے لیے ذمہ دار افسران کی نشان دہی کی گئی ہے۔ ان میں نوئیڈا اتھارٹی کے 24افسران،چار بلڈرمنیجروں، دو نقشہ نویسوں پر قانون کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں ایف آئی آر درج کی جا چکی ہے۔ان میں 18افسر سبکدوش ہو چکے ہیں،جبکہ 6 افسران کو معطل کیا جا چکا ہے۔حالانکہ ان افسران کی ڈپارٹمنٹل تفتیش ہو چکی ہے،لیکن ابھی تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی۔
افسران کی غیر فعالی، لاپرواہی اورکام کاج کے خراب طریقے پر قدغن لگانے کے لیے انھیں کام کاج کے تئیں ذمہ دار بنانا اور جواب دہی طے کرنا ضروری ہے۔ کبھی پڑھا اور سنا کرتے تھے کہ امریکہ کے شہر نیو یارک میں101منزلہ عمارت ہے،جس میں اُوپر جانے کے لیے عام زینے کی جگہ لفٹ کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اب اس طرح کی فلک بوس عمارتوںکی تعمیر اور ان میں رہنا عام بات ہوتی جا رہی ہے۔ ٹاوروں کے فلیٹ اور شاپنگ مال ماڈرن سماج کی سطح کو نشان زد کرنے لگے ہیں۔ شہر میں رہنے والے افراد نئی طرز کے شاندار فلیٹوں میں رہنے کو اسٹیٹ سمبل سمجھنے لگے ہیں۔دونوں ٹاوروں کو منہدم کرنے میںقریب80ہزار ٹن ملبہ نکلا ہے۔انھیں گرانے کے لیے3700کلوگرام دھماکا خیز مواد کا استعمال کیا گیا۔اسے فلیٹوں کے پلروں اور دیواروں میں بھرا گیا۔ دھماکا خیز مادے سے جُڑے تاروں کے ریموٹ کو 100میٹر کے فاصلے پر لے جاکر انہدام کی کارروائی کی گئی۔ دھماکے سے جڑواں ٹاوروں کے زمیں دوز ہوتے ہی فضاء میں10منٹ تک دھول کا غبار چھایا رہا۔دھماکے کو 0.4ریکٹر والے زلزلے جیسا بتایا گیا ہے۔ٹوئن ٹاورز کو گرانے کی کارروائی میں20کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ ملبہ ہٹانے میں بھی بڑی رقم خرچ میں آئے گی۔ملبے کی صفائی میں تین مہینے کا وقت لگے گا۔ملبے سے قریب4000ٹن لوہا نکلے گا۔ 60فیصدی ملبے کو ٹاوروں کے بیس منٹ میں بھرا جائے گا،باقی ملبہ سی اینڈ ڈی پلانٹ پرلے جایا جائے گا۔نوئیڈا اَتھارٹی کے لیے انہدام کے بعد اُٹھے گردوغبار،فضائی آلودگی اور ہوا کی خرابی سے نمٹنا بھی کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا کرپشن میں ملوث لوگوں کی گرفتاری اور رقم وصولی کی کارروائی ممکن ہو پائے گی؟ اگر ہاں تو کب تک؟ آسمان چھوتے ٹوئن ٹاورز کے مکمل ہونے اور ان میںصارفین کی رہائش سے قبل ہی ان کے انہدام کا سانحہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔ انھیں زمیں دوزکرنے کے ساتھ کتنے ہی لوگوں کے خواب منہدم ہو گئے،لیکن کرپشن کے مینار ابھی بھی سر اُٹھائے کھڑے ہیں۔بدعنوانی کو لے کر طرح طرح کے سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ کرپشن ایک ایسا ناسور ہے ، جو سوکھنے کی بجائے لگاتار پنپ رہا ہے۔ایک جانب جہاں نیشنل اور اسٹیٹ ہائی ویز اور ندیوں کے اُوپر بنائے جانے والے پُل اوراَوور برج بدعنوانی کی گرفت سے محفوظ نہیں ہیں ، وہیں سرکاری اور غیر سرکاری بلڈنگ، اسکول، کالج،ا سپتال، کارخانے اور اسٹیڈیم وغیرہ کی تعمیربھی کرپشن کے شکنجے سے باہر نہیںرہ پارہی ہے۔عام سڑکوں اورچھوٹے موٹے کاموں کا تو کہنا ہی کیا وہاں تو بدعنوانی کا گراف لگاتار بڑھتا ہی جا رہا ہے۔انسانی زندگی سے متعلق شاید ہی کوئی زمرہ ایساہو، جہاں بدعنوانی کھڑی منہ نہ چڑا رہی ہو۔آج سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔غیر قانونی کاموں سے تب ہی نجات پائی جا سکتی ہے ، جب رشوت خوری اور بدعنوانی کو جڑسے ختم کرنے کے لیے اپنے آپ سے شروعات کی جائے۔
[email protected]