ماضی کی تاریخ، ہمارا بھی مستقبل ہے اور آر ایس ایس کا بھی

0

اے- رحمان

برطانوی صحافی ادیب جارج آرویل نے اپنی مشہورِ زمانہ اور پیغمبرانہ مستقبل بیں بصیرت سے مملو شاہکار تصنیف 1984 میں انسانی اورسیاسی تاریخ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا تھا He who controls the past controls the future.He who controls the present controls the past. یعنی ’جس کا ماضی پر کنٹرول ہو مستقبل پر بھی اس کا کنٹرول ہو گا‘اور ’ جس کا حال پر کنٹرول ہو ماضی کو بھی کنٹرول کر سکتا ہے‘۔ ( میں نے ارادتاً لفظ ’کنٹرول ‘کا ترجمہ نہیں کیا ہے)اور تاریخ شاہد ہے کہ ہر دور میں ہر قسم اورہر کردار کے مطلق العنان حکمرانوں نے تاریخ کو اپنے نظریات اور ممکنہ مفادات کی خاطر تبدیل کر کے عوام کے ذہن کو اس عارضے میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جسے انگریزی میں collective amnesia (اجتماعی نسیاں) کہا جاتا ہے۔ جعلی خبروں اور پروپیگنڈا جیسے حربوں کی مضرت تو عیاں ہے ہی لیکن حب الوطنی کے نام پر تاریخ کو مسخ کر کے مطلوبہ نظریاتی بیانیہ کی جو ذہنی غذا مقتدر و مطلق حاکم کے ذریعے سیاسی دسترخوان پر سجائی جاتی ہے اس کو قوم پرستی کے جذبے سے مغلوب عوام الناس زہر جانتے ہوئے بھی لپا لپ چٹ کر جاتے ہیں۔بیسویں صدی میں تاریخ کے ساتھ ایسی کھلواڑ کی بدترین مثال ہٹلر کی پروپیگنڈا وزارت کے ذریعے پیش کئے گئے ’’تاریخی‘‘ واقعات اور کہانیاں تھیں۔ (اور اب یہ دہرانے کی ضرورت تو ہے نہیں کہ ہماری موجودہ حکومت مکمل طور سے ہٹلر کے نقشِ قدم پر گامزن ہے) اطالوی یہودی کیمیا داں اور مصنف پرائیمو لیوی (Primo Levi ) جو ہٹلر کے سب سے دہشت ناک اور بد نام ترین کنسنٹریشن کیمپ آشوز (Auschwitz ) سے معجزاتی طور پر زندہ بچ نکلا تھا اور جس کی خود نوشت سوانح کو ہٹلر کے کیمپوں اور مظالم کی مستند ترین تاریخ سمجھا گیا ہے اپنی کتاب If This Is Man (اگر یہی ہے انسان) میں ایک جگہ لکھتا ہے ’’تھرڈ ریخ یعنی جرمنی کی نازی پارٹی کی حکومت کی پوری تاریخ کو ’یاد داشت کے خلاف جنگ‘ کی حیثیت سے پڑھا جا سکتا ہے۔‘‘ موجودہ دور میں امریکی صدر ٹرمپ کے بعد ترکی صدر طیب اردغان نے بھی تاریخ کو مسخ کیا اور اتا ترک کے کارناموں اور اس کے ذریعے قائم کی گئی سیکولر جمہوریت کی تاریخ کو عوام کے ذہن سے مٹا کرسلطنت عثمانیہ کی گزشتہ شان ،دبدبہ اور جاہ و حشم کی یاد وں کو زندہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
ہندوتو کے کٹّر پیرو اور آر ایس ایس کے نظریہ ساز ایک طویل عرصے سے تاریخ،لسانیات اور آثارِ قدیمہ پر مبنی شواہد کو مسخ یا توڑ مروڑ کر ہندوستان کو خالصتاً ہندو ملک اور ایک غیر معروف اور اور غیر معینّہ ثقافت کی تاریخی سند قائم کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں ’’تاج محل ہندو مندر تھا‘‘ قسم کے مضحکہ خیز دعوے کرتے چلے آ رہے ہیں(اس کے باوصف کہ ہندو، ہندی اور ہندوستان تینوں الفاظ عربی اور فارسی سے مشتق ہیں یعنی مسلمانوں کی دین ہیں)یہ الگ بات ہے کہ ان کھوکھلے دعوؤں کی مخالفت خود ہندو دانشوران اور ماہرین کے ذریعے ہوتی رہی ہے، لیکن ابھی تین سال قبل بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی روئٹرز ( reuters) نے ایک دھماکہ خیز تفتیشی اسٹوری شائع کی جس میں انکشاف کیا گیاکہ مرکزی حکومت ہندکی وزارت ِ ثقافت نے رازدارانہ طریقے سے چودہ ماہرین پر مشتمل ایک ایکسپرٹ کمیٹی کی تشکیل کی تھی جسے لسانی اور قدیم آثاری ثبوت و شواہد تلاش کر کے رامائن اور مہابھارت کے واقعات اور کرداروں کی تاریخی صداقت قائم کرنے کی ذمہ داری تفویض کی گئی۔ (یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں زیر ِسماعت ’رام سیتو‘ معاملے میں نامور وکیل رام جیٹھ ملانی نے بذریعہ حلف نامہ دلیل پیش کی تھی کہ رامائن ایک ادبی رزمیہ ہے اور رام کا کردار قطعی تخیلّی ہے۔اس پر ایک سیاسی ہنگامہ کھڑا ہو گیا تھا جسے سیاسی مصلحت کے تحت جلد ہی خاموش بھی کر دیا گیا،لیکن سپریم کورٹ نے عقیدہ یعنی آستھا اور قانون کے ممکنہ ٹکراو ٔسے پہلو تہی کرتے ہوئے اس نکتے پر خاموشی برقرار رکھی)مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ ہندو اس سرزمین یعنی بر صغیر کے اصلی اور ازلی باشندوں کی نسل سے ہیںاور ملک کی قومی شناخت ہندو دھرم کے اصول و نظریات کے عین مطابق ہونی چاہئے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو اب تک نوشتہ تاریخ کو قلم زد کرکے حکومت ایک نئی تاریخ رقم کرنا چاہتی ہے جس کے مآخذ ہوں گے رامائن اور مہا بھارت۔اس کمیٹی نے جنوری 2019 میں نئی دہلی کے ایک سرکاری بنگلے میں خاموشی سے ایک میٹنگ کی جس میں کچھ اہم قرار دادیں منظور ہوئیں جن کا سرکاری طور پر اعلان تو نہیں کیا گیالیکن ذرائع ابلاغ کو اس کی سن گن لگ گئی۔
روئٹرز کے صحافیوں روپم جین اور ٹام لیسیٹر نے مذکورہ بالا کمیٹی کی کارروائی کی دستاویزی تفصیلات (minutes) حاصل کرنے کے بعد کمیٹی کے چند اراکین کے علاوہ وزیر ِ ثقافت مہیش شرما سے بھی گفتگو کی جنھوں نے نہایت فخر سے اپنی وزارت کے زیرِ اہتمام منعقدہ ورکشاپ اور سیمیناروں کا ذکر کیا جن میں ہندوؤں کے عظیم الشان ماضی کا تفوق قائم کرنے کے طریقے وضع کرنے پر غور کیا جا چکا ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین کے۔ این دیکشت نے بتایا کہ انہیں ایک ایسی رپورٹ تیار کرنے کے لئے کہا گیا ہے جس سے حکومت کو قدیم ہندوستانی تاریخ پر نظر ِ ثانی میں مدد ملے تاکہ تا ریخ دوبارہ لکھی جاسکے۔ سرکاری کاغذات میں اس کمیٹی کا موضوع پچھلے بارہ ہزار سال سے اب تک ہندو ثقافت کی ابتدا،ارتقا اور دیگر ثقافتوں سے آویزش اور آمیزش مذکور ہے۔ وزیرِ ثقافت مہیش شرما نے واضح الفاظ میں کہا کہ اس کمیٹی کی پیش کردہ رپورٹ کے مشمولات اور نتائج اسکولوں کے نصاب میں شامل کئے جائیں گے ۔ اپنے موقف کی حمایت میں وزیر موصوف نے دلیل دی کہ جب قرآن اور بائبل کو تاریخی اہمیت اور سند حاصل ہے تو رامائن اور مہابھارت کو کیوں نہ ہو۔ کمیٹی کے ایک رکن جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں سنسکرت کے پرو فیسر سنتوش کمار شکلا نے نمائندوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ ہندو کلچر کئی لاکھ سال پرانا ہے اور یہ پوری تاریخ نظر ِ ثانی کے بعد دوبارہ رقم ہونی چاہیے ۔اس دعوے پر ہنسنے کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دنیا کے تمام ماہرین ِ آثار ِ قدیمہ اور مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ ایک ملا جلا،منظم اور منضبط انسانی معاشرہ محض 10ہزار سال پیشتر وجود میں آیاتھااور اس وقفے کے ابتدائی پانچ ہزار سال تو آثار و قرائن پر مبنی محض اندازے ہیں۔
تاریخ کو بدلنے اور حقائق کو مطلوبہ رنگ دینے کے لئے تمام علمی اور فلمی ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔آر ایس ایس کی سب سے زیادہ توجہ مسلم دورِ حکومت پر مرکوز رہی ہے جس کے متعلق غیر مسلموں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلم ’حملہ آوروں ‘ اور حکمرانوں نے ہندو تہذیب اور ثقافت کو بری طرح مجروح کیا۔پچھلے چند سال میں مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کو ہدفِ ملامت بنا کر جو مضامین اور کئی کتابیں شائع ہوئیں وہ مستند تاریخ کا ابطال کرتی نظر آتی ہیں۔ اسکولوں کے نصاب کی کتابوں میں بھی دور مغلیہ کے بارے میں عموماً اور اورنگ زیب کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ زہریلا مواد شامل کیا گیا۔ مسلمانوں کے ماضی کو متعصبانہ طریقے سے داغدار کرنے کے لئے نصاب کی کتابوں میں تبدیلیاں کرنے کا یہ عمل کافی عرصے سے جاری تھا، لیکن حال ہی میں ایک نئی پیش رفت ہوئی ہے۔یاد رہے کہ تاریخ میں تبدیلی کی کوشش اپنی خامیوں، برائیوں اور غلطیوں پر پردہ ڈال کر اپنے کردار اور نظریئے کو بہتر انداز میں پیش کرنے کے لئے بھی کی جاتی ہے۔وزارتِ تعلیم نے حال ہی میں NCERT کے ذریعے شائع کی جانے والی اسکولی نصاب کی کتابوں میں ایسی تبدیلیاں اور ترامیم کروائی ہیں جن کے تحت مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف مذکور بعض ناپسندیدہ اور اہانت آمیز بیانات کو حذف کر دیا گیا ہے۔اس عمل کی تفصیلات اور پس پردہ اسباب و مقاصد نہایت دلچسپ ہیں۔
(جاری)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS