مملکتِ خداداد غضب خداوندی کی شکار؟

0

مملکت خداداد پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان توشہ خانہ کیس میں جیل میں بند ہیں۔ ان کی گرفتاری اس وقت ہورہی ہے، جب پاکستان کے عام انتخابات زیادہ دور نہیں ہیں۔ پچھلے دنوں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (نواز شریف) کی مخلوط حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف نے اعلان کیا تھا کہ ان کی انتظامیہ چند روز کی مہمان ہے اور عام انتخابات کے لئے پاکستان میں ایک عبوری حکومت اقتدار سنبھالے گی۔ یہ پاکستان کی روایت ہے کہ وہاں عام انتخابات ایک غیرجانبدار، غیرسیاسی حکومت کی نگرانی میں ہوتے ہیں۔ یہ عارضی انتظامیہ ملک میں غیرجانبدارانہ انتخابات کویقینی بناتا ہے، مگر عمران خان کی 5؍اگست 2023کی گرفتاری نے وہاں کے سیاسی ماحول کو اور گرما دیا ہے۔ اپنی تنک مزاجی، کھیل کے میدان میں تیزرفتاری اور عوامی زندگی میں ایمانداری اور عوامی خدمات کے لئے مشہور عمران خان کی یہ گرفتاری ان کے خلاف عائد 150مقدمات کے بعد توشہ خانہ کیس میں ہوئی ہے۔ جس شدت اور بڑے پیمانے پر ان کے خلاف ملک کے مختلف علاقوں میں کیس درج ہوئے ہیں، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کا اسٹیبلشمنٹ ان کے لئے الیکشن لڑنا مشکل کردے گا۔ یہاں پر اسٹیبلشمنٹ سے مراد پاکستانی فوج ہے،جو ملک کے سیاسی، سماجی اور کسی حد تک اقتصادی منظرنامے پر اپنی پوری گرفت رکھتی ہے۔ کوئی بھی سیاست داں چاہے وہ کسی پارٹی کا ہواورچاہے وہ کتنے بڑے کسی اتحاد کاکیوں نہ ہو فوج سے پنگا لے کر اقتدارمیں نہیں رہ سکتا۔ یہ پاکستان کا سیاسی ڈائنامک ہے۔ پاکستان میں اگرچہ جمہوری نظام ہے۔ دوسرے کئی مسلم اورعرب ممالک کے مقابلے میں وہاں پر جمہوریت تھوڑی بہت ہے، مگر مصر اور ترکی کی طرح پاکستان میں بھی فوج کی مرضی کے بغیر پتہّ نہیں ہلتا ہے۔ نواز شریف اور اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو اور پتا نہیں کتنے بڑے بڑے سیاست داں، خطیب، مدبر ، عالم اور فاضل آئے اورچلے گئے، مگر کوئی بھی شخص پاکستانی نظام کو توڑ نہیں پایا اوراس نے اگر پاکستان کے اسٹیبلشمنٹ سے کوئی پنگا لیا توچاہے وہ اپنے ماضی میں کتنا بھی فوج کے منظوررہا ہو، یا کتنا بھی ڈپلومیٹ رہا ہو، اپنا اقتدار بچا نہیں پایا ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ عمران خان پاکستانی فوج کے منظورنظر تھے، نواز شریف کے زوال اور کبھی سعودی عرب اورکبھی لندن کی ہجرت یا دربدری نے پاکستان کی سیاست میں ایک تیسرا فیکٹر عمران خان کو متعارف کرایا۔ تحریک انصاف کے صدر عمران خان سب سے پہلے سرخیوں میں اگرچہ اپنے کرکٹ کے میدان میں کارناموں کی وجہ سے نظرآئے تھے، بعد میں ریٹائرمنٹ کے بعد انہوںنے اپنی ماں شوکت خانم جوہندوستانی پنجاب کے ایک معزز خاندان کی چشم وچراغ تھیں کی یاد میں ایک کینسر اسپتال بنایا۔ ان کی ذاتی زندگی کونظرانداز کرتے ہوئے یہاں یہ بات کہنا ضروری ہے کہ وہ اپنے معاشقوں اور شادیوں کے لئے بھی سرخیوںمیں رہے۔ برطانیہ کے ارب پتی کی بیٹی جمائمہ گولڈ اسمتھ کے ساتھ وہ ایک باقاعدہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے اور جمائمہ خان نے بھی ایک طویل عرصے تک پاکستان میں رہ کر اور وہاں کے سماج میں قبولیت حاصل کرنے کی کوشش کی، مگر ایک عرصہ بعد وہ اکتا کر واپس لندن چلی گئیں۔ اب وہاں وہ اپنے اورعمران خان کے دوبچوںکے ساتھ خاموشی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ بہرکیف عمران خان نے پاکستان میں دوسیاسی خاندانوں کے مقابلے میں ایک ایسی سیاسی قوت پیدا کی جوبظاہر پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ سے بالکل جداگانہ نقطہ نظر رکھتی ہے، مگر پاکستان میں کسی بھی تیسرے متبادل کے لئے کتنی جگہ ہے اس کا اندازہ گزشتہ چار پانچ ماہ اوراس سے قبل ان کی حکومت کے زوال کے بعد ہونے والے واقعات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے مبصرین کا دعویٰ ہے کہ عمران خان ایک عوامی لیڈر ہیں اور مملکت خداداد کے غریب عوام میں اپنی سادگی، انکساری اور خداترسی کے لئے جانے جاتے ہیں۔
سال رواں میں مئی کے اوائل میں پاکستان میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد پھوٹ پڑنے والے فسادات اور تشدد کی وارداتوں میں کافی نقصان ہوا اور اس احتجاج کا سب سے بدترین پہلویہ تھا کہ مشتعل ہجوموں نے کاروباری اداروں، دکانوں اور گاڑیوںکو آگ لگانے کے علاوہ فوج کے اداروںاور تنصیبات پر بھی حملہ کرنا شروع کردیا۔ ظاہر ہے ’مظاہرین‘ کے ذہن میں کہیں نہ کہیں یہ بات ضرور ہوگی کہ 9؍مئی کی گرفتاری اور اس سے قبل اقتدار سے معزولی کے پس پشت فوج ہے۔ ان کارروائیوںکے بعد پاکستان بھر میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں اورتحریک انصاف پارٹی کے بڑے بڑے لیڈر جیلوںمیں بند کردیے گئے۔ ایک الزام یہ ہے کہ جیلوں میں ان کو فوج اور پولیس اذیتیں دے رہی ہے اور ان کو مجبورکیا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف چھوڑدیں۔ پاکستان کے کئی سینئر لیڈر اس کارروائی کی زد میں آئے اورکئی ویڈیو توایسے بھی دکھائی دیے کہ جن میں پاکستان تحریک انصاف کے سابق وزراء گرفتاریوں سے بھاگتے ہوئے نظرآئے، جن کو تعاقب کرکے پولیس نے دوبارہ پکڑ لیا۔ اس طرح کے مناظر انتہائی توہین آمیز اور حوصلوںکو توڑنے والے تھے۔ پورے پاکستان میں یہ پیغام گیا کہ تحریک انصاف کے لئے الیکشن لڑنا مشکل ہوجائے گا، خاص طورپر جب اعلیٰ ترین قیادت جیل میں بند ہو۔ وہیں پارٹی میں دوسرے نمبر کے لیڈر بھی بھاگ گئے یا پارٹی سے منحرف ہوگئے اور بعض تو خاموش ہوکر گھروںمیں بیٹھ گئے۔ 5اگست کو عمران خان کے خلاف جو کارروائی اور گرفتاری عمل میں آئی، اس پر کوئی خاص ردعمل نہیں دکھائی دیا، صرف سوشل میڈیا پر کچھ طبقات ان کے لئے مگرمچھ کے آنسو ٹپکاتے ہوئے دکھائی دیے، ورنہ اس وقت پورے پاکستان میں امن و امان ہے۔ جبکہ 9؍مئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف پارٹی کی ہر سطح کی قیادت یا تو سڑکوںپر تھی یا سوشل میڈیا پر ورغلا رہی تھی۔ مشہور توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت جیل میں ہے اور عمران خان کو بھی 3سال کی قید کی سزا دی گئی ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے ملنے والے تحائف کو فروخت کردیا، جبکہ کئی حلقوں میں یہ سوالات پوچھے گئے کہ فروختگی کا پیسہ کہاں گیا تو انہوں نے اس قسم کے دلائل دیے جن کو بآسانی غلط ثابت کردیا گیا۔ ایک اندازہ کے مطابق اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے 100 اعلیٰ لیڈر فوجی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ پاکستانی فوج نے 9؍مئی کو ہونے والے تشدد کا نشانہ اپنے ہی کوجانا، کیونکہ مختلف مقامات پر فوجی اداروں اورتنصیبات پر حملہ کیا گیا، جس میں پاکستانی فوج کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ظاہر ہے کہ فوج کے خلاف سیاسی مظاہروں اور اس قسم کے پرتشدد احتجاجوں نے پاکستانی فوج کو الرٹ کردیا ہے۔ اس کے ساتھ کئی حلقوں میں یہ بھی الزام لگ رہا ہے کہ پاکستانی فوج 9؍مئی کے پرتشدد واقعات کو بہانہ بناکر پاکستان تحریک انصاف کو برباد کردینا چاہتی ہے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں پاکستانی لیڈرشپ کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جس طریقے سے 5؍اگست کو ان کی گرفتاری پر کوئی خاص احتجاج نہیں ہوا اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستانی فوج نے پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کو اپنے خلاف مہم قرار دیا۔ کئی طبقات کا یہ ماننا ہے کہ پاکستانی فوج نے پی ٹی آئی کے تقریباً 100 بڑے لیڈروںکے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے۔ پاکستانی فوج کا نظام اسی طرح سول انتظامیہ سے بالکل جدا ہے جیسا کہ دیگر ممالک یعنی مصر اور ترکی میں ہوتا ہے۔ کورٹ مارشل کی عدالت میں سول نظام نہیں چلتا اور فوجی اپنے قوانین کے تحت کارروائی کرتے ہیں اور ملزموں کو ملک یا فوج کا باغی قرار دیتے ہیں اوراپنی منمانی کرتے ہیں۔ ایک الزام یہ بھی لگ رہا ہے کہ فوج عمران خان کو سبق سکھانے کے لئے ان کو سی کلاس کی سہولت دے رہی ہے۔ ان کے کمرے میں کھٹمل ہیں، مچھر ہیں اور وہ مشکلات سے دوچار ہیں۔
اب پاکستان تحریک انصاف کے پاس کوئی چارہ نہیں بچا ہے کہ وہ سیاسی جدوجہد کوترک کرکے قانونی دائوپیچ کے ذریعہ اپنی رہائی حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ بہرکیف پاکستان تحریک انصاف جوامیداورغریب پروری کا ایجنڈا لے کرآئی تھی وہ اپنی موت اپنے آپ مرتا دکھائی دے رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آئندہ چند ماہ میں پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں پاکستانی فوج کتنا رول ادا کرے گی یااس کا الیکشن میں کچھ رول نہیں رہے گا۔
٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS