دلیپ کمارنے لتا منگیشکر کو اردو پڑھنے کیلئے راغب کیا!

0

نئی دہلی، (پی ٹی آئی) سروں کی ملکہ لتا منگیشکر کے حوالے سے اکثر لوگوں کے من میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ ایک مراٹھی زبان بولنے والی گلوکارہ نے اردو سے نا آشنا ہونے کے باوجود اس زبان (اردو) میں اپنے تلفظ کو کیسے بہتر کیا؟ اس کا جواب 1947 میں ملتا ہے، جب لتا منگیشکر پہلی بار دلیپ کمار سے ملیں اور دلیپ کمار نے لتا منگیشکر کے اردو تلفظ کے سلسلے میں تحفظات کا اظہار کیا۔ اس کے بعد دلیپ کمار کے ایک تبصرہ نے انہیں (لتا منگیشکر کو) اردو سیکھنے کیلئے ایک مولانا سے پڑھنے کیلئے راغب کیا۔ لتا منگیشکر نے دلیپ کمار کی خود نوست سوانح عمری ’دی سبسٹینس اینڈ دی شیڈو‘ میں اردو کے ساتھ اپنے تجربوں کو یاد کیا اور کہا کہ کمار نے انہیں اپنی پہلی ملاقات میں ہی ’انجانے میں اور بغیر سوچے سمجھے‘ ایک تحفہ دیا تھا۔ معروف موسیقار انل بسواس نے ایک لوکل ٹرین میں لتا منگیشکر کو نامور اداکار سے ملوایا تھا۔ 1947 میں ہونے والی ملاقات کو یاد کرتے ہوئے لتا منگیشکر نے لکھا کہ بسواس نے انہیں کمار سے یہ کہتے ہوئے ملوایا کہ ’یہ لتا ہے، بہت ا چھی گاتی ہے۔‘ اس پر کمار نے جواب دیا کہ ’اچھا، کہاں کی ہے؟‘ اور بسواس نے ان کا پورا نام لتا منگیشکر بتایا۔ دلیپ کمار کا حقیقی نام یوسف خان تھا اور وہ دلیپ کمار کے نام سے مشہور تھے۔ لتا منگیشکر نے کتاب میں کہا کہ ’یوسف بھائی کا وہ تبصرہ، جب انہیں پتہ چلا کہ میں ایک مراٹھی ہوں، وہ کچھ ایسی ہے، جسے میں سنبھال کر رکھتی ہوں اور اس نے مجھے ہندی اور اردو زبانوں میں مہارت کی تلاش کے لیے راغب کیا،کیونکہ میں اس میں کمزور تھی۔ انہوں نے بے حد سچ کہا کہ جو گلوکار اردو زبان سے آگاہ نہیں تھے، وہ اردو کے الفاظ کے تلفظ میں ہمیشہ پھنس جاتے ہیں اور اس سے شائقین کا مزہ خراب ہو جاتا ہے۔‘ معروف گلوکارہ نے کہا تھا کہ اس سے شروعات میں تو انہیں افسوس ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ’تب میں نے تبصرہ پر غور کیا اور مجھے احساس ہوا کہ وہ صحیح تھے اور انہوں نے اسے میرے تلفظ میں بہتری کے ارادے سے کہا تھا۔‘ لتا منگیشکر نے کہا کہ وہ گھر گئیں اور ایک خاندانی دوست کو بلایااور فوراً اردو سیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور پھر ایک مولانا سے اردو سیکھنا شروع کیا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS