پولیس کی انسانی حقوق کی پامالی اور قانون شکنی پر کب لگام لگے گی

0

شاہد زبیری

امریکہ میں اگر کسی سیاہ فام نسل کے شہری کی گردن پر گھنٹہ رکھ کر کوئی پولیس والا جان لے لیتا ہے تو پورا امریکہ چیخ پڑتا ہے اور انسانی حقوق کی محافظ تنظیمیں سڑکوں پر اتر آتی ہیں اور میڈیا بھی آواز بلند کرتاہے جس کے آگے امریکی پولیس دکھاوے کے لئے ہی سہی گھٹنوں کے بل جھکنے پر مجبور ہوجا تی ہے لیکن ہمارے ملک میں پولیس جب کسی اقلیت ،دلت یا قبائل اور کمزور طبقات یامعاشی طور سے کمزور افراد کو مذہب اور ذات کی بنیاد پر اور حکومتوں کی ایما اور سیاسی دبدبہ کے تحت اپنے ظلم وستم کا نشانہ بناتی ہے تو نہ صرف ہمارا سماج چپ رہتا ہے ہمارا قومی انسانی حقوق کمیشن اور صوبائی کمیشن بھی آنکھیں بند کر لیتا ہے ہمارا میڈیا پولیس کے ہر ظلم کو صحیح اور حکومتوں کے موقف کو جائز ٹھہرانے لگتا ہے جس کی بہت سی مثالیں چشمِ کشا سے دیکھی جاسکتی ہیں۔ تازہ مثال 3 جون کے کانپور اور 10جون کو بعد نمازِ جمعہ اہانتِ رسولؐ کے خلاف ہو نے والے مظاہرے ہیں جن کے دوران بعض مقامات پر کچھ جوشیلے نوجوانوں کی طرف سے پتھر بازی اور آگ زنی کے اکّا دکّا واقعات سامنے آئے جس کو کسی طور بھی صحیح نہیں ٹھہرایا جا سکتا لیکن اس جرم کی پاداش میں مسلمانوں کے خلاف پولیس کے کریک ڈائون کو بھی جائزنہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ معصوموںکو گولیوں سے بھون دینا ، سنگین دفعات کے تحت نوجوانوں کو جیلوں میں ٹھوسنا، پولیس حراست میں تھانوں میں ان پر قہر ڈھانا ان کے ہاتھ پائوں توڑ نا، غریبوں کے گھروں کو مسمار کرنا کیا یہ قانون کی حکمرانی ہے یا امن اور قانون کی بحالی ہے کیا کسی مہذب سماج میں اس کی گنجائش ہے؟
پھر آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارا قومی انسانی حقوق کمیشن اور ہمارے صوبائی کمیشنوں نے اس طرف سے اپنی آنکھیں موند رکھی ہیں ہماری عدالتوں نے اختیار رکھتے ہوئے بھی اس بربریت کے خلاف از خود کوئی نوٹس نہیں لیا۔ میڈیا کی بات تو چھوڑئے وہ تو حکومت کے آگے ڈنڈوت ہے اور نفرت کے ان شعلوں کو بھڑکانے کا اصل مجرم ہے۔ حالیہ افسوس ناک واقعات جس کا نتیجہ ہیں وہ میڈیا ہی کی دین ہے ۔ میڈیا کے ہی ایک مباحثہ میں اہانتِ رسولؐ کی شرمناک جسارت کی گئی جس کے نتیجہ میں عالمی سطح پر ملک کو شرمسار ہو نا پڑاہمارے ایلچی طلب کئے گئے ہمارے دوست مما لک کی طرف سے ہمارے ملک سے معافی مانگنے کے مطالبہ کی نوبت تک آگئی اور اندرونِ ملک مسلم نوجوانوں کو حکومتوں اور پولیس کے عتاب کا شکار ہو نا پڑ رہا ہے اور مسلمان نوجوا ن ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں سوائے 144 کی خلاف ورزی کے لیکن جو جرم انہوں نے نہیں کئے وہ بھی ان کے نامۂ اعمال میں لکھے جا رہے ہیں۔ مسلم ووٹوں پر اپنے سیاسی محل تعمیر کرنے والی سیاسی جماعتوں میں سوائے لوکدل کے کسی اور تنظیم نے اس معاملہ میں پہل نہیں کی۔ لوکدل کے قومی صدر جینت چودھری نے اپنے ممبرانِ اسمبلی کا ایک وفد سہارنپور بھیجا اس نے مظلومین کے گھر والوں سے رابطہ کیا اورڈھارس بندھا ئی۔ سہارنپورپولیس کے ظلم کا پردہ فاش بھی این ڈی ٹی وی کے سوربھ شکلا اور بھاسکر ٹی وی کے علاوہ سینئر صحافی اجیت انجم نے کیا۔ اجیت انجم نے تو سب انسپکٹر کا سر نیم بھی بتا دیا اورتھانہ کا نام بھی کھول دیا۔ انسانی حقوق کی سب سے بڑی علمبردار والے تنظیم ایمنیسٹی انٹر نیشنل کے بھارت میں سربراہ آکار پٹیل نے الزام لگا یا کہ ہندوستان میں مسلمان مظاہرین پرتشدد کیا جا رہا ہے اور امتیازی سلوک کے خلاف آواز اٹھانے والے مسلمانوں پر حکومت کریک ڈائون کررہی ہے بلا جواز گرفتاریاں من مانی حراست، گھروں کی مسماری کی جا رہی ہے۔ ایمینیسٹی انٹر نیشنل نے اس کو انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور مطالبہ کیا کہ ہندوستان مسلمان مظا ہرین کے خلاف کریک ڈائون بند کرے مظاہرین کی فوری اور غیر مشروط رہائی کی جائے۔ ہم ایمنسٹی انٹر نیشنل کی اس رپورٹ کو مکمل طور پر مستر د نہیں کرسکتے اس لئے اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا وہ دنیا سے پوشیدہ نہیں ہے یہ ممکن ہے کہ یہ رپورٹ کچھ ملک دشمن طاقتوں کے حق میں جاتی ہو ۔
یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ ملک کو آزاد ہوئے 75سال ہو گئے لیکن ہماری پولیس کے طور طریقے وہی انگریزی راج کے ہیں 1860 کے پولیس ایکٹ میں تبدیلی اور پولیس ریفارم کو لے کر ایک سے زائد کمیشن بنا ئے گئے لیکن یہ ریفارم ’ہنوزدلّی دور است ‘نظر آتا ہے اگر ریفارم کمیشنوں کی سفارشات پر عمل کیا جا تا تو نہ تو جھارکھنڈ پولیس دو نابالغ بچوں کو موت کے گھاٹ اتارتی اور نہ سہارنپور پولیس کے تھانہ میں زیر حراست نوجوانوں کے ہاتھ پائوں توڑے جا تے اور انسانی حقوق کی پامالی ہو تی اور نہ قانون شکنی کے جرم کا ارتکاب ہماری پولیس کے ہاتھوں ہوتا جس کا کام قانون کا نفاذ کرنا اور انسانی حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ آخر پولیس کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی اور قانون شکنی پر کب لگام لگے گی ،لگے گی بھی کہ نہیں یا یہ خدشہ صحیح ثابت ہو گا کہ ہماری جمہوری اسٹیٹ جلد پولیس اسٹیٹ میں بدل جا ئے گی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS