ڈاکٹر سیّد احمد قادری
اس سال رام نومی کے موقع پر رام کے نام پر نکالے گئے جلوس شوبھا یاترا نے بہار ، بنگال، مہاراشٹر اور گجرات میں منظم سازش کے تحت فرقہ وارانہ تشدد پھیلانے کی خوب کوششیں ہوئیں ۔ بہار میں کچھ زیادہ ہی رام کا نام لے کر تشدد اور نفرت کا بازار گرم رہا ۔ بہار کے 5اضلاع نالندہ ، روہتاس ،بھاگلپور ، گیا اور مونگیر کے پُر امن ماحول کا بگاڑنے کی منظم اور منصوبہ بند کوششیں ہوئیں لیکن بہار کے تاریخی شہر بہار شریف میں جس طرح حیوانیت کا مظاہرہ دن کی روشنی میں دیکھنے کو ملا اور جگہ جگہ مسلمانوں کو مشتعل کرنے والے نعرے اور گالیاں دی گئیں ، بجرنگ دل کے کنوینر کندن کمار اور دیگر نوجوانوں کے ہاتھوں میں مہابیری پرچم اور تلواریں و طمنچہ لہرائے جا رہے تھے ۔ یہ سب رام کے نام کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ انسانیت کو شرمندہ کرنے والا تھا ۔ رام نومی کا یہ جلوس جس وقت بے قابو ہوکر مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور تلواریں و طمنچہ کی نمائش کی جارہی تھی ، اسی وقت ،وقت رہتے ضلع و پولیس انتظامیہ اگر الرٹ ہو جاتا اور پولیس خاموش تماشائی نہیں بنی رہتی تو بہت ممکن تھا کہ جس ہمّت اور حوصلے کے ساتھ یہاں کی مسجد کے دروازے توڑے گئے ، اس کی بے حرمتی کی گئی، کلام پاک کو نذرآتش کیا گیا ، 1924 کا قائم کردہ سیکڑوں سال پرانے مدرسہ عزیزیہ اور اس کی لائبریری میں رکھی بہت قیمتی کتابوںومخطوطوںکو خاکستر کیا گیا ، چن چن کر مسلمانوں کی دکانیں جلائی گئیں ، بسوں کو جلایا گیا ، یہ سب نہ ہوتا ۔ بہار شریف شہر کے جس علاقے میں رام کے نام پر ظلم و بربریت کا ننگا ناچ ہوا۔ اس کے پاس ہی اس علاقے کے مسلم نوجوان روزہ رکھ کر رام نومی کے جلوس میں شامل لوگوں کو شربت پلانے کا اہتمام کئے ہوئے تھے اور بڑی محبت سے لوگوں کو شربت پلا کر گنگا جمنی تہذیب کا مظاہرہ کر رہے تھے ۔ اس کام میں پیس کمیٹی کے ممبر اور سماجی رکن اکبر حسین آزاد بھی روزہ کی حالت میں جلوس میں شامل نوجوانوں کی خدمت میں پیش پیش تھے ، لیکن جلوس میں شامل مشتعل نوجوانوں نے انھیں بھی نہیں بخشا اور بار بار ان سے ’بول شری رام ‘ کا اصرار کیا گیا ۔ انھوں نے اور پیس کمیٹی میں شامل رہے ہندو ممبران نے بھی مشتعل نوجوانوں کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن اس وقت تو یہ نوجوان جوش میں ہوش کھوئے ہوئے تھے ۔ ان نوجوانوں نے پیس کمیٹی کے اس خاص ممبر پر ہی ’جے شری رام‘ نھیں بولے جانے کی پاداش میں اپنی بے قابو تلوار سے جان لیوا حملہ کر دیا ، جس کے نتیجہ میں ان کا سر پھٹ گیا ، پیٹھ اور ٹانگوں میں گہرے زخم آئے اور وہ پوری رات خون میں لت پت زخموں سے چور تڑپتے رہے ، انتظامیہ سے مدد کی گوہار لگاتے رہے اور انتظامیہ صبح جاگا اور صبح آٹھ بجے ایمبولنس سے انھیں ہسپتال لے جایا گیا ۔
رام نومی کا یہ جلوس بہار میں ایک طوفان کی طرح آیا اور اپنے پیچھے کئی تباہی و بربادی کے زخم چھوڑ گیا ۔ یہ طوفان آیا اور گزر گیا ، لیکن کئی سوال چھوڑ گیا؟ مخدوم شرف الدین یحییٰ منیری کی نگری بہار شریف میں رام نومی کے نام پر ہونے والے اس دانستہ تشدد کوشش میں جس طرح مسلمانوں اور ا ان کے مذہبی و ثقافتی املاک پر حملے کئے گئے۔ اسے روکنے میں ضلع انتظامیہ یقینی طور پر ناکام ثابت ہو اہے۔ ایسے میں سوال اٹھانے والوں کو موجودہ حکومت پرسوال اٹھانے کا ایک موقع ضرور فراہم ہو گیا ہے ، مثلاًآل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسدالدین اویسی نے براہ راست وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو ذمّہ دار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نالندہ تو نتیش کمار کا آبائی ضلع ہے ،وہاں سو سال پرانے مدرسہ عزیزیہ کو جلا دیا گیا ،قران کریم کی بے حرمتی کی گئی ، مقدس اور نایاب مخطوطے اور کتابوں کو آگ کے حوالے کیا گیا، لیکن وزیر اعلیٰ متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے اور متاثرین کو انصاف دلانے کی کوششوں کی بجائے افطار پارٹی کرتے نظر آرہے ہیں ۔ اسدالدین اویسی نے یہ بھی کہا کہ ایک طرف بی جے پی مسلمانوں کو خوف میں رکھنا چاہتی ہے اور دوسری جانب سیکولر کہلانے والی پارٹیاں انھیں بی جے پی کا خوف دکھا کر ووٹ حاصل کرنا چاہتی یں۔ اسد الدین اویسی نے بہار کے نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو پر بھی اپنی خفگی کا اظہار کیا کہ انھوں نے فساد ہونے کے 48 گھنٹے بعد صرف ایک ٹوئٹ سے ہی کام چلانے کی کوشش کی جبکہ انھیں باضابطہ میڈیا کے سامنے آنا چاہئے تھا اور متاثرہ مقامات کا بذات خود معائنہ کرنا چاہئے تھا، جو نہیں کیا گیا۔اسد الدین اویسی کی ان باتوں کے جواب میں وزیر اعلیٰ بہار نتیش کمار نے لگائے گئے الزامات کا کوئی مدلل جواب تو نہیں دیا بس اتنا ضرور کہا کہ مرکز میں جو حکمراں ہیں وہ ان ہی کے ایجنٹ ہیں۔بہار حکومت کی حلیف پارٹی مالے کے جنرل سکریٹری کامریڈ دیپانکر بھٹاچاریہ نے بھی اس فساد کے سلسلے اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بہار شریف کو فساد کے لئے سوچ سمجھ کر منتخب کیا گیا ہے تاکہ ایک پوری پہچان کو مٹا دیا جائے ۔ یہ بات اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ بہار شریف میں رامنومی کے دن جو تشدد کے واقعات ہوئے ، اس کے ٹھیک دوسرے ہی دن وزیر اداخلہ امت شاہ بہار تشریف لائے اور نوادہ کی اپنی تقریر میں جوکچھ کہا وہ ضمیمہ کی طرح ہے ۔ امت شاہ نے بہار شریف کے واقعہ سے اپنی تقریر کو جوڑا اور کہا کہ 2024 میں یہاں کی 40 سیٹیں دے دیجئے اور 2025 کا انتخاب آئے تو بی جے پی کو مکمل اکثریت دے دیجئے ،ہم آپ کو بتا دینگے کہ فسادیوں کو کیسے الٹا لٹکا کر ٹھیک کیا جاتا ہے ۔ دیپانکر بھٹاچاریہ نے نیتش کمار کی حکومت کو ایسے فرقہ وارانہ واقعات کو سنجیدگی سے لینے پر زور دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ان واقعات کے پیچھے بی جے پی کی گہری سازش ہے ۔ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر بی جے پی نے پورے بہار میں فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی سیاست شروع کر دی ہے ۔
میں یہ بات واضح کر دوں کہ بہار شریف میں 1981 میں فرقہ وارانہ فساد کا یہی علاقہ محلّہ گگن دیوان ہی اہم مرکز رہا ہے ، اس فساد میں بہت سارے مسلمانوں کو منظم اور منصوبہ بند سازش کے ساتھ شہید کیا گیا تھا اور ان کے املاک خاکستر کئے گئے تھے۔ یہ اتنا بھیانک فساد تھا کہ وزیر اعظم وقت اندرا گاندھی کو یہاں کا دورہ کرنے پر مجبور ہونا پڑا تھا اور جب وہ واپس جانے لگی تھیں تو کچھ لوگوں نے وہاں کے صدر اسپتال میں سڑ رہی مسلمانوں کی لاشوں کو دکھانا چاہا ، وزیر اعلیٰ جگن ناتھ مشرا ایسا نہیں چاہتے تھے ، پھر بھی اندرا گاندھی اس جگہ اپنی ساری کے پلّوکو اپنی ناک پر رکھ کر پہنچیں اور پچاسوں لاشوں کو دیکھ کر رو پڑی تھیں ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ فرقہ وارانہ فساد کے تعلق سے بہار شریف بہت ہی حسّاس علاقہ رہا ہے ۔ اس لئے حکومت بہار اور ضلع انتظامیہ کو اس موقع پر بہت زیادہ چوکس رہنے کی ضرورت تھی ۔ جو نہیں رہا ، چند قدموں کے فاصلے پر لہیری تھانہ کے تھانہ انچارج ہوں یا اس علاقہ کی ڈی ایس پی ممتا کماری ، ان سبھوں نے لاپرواہی کا ثبوت دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جلوس میں جے چند یادو جیسے مقامی نوجوان کی شمولیت اور ساتھ میںبہار شریف کے مضافات سے بلائے گئے بجرنگ دل ودیگر شر پسندوں کو منظم سازش کے تحت بلایا گیا تھا، ان لوگوں نے ڈیجیٹل انڈیا جیسے ایک مسلم کے مآل کو پوری آزادی کے ساتھ لوٹا ، سیکڑوں سال پرانی مدرسہ عزیزیہ کی کتابوں کا جلا کر راکھ کر دیا گیا ، اسی روڈ پر انجمن مفید السلام کے نمائندے لہیری تھانہ سے دوسو میٹر کے فاصلے پر جلوس میں شامل نوجوانوں کو شربت پلا نے کی محبت کے جواب میں 5روزہ دار ذمہ داروں کو بھالوں اور تلواروں سے زخمی کیا گیا ۔ لیکن دو سو میٹر کی دوری پر واقع لہیری تھانہ کے انچارج اس غفلت سے جاگنے کا نہ جانے کس کے حکم کا انتظار کرتے رہے۔ مدرسہ عزیزیہ اور رائن ٹرانسپورٹ کی بسیں کئی گھنٹوں تک دھو دھو کر جلتی رہیں لیکن فائر بریگیڈ کی گاڑیاں نظر نہیں آئیں ۔اس پورے معاملے کی تفصیلی رپورٹ آل انڈیا ملّی کونسل اور جمعیت علمأ بہار کا ایک وفد مولانا انیس الرحمن قاسمی اور ڈاکٹر فیض احمد قادری کی قیادت میں متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے بعد حکومت بہار کے چیف سکریٹری عامر سبحانی سے ملاقات کر پیش کی ہے ۔ جس میں کئی مطالبات کے ساتھ ساتھ متاثرین کو معاوضہ دینے اور بہار شریف کے متاثرہ علاقہ لہیری کے تھانہ انچارج کی لا پروائی اور غفلت کی جانچ کئے جانے بھی مطالبہ ہے ۔ ریاست کے لوگ یہ امید کئے بیٹھے تھے کہ وزیر اعلیٰ سے بہار شریف فساد پر اتنے سوالات کئے جا رہے ہیں تو اس کے جواب میں وزیر اعلیٰ بہار، بہار شریف کی ڈی ایس پی اور ایس پی کو معطل نہیں تو کم از کم ان کا تبادلہ ضرور کر دیا جائے گا ، لیکن ایسانہیں کیا گیا ، جس کے باعث لاپروا افسران کے حوصلے ضرور بلند ہوںگے۔ بہار کی سیکولر پارٹی یعنی متحدہ محاذ کی حکومت میں رہنے والے وزرااور دیگر ایم ایل اے و ایم ایل سی وغیرہ کی خاموشی بھی بہت ہی افسوسناک ہے ۔ کوئی بھی کھل کر بولنے کی ہمّت نہیں کر رہا ہے کہ کہیں ان کے سیاسی آقا خفا نہ ہو جائیں۔ اس لئے کہ ان کی اپنی کوئی سیاسی زمین تو ہے نہیں، سب کچھ سیاسی آقاؤں کی مرہون منّت ہے۔ یہ بھی اطلاع ہے کہ اس فساد کے حوالے سے عوامی طور جو ایف آئی آر متعلقہ تھانے کو دیا جارہا ہے ، ان پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے بلکہ وہاں کے بی ڈی او اور سی او کے ذریعہ دئے جانے والے ایف آئی آر کو درج کیا جا رہا ہے۔ اس سانحہ میں مظلوم کو ہی مجرم بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ایک اچھی بات کل یہ ہوئی کہ مشہور قانون داں محمود پراچہ اس علاقے کا دورہ کرنے پہنچے ہیں۔ وہ ضرور قانونی نکتوں کو سمجھتے ہوئے ایف آئی آر کریں گے ۔
بہار شریف کے اس فساد نے بہت سارے لوگوں کو 1981 کے فساد کی یاد دلا کر دہلا دیا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ملک کے کئی علاقوں میں اس سال کے رامنومی کے موقع پر فساد کرنے اور کرانے کی کوششیںکی گئیں ، لیکن بہار شریف کے فساد کی بازگشت بہت دور تک سنی گئی ۔ یہاں تک کہ آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی ) بھی خاموش نہیں رہا۔اس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہندوستان کی کئی ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف تشدد ہوا ہے اور انتہا پسندوں کے ہجوم نے مدارس کے ساتھ ساتھ لائبریریوں کو بھی نذر آتش کیا ہے ۔ او آئی سی نے بطور خاص بہار شریف میں ہونے والے تشدد کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ اس ضمن میں بی بی سی، لندن نے اپنے ایک نشریہ میں کہا ہے کہ او آئی سی کے سکریٹری جنرل ان پر تشدد واقعات کی مذمت کرتے ہیں ۔ یہ پر تشدد واقعات بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کی واضح مثال ہے ۔ او آئی سی کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کو منظم طریقے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے ان کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے ایسے واقعے پر قدغن ضروری ہے۔ یہ پہلاموقع نہیں ہے جب او آئی سی نے ہندوستان کے مسلمانوں پر ہونے والے تشدد اور فرقہ واریت کے خلاف آواز اٹھائی ہو ، لیکن ہندوستان کی وزارت خارجہ ہمیشہ یہ کہہ کر اپنا پلّو جھاڑ لینے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بہار شریف کا یہ فرقہ وارانہ فساد دراصل نتیش کمار کی حکومت کے لئے لٹمس ٹیسٹ کے مترادف ہے اور بقول سابق ممبر پارلیمنٹ پپّو یادو نتیش کمار کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ 2024 کا انتخاب جیسے جیسے قریب آئے گا ، ویسے ویسے بی جے پی اور آر ایس ایس کی شکست کا خوف بڑھتا جائے گا اور ہندو ئوں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ فساد کراکر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے ۔
[email protected]