زین شمسی
مبارک باد کہ آپ کی جیت ہوئی، افسوس ہوا کہ آپ ہار گئے ۔آج کے الیکشن کے لیے میرے یہ دو جملے کافی ہیں، کیونکہ جب آپ کے ہاتھ میں اخبار ہوگا، آپ خوشی سے جھوم رہے ہوں گے یا پھر مغموم ہوں گے۔ خوشیاں آپ کے مقدر میں آئیں تو ٹھیک، لیکن اگر نہیں آئیں تو پھر اس کے لیے کچھ کہنا چاہوں گا۔میں نے جسے ووٹ دیا وہ امیدوار سب سے اچھا تھا اس لیے کہ ہم نے ان کی کارکردگیوں کو، ان کی کارروائیوں کو، ان کی حصولیابیوں کو ان کے نظریے کو، ان کے جذبہ کو اور ان کے عوام حامی ایجنڈے کو بہت قریب سے جانچا اور پرکھا ہے۔ وہ الیکشن صرف اس لیے نہیں جیت پائے کیونکہ آپ لوگوں نے انہیں ووٹ نہیں دیا، آپ کی سیاسی بصیرت معدوم اور محدود ہے۔ دوسرے لاتعداد ووٹرس بھی ایسی ہی گفتگو کرتے نظر آئیں گے۔ آج الیکشن کا نتیجہ شام تک آپ کے سامنے ہوگا، یا تو آپ خوشیاں منا رہے ہوں گے یا پھر کسی کونے میں مغموم بیٹھے ہوں گے یا کسی چوراہے پر جیت کا جشن منانے والوں کو کوس رہے ہوں گے۔ یہ اور ایسے ماحول کا نظارہ پری پول سے ایگزٹ پول تک اور نتائج آنے کے وقت تک الیکشن کے درمیان چلتا رہتا ہے اور اس کے بعد خاموشی چھاجاتی ہے کہ اب یہ موقع 5سال بعد ہی آنے والا ہے۔ اب کیا کرنا ہے۔ جو ہوا سو ہوا، اٹھ کے کپڑے بدل، گھر سے باہر نکل، جو ہوا سو ہوا۔
بات بالکل درست ہے کہ جو ہوا سو ہوا، مگر ایسا کیوں ہوا، ایسا کیوں ہوتا آیا ہے اور سب سے بڑی بات کہ آگے کیا ہونا ہے، ایسے سوالات پر اب تک بیداری کیوں نہیں آئی۔ ہر الیکشن میں دوسروں کو موردالزام ٹھہرا کر سکون حاصل کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج مسلم طبقہ سیاسی بے وقعتی کا شکار ہوچکا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اپنی پسندیدہ پارٹی کو جتانے کے بعد بھی اس کی خوشی زیادہ دن تک برقرار نہیں رہتی کہ وہ دیکھتا ہے کہ اس کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ’ الف ‘کے خلاف ’ب‘ کی طرف گیا مگر ’ب ‘بھی اس کے ساتھ الف والا برتائو کرنے لگا ہے۔ اس لیے اب آئندہ الیکشن میں وہ ’ج ‘کے ساتھ جائے گا۔ ایسا سوچ کر وہ پانچ سال تک خاموش ہوجاتا ہے۔ دوبارہ جب الیکشن آتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ اس بار ’ج‘،’ ب‘ کے ساتھ مل کر الف کو ہرانے کی حکمت عملی پر عمل کر رہا ہے۔اب نئے سرے سے حکمت عملی بنے گی اور نئے طریقے سے الیکشن میں امیدواروں اور پارٹیوں کا انتخاب کرناہوگا اور اس انتخاب کے درمیان پھر میڈیا اور سرکار کا پروپیگنڈہ ووٹرس کو کنفیوژ کرنے کا تیر بہ ہدف ثابت ہوگا۔رائے دہندگی کی تاریخ بتاتی ہے کہ بھارت میں انتخابی شعور کے سلسلے میں اقلیتوں کا شعور اس چھوٹے سے بچے جیسا ہے کہ جو اپنا کھلونا اپنی ماں تک کو نہیں دیتا اور کوئی زبردستی لے بھی لے تو اپنا کھلونا خود کے ہاتھوں توڑ ڈالتا ہے اور دن بھر روتا رہتا ہے۔ بھارت میں الیکشن کے دوران یہی ہوتا ہے کہ ووٹر اپنا مفاد دیکھتا ہے، وہ کبھی بھی اجتماعی مفاد پر غور نہیں کرتا اور جب رزلٹ آتا ہے تب اس کا اپنا مفاد پوری قوم پر بھاری پڑ جاتا ہے۔
جہاں تک رائے دہندگی کی بات ہے تو یہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہندوستان کی تمام قومیں جس سوچ و فکر کے ساتھ ووٹ کرتی ہیں مسلمان اس نہج پر کبھی ووٹ نہیں کرتے۔ کہنے کو تو کہا جاتا ہے کہ مسلم ووٹ یکطرفہ ہو تا ہے لیکن مسلمانوں کا ووٹ کبھی بھی یکطرفہ نہیں رہا ہے۔ مسلمانوں نے تمام پارٹیوں کو ووٹ کیا ہے، ہر الیکشن میں جتنی بھی پارٹیاں ہوتی ہیں اس میں کچھ نہ کچھ فیصد مسلمان اپنی حصہ داری ضرور نبھاتا ہے۔شاید یہ بھی ایک پروپیگنڈہ ہو تاہے کہ دوسری کمیونٹی بھی متحد ہو کر کسی ایک پارٹی کو ووٹ کرے۔ ابھی جو حالات ہیں، اس میں سیاست بہت آسان ہوگئی ہے،یہاں پر الیکشن کے نتیجے اور الیکشن کے تمام مرحلے دونوں سرکار اور میڈیا طے کرتے ہیں اور ہندوستانی میڈیا کو بھارت ہی نہیں بلکہ پوری دنیا سرکار حامی جانتی اور مانتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حکومت سے زیادہ میڈیا الیکشن لڑتا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ اپنے گمراہ کن پروپیگنڈے کی بدولت وہ سماج کے بیدار طبقے تک کو متاثر کردیتا ہے تو مسلمان اور ناخواندہ طبقہ کی اوقات ہی کیا۔ اس کھیل میں جو پڑھے لکھے نہیں ہیں سمجھدار نہیں ہیں، اندھی تقلید میں لگے ہوئے ہیں وہ لوگ اس کا شکار آسانی سے ہوجاتے ہیں۔ سرکار اور میڈیا یہ دونوں اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہندوستان میں ایجوکیشن کا لیول کیا ہے اور بیداری کا لیول کیسا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس پروپیگنڈہ کو توڑنے کے لیے مسلمانوں کے پاس کیا لائحہ عمل ہے کیونکہ مسلمان کے پاس نہ تو کوئی میڈیا ہے اور نہ ہی سیاسی بیداری پر مبنی کوئی تنظیم۔ اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ مسلمان صرف الیکشن میں کسی مخصوص پارٹی کو ہرانے کے لیے اترتے ہیں اور ہرانے کی یہ حکمت عملی اتنی غلط ثابت ہو رہی ہے کہ جسے ہرانے کا عزم لیا جاتا ہے وہی ان کے سر پر مسلط ہوجاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ مسلمان پارٹی کو نہ دیکھ کر لیڈر کے پروفائل کو دیکھے کہ اس کی سیاسی زندگی کتنی غیر جانبدارانہ رہی ہے۔ وہ مسلمانوں کے تئیں کتنا ایماندار رہا ہے، کیونکہ حکومت کسی کی بنے الف کی، ب کی یا ج کی وہ م سے دور ہی رہے گی، لیکن کم سے کم ان کے لیڈران مسلمانوں کے خلاف بولتے ہوئے کچھ تو مریادا رکھیں گے۔
میں اکثر کہتا ہوں کہ اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے لیے حق رائے دہی ہی ان کے تحفظ اور ان کے فروغ کے لیے ضروری ہے۔ یہی ایک ایسا ہتھیار ہے، جسے خاموشی کے ساتھ استعمال کرکے آپ اپنی وقعت بنا سکتے ہیں۔ آپ کو طاقتور یہی الیکشن بنا سکتا ہے، باقی جتنی چیزیں ہیں وہ اسی پر منحصر کرتی ہیں۔ اسی لیے الیکشن کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ الیکشن میں جیت بھی ہوتی ہے اور ہار بھی، لیکن جیت کو ٹیکن فار گرانٹیڈ نہیں لینا چاہیے اور ہار سے سیکھنا ضروری ہے۔ تعجب ہے کہ بھارت میں کوئی بھی پارٹی جیتتی ہے مگر ہار مسلمانوں کی ہی ہوتی ہے۔ اس لیے خود کو جتایئے خواہ تمام پارٹیاں کیوں نہ ہار جائیں۔ ایک اور بات یاد رکھنا چاہیے کہ اقلیتوں کے لیے قومی پارٹیاں ہی معاون و مددگار ہوتی ہیں، علاقائی پارٹیاں محض اقلیتوں کااستعمال کرتی ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]