عبدالماجد نظامی
کانگریس کے سینئر لیڈر اور وائناڈ کے عوام کے نمائندہ راہل گاندھی سب سے پہلے تو مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ملک کی آخری عدالت سپریم کورٹ نے ہتک عزت معاملہ میں ان کی سزا پر روک لگا دی جس کی بدولت پارلیمنٹ میں ان کی واپسی یقینی بن پائی۔ یہ جیت جمہوریت کی فتح ہے اور ساتھ ہی اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کی نچلی عدالتوں اور بعض اوقات ہائی کورٹ کی سطح کے جج صاحبان کے فیصلوں پر نظرثانی کی گنجائش باقی رہتی ہے، کیوں کہ کئی بار یہ فیصلے جمہوریت کی روح کو ختم کرنے کا شبہ پیدا کردیتے ہیں۔سپریم کورٹ نے جو تبصرے اس مقدمہ کی جرح کے دوران کیے تھے، ان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ کی تہہ تک پہنچ کر حقیقت حال کے ادراک کی کوشش ان نچلی عدالتوں میں نہیں کی گئی تھی۔ اگر ایسا کیا گیا ہوتا تو راہل گاندھی کی پارلیمنٹ کی رکنیت کے ختم ہونے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ خیر! اب چونکہ راہل گاندھی پارلیمنٹ میں پہنچ چکے ہیں اور ملک کے حساس مسئلوں بالخصوص منی پور میں جاری تشدد اور اس کے شکار شہریوں، جن میں عورتیں، بچے، بوڑھے اور جوان سب شامل ہیں، کی حالت زار پر روشنی ڈال چکے ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو نہ صرف کٹہرے میں کھڑا کرچکے ہیں بلکہ انہیں منی پور میں ’’بھارت ماتا‘‘ کا قاتل بھی قرار دے چکے ہیں اور اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ یہ پارٹی ملک کے اتحاد اور سالمیت کے لیے خطرہ ہے، اس لیے اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کانگریس پارٹی اور خود راہل گاندھی اس زعفرانی پارٹی کی تقسیم پر مبنی پالیسی کا مقابلہ کس طرح سے کرتے ہیں۔ اس وقت ملک کی حالت جس قدر نازک ہے، اس پر روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ ایک بدیہی معاملہ بن چکا ہے اور ہر شخص اس کی سنگینی سے واقف ہے۔ جو کچھ نوح، گروگرام اور ہریانہ کے دیگر شہروں اور قصبوں میں ہوا وہ انسانیت کو شرمسار کرنے والا اور جمہوری نظام کے اصولوں پر سیاہی مَل دینے والا تھا۔ اس کالم کے ذریعہ بارہا جمہوری قدروں کے تحفظ اور جمہوری اداروں کے فروغ پر زور دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اس حقیقت سے روشناس کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جب تک اس ملک کو اعلیٰ انسانی اور جمہوری قدروں سے لیس نہیں کیا جائے گا، تمام ادارے انصاف کے جذبہ سے دستوری اصولوں پر گامزن نہیں ہوں گے اور ملک کے کمزور طبقات کو امن و آشتی فراہم نہیں کیا جائے گا تب تک اس ملک کو دنیا کے نقشہ پر وہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا جس کا خواب یہاں کے ارباب اقتدار سیاست کے بازار میں ہر روز بیچتے نظر آتے ہیں۔ ملک کے وزیراعظم وہائٹ ہاؤس کے لان یا پیرس کے ایوانِ شاہی میں خواہ کتنا ہی فریب کن بیان دنیا کے میڈیا کے سامنے دے آئیں لیکن وہ اس حقیقت سے آنکھیں بند نہیں کرسکتے کہ کوئی ’’دی وال اسٹریٹ جرنل‘‘ یا ’’دی نیویارک ٹائمس‘‘ یا ’’دی لا موند‘‘ ان کی اصل تصویر دنیا کو دکھانے کے لیے ہمیشہ موجود رہے گا اور اس سے صرف ان کی اور ان کی پارٹی کی ہی بدنامی نہیں ہوگی بلکہ خود ہندوستان کو شرمسار ہونا پڑے گا جیسا کہ فرانس کے دورہ کے موقع پر یوروپی پارلیمنٹ کی قرارداد کی وجہ سے وزیراعظم کو سبکی محسوس ہوئی ہوگی۔ وزیراعظم اگر واقعی ہندوستان کو وشو گرو کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ مغربی ممالک کے دوروں پر وہ جن قدروں کے ساتھ ہندوستان کے اشتراک کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ لبرل جمہوریت اور سماجی انصاف کے اصول ہیں۔ انہی اصولوں پر عمل پیرا ہونے سے ہندوستان کا قد اونچا ہوسکتا ہے۔ اس کی عملی تصویر ہندوستان اس طرح پیش کر سکتا ہے کہ یہ اپنی اقلیتوں کے ساتھ بہتر سلوک کرے، میڈیا کی آزادی کو یقینی بنائے اور اپوزیشن پارٹیوں کو اپنا کام آزادی سے کرنے دے۔ لیکن اپوزیشن پارٹیوں خاص طور سے سب سے بڑی حزب اختلاف کانگریس پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دستوری اصولوں پر عمل پیرا ہونے اور کمزور و بے کس طبقوں کے ساتھ کھڑے رہنے بلکہ انہیں انصاف دلانے کے لیے اپنی کمر کو ہر وقت کس کر رکھے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے تو یہ سمجھا جائے گا کہ وہ ارباب اقتدار کے مظالم میں برابر کی شریک ہے۔ راہل گاندھی نے منی پور کا دورہ کیا تھا اور ستم رسیدہ متاثرین اور خواتین و بچوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی و ہمدردی کی تھی۔ یہ ایک مستحسن اور قابل تقلید عمل تھا۔ اس کا اثر ہوا اور میڈیا سے لے کر پارلیمنٹ کے ایوانوں تک ہر جگہ سسٹم کی ناکامی بلکہ تشدد و قتل میں اس کے ملوث ہونے کی کہانی سامنے آئی اور امید کی جاتی ہے کہ متاثرین کو انصاف بھی ملے گا۔ لیکن یہ بات نہایت قابلِ تشویش اور مایوس کُن ہے کہ راہل گاندھی یا کانگریس کے اعلیٰ کمان میں سے کسی نے بھی اب تک نوح یا گروگرام کے متاثرین تک پہنچنے اور ان کی داد رسی کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ راہل گاندھی کو اپنے نانا جواہر لعل نہرو اور ان کے گرو مہاتما گاندھی سے سبق سیکھنا چاہیے جنہوں نے تقسیمِ ہند کے موقع پر جاری تشدد و آگ زنی اور قتل و خون کو روکنے کے لیے بنگال، بہار اور دہلی ہر جگہ پہنچ کر امید کی بات کی تھی۔ خود میوات کے ہزاروں مسلمان پاکستان کا رُخ کر چکے تھے اور باقی ماندہ لوگ بھی ہجرت کے لیے ساری تیاریاں کر چکے تھے لیکن جواہر لعل نہرو اور مہاتما گاندھی نے میئو مسلمانوں کو یقین دلایا کہ ان کی ہر طرح سے حفاظت کی جائے گی اور ان کو تحفظ فراہم کیا جائے گا، اس لیے وہ ترکِ وطن کا ارادہ چھوڑ دیں۔ ان میئو مسلمانوں نے ان قد آور شخصیات کے وعدہ پر بھروسہ کیا اور پاکستان جانے سے باز آگئے۔ آج تاریخ نے انہیں دوبارہ اسی موڑ پر لا کر کھڑا کر دیا ہے اور آج راہل گاندھی پوری شدت کے ساتھ آر ایس ایس اور بی جے پی کی تقسیم کی سیاست پر حملہ آور ہیں تو پھر کیا بات ہے کہ دہلی سے محض چند کلو میٹر کی دوری پر واقع نوح کا رُخ انہوں نے اب تک نہیں کیا ہے؟ وہ اپنے ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے تجربہ کی روشنی میں لال قلعہ سے خطاب کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ہندو- مسلم منافرت اس ملک کی حقیقت نہیں ہے بلکہ ضمیر فروش میڈیا ہاؤسز کی من گھڑت کہانی ہے تو پھر انہیں نوح اور گروگرام تک پہنچ کر اس پیغام کو شدت کے ساتھ پہنچانا چاہیے اور نہرو و گاندھی جی کی وراثت کو از سر نو زندہ کرنا چاہیے کیونکہ اس وقت اس مرہم کی سخت ضرورت ہے۔ نفرت کے بازار میں محبت کی جس دکان کے کھولنے کا وہ دعویٰ کرتے ہیں، کیا نوح اور ہریانہ کے دیگر شہروں اور قصبوں میں اس کے کھلنے کا وقت ابھی تک نہیں آیا ہے؟
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]