کھانے پینے کی اشیا میں شامل اجزاکا انکشاف قانوناً لازمی

0

خواجہ عبدالمنتقم

رام گئو رکشا دل نے گزشتہ سال دہلی ہائی کورٹ کے روبرو ایک رٹ پٹیشن میںعدالت سے یہ استدعا کی تھی کہ ایسا تاکیدی حکم صادر کیا جائے کہ تمام کاروباری فروخت کی جانے والی اشیا پر یہ لیبل لگائیں کہ وہvegetarian ہیں یا non-vegetarian۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت سی نان ویج اشیا پر ویج لکھ دیا جاتا ہے جبکہ ان میں مانساہاری اجزا شامل ہوتے ہیں۔انہوں نے مثال دے کر عدالت کو یہ بھی باور کرایا کہ یکدم تیار کیے جانے والے نوڈلس، آلو کے چپس اور دیگر اسنیکس کی تیاری میں گوشت اور مچھلی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ہائی کورٹ نے ان کی اس دلیل کا احترام کرتے ہوئے یہ حکم صادر کردیا کہ کسی بھی پروڈکٹ میں،خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، مانساہاری اجزا ہونے کے باوجود اس پر vegetarian ہونے کا لیبل لگانا سبزی خور افراد کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے زمرے میں آتا ہے اور اس سے آئین کی دفعہ25میں جو مذہبی آزادی عطا کی گئی ہے اور دفعہ 21 ،جو جان(نفس) اور شخصی آزادی کے تحفظ سے متعلق ہے، کو زک پہنچتی ہے۔عدالت نے اس معاملے میں اپنی اس رائے کا بھی اظہار کیا کہ صارف کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ وہ کیا کھا رہا ہے اوراس کی نوعیت کو پوشیدہ رکھ کے اسے دھوکا دے کر کوئی بھی چیز اسے کھانے کے لیے پیش نہیں کی جاسکتی۔
عدالت نے(FSSAI)Food Safety and Standards Authority of India کے وکیل کو یہ ہدایت دی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیںکہ کسی بھی کھانے والی چیز کی تیاری میں جن اجزا یعنی جن چیزوں کا استعمال ہوا ہے، ان کااس پروڈکٹ پرواضح طور پر ،نہ کہ کسی کوڈ کی شکل میں،یہ انکشاف کیا جانا چاہیے کہ اس میں جن چیزوں کا استعمال کیا گیا ہے وہ بنیادی طور پر کسی پودے سے حاصل کی گئی ہیں یا کسی جانور(animal source ) سے، خواہ وہ کسی لیباریٹری میں ہی کیوں نہ تیار کی گئی ہوںاور ان کی مقدار کچھ بھی ہو۔ہائی کورٹ نے اس معاملہ میں فریق متعلق کے متذکرہ بالا حکم کی مزیدوضاحت کی درخواست پر چند دن قبل یہ حکم صادر کیا ہے کہ FSSAIتمام متعلقہ حکام کو اس بات کی اطلاع دے کہ تمام کھانے والی چیزوں پر یہ واضح انکشاف لازمی ہے کہ وہ vegetarian ہیں یا non-vegetarian۔ اسی طرح اگر مسلمانان ہند کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے عدلیہ suo moto یعنی خود یاکسی فلاحی ادارے کے رجوع کرنے پر اس طرح کی تمام پروڈکٹس پر حلال لکھنے کے بارے میں بھی تاکیدی احکامات صادر کردے تو یہ اس کا اصول نصفت اور حق مساوات کے تئیں بھی مکمل انصاف ہوگا۔
ہمارا ملک مذہبی اعتبار سے ایک حساس ملک ہے اور حکومت ہند نے بھی اپنی شائع کردہ Year Bookمیں اس بات کو تسلیم کیا ہے۔ اس لیے ہمارے ملک میں کبھی ڈریس کوڈ تو کبھی رنگ اور کبھی غذائی اشیا کے بارے میں سوال اٹھتے رہتے ہیں اور بات عدالتوں تک پہنچ جاتی ہے۔ ہم میں سے بیشتر لوگ وہی کھاتے پیتے ہیںجس کی ہمیں اپنے اپنے مذہب میں اجازت دی گئی ہے یا کھانے پینے کا رواج ہے۔ہمارے ملک میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ کثیر تعداد میں سبزی خور اور گوشت خور دونوں ہی ہیں مگر وہ ایک دوسرے کے مذہب کا مکمل احترام کرتے ہیں۔ویج فوڈاور نان ویج فوڈ کی تو بات ہی کیا اب تومغربی preparations جیسے پیزا،نوڈلس، نے پورے ملک کی تہذیب طعام کوہی بدل ڈالا ہے۔
ہمارا آئین بھی بھارت کے عوام کے الگ الگ رنگ اور روپ کو تسلیم کرتا ہے اور اپنی ثقافتی پہچان کو برقرار رکھنے کی ضمانت دیتا ہے۔کون کیا کھائے گا یا کیا پہنے گا؟یہ ایک نجی معاملہ ہے مگرکبھی کبھی غذا کی مناسب درجہ بندی کے بجا ئے اسے اس طرح تقسیم کردیا جاتا ہے جیسے کہ1947میں ہندوستان کو مذہبی بنیادپرتقسیم کردیا گیا تھا جب کہ گوشت یا سبزی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ ہی ان دونوں کو کسی فرقے، طبقے یا سماج کے کسی بھی زمرے سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی سبزی خور و گوشت خور ہمارے سماج کا حصہ ہیں اور ہمیشہ رہے ہیں۔ وہ آئین کی روسے اپنی پسندیدہ غذا کا انتخاب کرسکتے ہیںلیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ جاننے کا آئینی حق ضرورہے کہ جو چیز وہ کھا ر ہے ہیں اس میں کون کون سے اجزا شامل ہیں اور ان کی نوعیت کیا ہے یعنی وہvegetarian ہیں یا non-vegetarian۔ ہرشخص کو غذا کے معاملے میں مکمل آزادی عطا کی گئی ہے اور حکومت کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو حسب دلخواہ غذائی اشیا دستیاب کرائے۔اسی طرح بین الاقوامی منشور برائے معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق، 1966کی دفعہ 11 میں بھی دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بات کہی گئی ہے کہ اس منشور کی فریقین مملکتیں ہر شخص کے اس حق کو تسلیم کرتی ہیں کہ اسے اور اس کے خاندان کو اچھا کھانادستیاب ہو اور فریقین مملکتیں اس حق کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے مناسب اقدام کریں گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اچھی غذا کس غذا کو کہیںگے۔UN Special Rapporteur کے مطابق صارفین کا یہ حق ہے کہ وہ تمام اشیا جو روایتاً ان کی غذا کا حصہ ہیں وہ معقول مقدار میں اور معیاری کوالٹی کے ساتھ انہیںبلاخوف ہمہ وقت دستیاب ہونی چاہئیں اور جو غذائی اشیا انہیں دستیاب کرائی جا رہی ہیں، ان میں ان کے عقیدہ کے مطابق کوئی قابل اعتراض شے شامل نہیں ہونی چاہیے۔بہ الفاظ دیگر کھانے کی نوعیت ایسی ہونی چاہیے جسے کھانے والا اپنے مذہب و عقیدے کے مطابق جائز سمجھے۔ ان میں مختلف مذاہب کے پیرو اور مختلف عقیدے والے لوگ شامل ہیں جیسے ہندو، مسلمان، سکھ ،عیسائی ، بودھ، یہودی وغیرہ۔ ان میں سے کسی کو کچھ چیزیں کھانے کی اجازت ہے تو کچھ کی ممانعت، جیسے گوشت خور اگر مسلمان ہیں تو وہ حلال گوشت کھاتے ہیں جبکہ خنزیر ان کے لیے حرام ہے۔اسی طرح بہت سے ہندو صاحبان non-veg فوڈ نہیں کھاتے۔ یہودی گوشت کھاتے ہیں مگر صرف کوشر یا مسلمانوں کے ذریعہ ذبح کیے گئے جانور کا حلال گوشت۔ اسی طرح کچھ ایسے سکھ جنہوں نے امرت چکھ رکھا ہے، وہ گوشت نہیں کھاتے۔
دریں صور ت صارفین کو یہ حق ہے کہ وہ جو اشیا استعمال کر رہے ہیں انہیں ان کی بابت پوری جانکاری ہو۔ جیسا کہ اوپر قلمبند کیا گیا،پروڈکٹ فروخت کنندگان اور Regulatory Authorities کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ صارفین کو پروڈکٹ کی مکمل معلومات فراہم کی جا ئیں۔تحفظ صارفین قانون کے تحت کسی پروڈکٹ کے تعلق سے ’پروڈکٹ فروخت کنندہ‘ سے مراد ہے وہ شخص جو دوران تجارت ایسے پروڈکٹ کو درآمد کرتا ہے،فروخت کرتا ہے،تقسیم کرتا ہے،پٹہ پر دیتا ہے، کہیں لگاتا ہے،تیار کرتا ہے،پیک کرتا ہے،لیبل لگاتا ہے، مارکٹنگ کرتا ہے،مرمت کرتا ہے، اس کا رکھ رکھاؤ کرتا ہے یا دیگر طور پر ایسے پروڈکٹ کو کسی تجارتی غرض کے لیے رکھے جانے کے عمل میں ملوث ہوتا ہے یا/اور اس میںایسا مینوفیکچرر بھی شامل ہے جو پروڈکٹ فرو خت بھی کرتا ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS