پچھلے دنوں ویلادیمیرپوتن کے سابق معتمد یوگنی پریگوزن کی موت نے نہ صرف افریقہ بلکہ ان تمام ممالک میں جہاں جہاں پر روس کے مفادات ہیں ، روس کی پالیسیوں پر عمل آوری کے امکان کو شک وشبہ میں لا کھڑا کیا ہے۔ پریگوزن ویگنر گروپ کے سربراہ تھے۔ ویگنرگروپ ایک ایسی دفاعی کمپنی تھی جوکہ دنیا بھر میں روس کے تجارتی اور دفاعی مفادات کو فروغ دے رہی تھی۔ یوکرین جنگ چھڑنے کے بعد اگرچہ ویگنر گروپ کی سرگرمیوںمیں توسیع ہوئی تھی، مگر اس میں دورائے نہیں کہ یوکرین جنگ کے چھڑنے کے بعد افریقہ میں جہاں جہاں ویگنرگروپ سرگرم تھا وہاں اس کو اپنی سرگرمیاں تھوڑی مدت کے لئے ہی سہی موقوف یا کم کرنی پڑی تھیں۔ یہی نہیں بلکہ مغربی ایشیا کے اہم ممالک جہاں پر ویگنر گروپ سرگرم ہے ان ممالک میں بھی ان فریقوںکو دفاعی پوزیشن میں آتے ہوئے محسوس کیا گیا ہے، جوکہ بہت زیادہ ڈھٹائی کے ساتھ اپنے ناپاک عزائم کو آگے بڑھا رہے تھے۔ بہرکیف جون میں روس کے اندر ویگنرگروپ کے ذریعہ موجودہ حکمراں ویلادیمیرپوتن کے خلاف بغاوت نے پوری دنیا کو ششدر کر دیاتھا۔ کچھ ممالک اس صورت حال سے خوش تھے توکچھ افسردہ۔ مغربی ممالک کو لگا کہ اگر پریگوزن کی بغاوت مو ثر ثابت ہوئی تو وہ تمام خطے اورممالک جہاں جہاں روس اپنی ٹانگ اڑائے ہوئے ہے، وہاں مغربی ممالک کو کامیابی مل سکتی ہے۔ اس میں سب سے گرم محاذ یوکرین کا تھا، جس نے یوروپ کے سیاسی نقشے کو بدل کر رکھ دیا۔ یوکرین جنگ میں جہاں ایک طرف روس کی فوجی بالادستی کو ثابت کردیا تو وہیں بالکل اپنے آنگن میں یعنی ایک ایسے ملک یوکرین میں جس کے گردوپیش ناٹو کی افواج تعینات تھیں اور ناٹو کے جنگی بیڑے گشت لگاتے رہتے تھے۔ روس کی پیش قدمی سے سب کے حواس باختہ ہوگئے۔ اگرچہ یوکرین کی جنگ توقع سے زیادہ مدت تک کھنچ گئی ہے تواس کے پیچھے امریکہ اور اس کے حواریوں کے جنگی عزائم ہیں، مگر یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ روس کی بالادستی اور فوجی حکمت عملی نے ناٹو کے 31ممالک کی متحدہ فوج کو انگشت بدنداں کردیا ہے۔ روس تن تنہا جبکہ یوکرین کو بیلاروس، ہنگری اور ایران وغیرہ سے فوجی اور اخلاقی مددتو مل رہی ہے، مگر اس معرکہ میں روس اکیلے ہی میدان کارزار میں ڈٹا ہوا ہے۔
افریقہ کے کئی ممالک میں اس وقت فوجی بغاوتوں کے بعد قائم ہونے والی حکومتیں ہیں۔ ان میں سب سے تازہ ترین مثال نائیجر کی ہے، جہاں پچھلے دنوں فوجی ٹولے نے منتخب سرکار کے صدرمحمدباروم کو معز ول کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اس سے پہلے کئی ممالک میں یہی صورت حال رہی ہے۔ نائیجر کے پڑوسی ملک برکینیافاسو اور مالے میں وہ فوجی حکمراں اقتدارمیں ہیں، جنہوں نے مغرب کے منظورنظر حکمرانوںکا تختہ پلٹ کرکے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ ان تینوں ممالک میں ویگنرگروپ کے دفاعی ماہرین، فوجی اور اسلحہ موجود ہیں۔ کئی ممالک میں تو فرانس کے خلاف پرائیویٹ فوجیں بھی کام کر رہی ہیں، جن کو کئی حلقوں میں مذہبی دہشت پسند کہا جاتا ہے۔ یہ بھاڑے کے ٹٹو فوجی فرانس اور غیرمقامی حواریوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ ان ممالک کی فوجی حکومتیں ان دہشت پسندوںاور مسلح گروپوں سے خدمات حاصل کررہی ہیں۔ ویگنرگروپ جدیدترین اسلحہ، ٹیکنالوجی اور مضبوط قوت ارادی والے فوجیوںکے ساتھ ان تمام عناصر کی مدد کر رہا ہے جو فرانس اور مغربی ممالک کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ ان تینوں ممالک کے علاوہ سینٹرل افریقہ کے کئی ممالک میں ویگنر گروپ سرگرم ہے۔ اس میں ایتھوپیا اور کسی حد تک سوڈان اور کافی حد تک لیبیا اور الجیریا شامل ہیں۔ لیبیا میں ویگنر گروپ اور روس کی فوج کے جنگی بیڑے گردونواح کے تمام ممالک پر اپنی نگرانی رکھے ہوئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ممالک میں ویگنر گروپ کے سربراہ پریگوزن کی موت کا کیا اثرپڑے گا۔ روس نے پہلے ہی باور کرادیا ہے کہ افریقی ممالک میں اس کی سرگرمیاں حسب سابق برقرار رہیںگی۔ سینٹرل افریکن ریپبلک (سی اے آر) کے صدر فاسٹنگ آرچیننگ تودیرانے پریگوزن کی موت پر اظہارافسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے ملک کے روابط پہلے ہی کی طرح ماسکو کے ساتھ برقرار رہیںگے۔ پریگوزن ایک سرگرم فوجی، ایک تاجر کے طریقے سے کام کرتے رہے ہیں۔ وہ کسی ایک جگہ رہ کر اپنے گروپ کو نہیں چلا رہے تھے۔ وہ اپنے فوجی مفادات کو تمام ان ممالک میں جاکر ازخود دیکھتے تھے، جہاں ان کے فوجی اڈے اور مفادات کام کر رہے تھے۔ پچھلے دنوں وہ مالے میں تھے اور مالے سے نکلتے وقت ان کا وہ تاریخی ویڈیو سامنے آیا تھا، جس میں انہوں نے اپنے عزائم کا ذکرکیا تھا۔ اس ویڈیو کو شوٹ کرنے کے بعد ہی وہ اس طیارے میں سوار ہوئے تھے جو روس کے اندر حادثے کا شکار ہوا تھا۔ اس حادثے میںپریگوزن اوران کے 9معتمد فوجی ماہرین یا کمانڈروں کی موت ہوئی تھی۔ اس ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد کئی حلقوں میں چہ می گوئیاں شروع ہوگئی تھیں، کیونکہ پریگوزن روس میں رہتے ہوئے روس کی بڑی فوج کی موجودگی میں اگر بغاوت کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں تو یہ اپنے آپ میں ایک غیرمعمولی قدم تھا۔ روس کے صدر پوتن نے اس بغاوت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے دوستوں نے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ جس طریقے ویلادیمیرپوتن کا م کرتے رہے ہیں اس سے مغربی ممالک اچھی طرح واقف ہیں۔ کئی حلقوں میں بغاوت کے فوراً بعد ویلادیمیرپوتن کے رویے میں نرمی کو بھانپ کر اندازہ لگالیا گیا تھا کہ پوتن جیسا خودپسند اپنے معتمد پریگوزن کے ذریعہ بغاوت پر خاموش کیوں ہوگیا؟ اس نے اس پر رددعمل ظاہر کیوں نہیں کیا۔ کئی ماہرین کا خیال تھا کہ اس بغاوت کے بعد ویگنرگروپ کے خلاف روس کی ریگولر آرمی کارروائی کرے گی اور تمام باغیوںکو گرفتار یا موت کے گھاٹ اتاردے گی، مگر پوتن نے چالاک لومڑی کی طرح اس وقت تو بغاوت کرنے والوں کو اعلانیہ معافی دے دی تھی، مگر بعدمیں انہوں نے جوکرنا تھا کرلیا۔یہ عام تاثر ہے ،اگرچہ اس حادثے جس میں پریگوزن مارے گئے تھے، کی انکوائری رپورٹ سامنے نہیں آئی ہے،مگر جس طریقے سے ویلادیمیرپوتن نے پریگوزن کی آخری رسومات میں شرکت نہ کرنے پر اپنی مصروفیت کا بہانہ کیا تھا اس سے اس تاثرکو قوت ملتی ہے، کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشیں رہے کہ دنیا بھر میں ویگنرگروپ کو بلیک لسٹ کردیا گیا تھا، اس کے خلاف اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں۔ ویگنر بالکل ہی ایک الگ شناخت کے ساتھ روس کے عزائم اور منصوبوںپر عمل کر رہا تھا، مگر پوتن نے جون کی بغاوت کے بعد بالکل واضح کردیا تھا کہ ویگنرگروپ کے تمام اخراجات روس کی حکومت مہیا کرا رہی تھی اور ویگنر کوئی علیحدہ ادارہ یا فوج نہیں تھی۔ بعد کے حالات میں بھی یہ بات دھیرے دھیرے سامنے آتی جارہی ہے کہ اگرچہ ایک سرگرم تاجر یا سی ای او کی طرح ویگنرگروپ کے سربراہ کام کر رہے تھے، مگر وہ تمام انہی پالیسیوں پر عمل کر رہے تھے جو روس کے مفادات اور پالیسیوں کو آگے بڑھانے والے تھے۔ پریگوزن کی موت کے بعد اس بات کا امکان نہیں ہے کہ روس ان تمام ملکوں سے ویگنرگروپ کے لڑاکوئوںکو واپس بلا لے گا یا ان کو مدد پہنچانا بند کردے گا۔ یہی بات سینٹرل افریکن ریپبلک کے صدر فاسٹنگ آرچینگ تودیرا نے اپنے بیان میں کہہ دی ہے۔ ٭٭
پریگوزن کی موت کے بعد ویگنر گروپ کا کیا ہوگا ؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS