کونسل آف انڈین اسکول سرٹیفکیٹ امتحانات کے آئی سی ایس ای (10ویںکلاس) اورآئی ایس سی (12ویں کلاس) کے نتائج آگئے، بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن راجستھان نے بھی 12ویں جماعت کے نتائج کا اعلان کردیا ۔99فیصد سے زیادہ طلباوطالبات کامیاب رہے۔ مغربی بنگال میں 12ویں بورڈ کے امتحانات میں بھی کامیابی کا تناسب 97 فیصد سے زیادہ رہا۔ دیگر ریاستی بورڈوں کے نتائج بھی تقریباً ایسے ہی رہے۔ اب طلباوطالبات بے صبری سے سی بی ایس ای کے نتائج کا انتظار کررہے ہیں ۔ وہ بھی اگلے کچھ دنوں میں آجائیں گے۔ اس کے علاوہ جن ریاستی بورڈوں کے نتائج ابھی تک نہیں آئے ہیں، وہ بھی اسی ماہ کے آخر یا اگلے ماہ کے اوائل میں آجائیں گے۔ غرضیکہ تمام بورڈوں کے نتائج اچھے ہی نہیں بہت اچھے آرہے ہیں، سب کامیاب ہورہے ہیں، لیکن کیاحقیقت میں نتائج کی طرح اسکولوں میں پڑھائی ہوئی تھی یا بچوں کی تیاری اس جیسی تھی؟ اس سوال کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں ہوگا ۔سی بی ایس ای سمیت بہت سارے بورڈوں کے امتحانات ہی نہیں ہوئے تھے ، ایسے میں تمام بچوں کا پاس ہونا فطری تھا۔آخر فیل کس بنیادپر کرتے ؟نتائج اگر تعلیم ، تیاری اور امتحانات کی بنیاد پر آتے تو کچھ اور ہوتے۔ میرٹ لسٹ بھی جاری ہوتی جو امسال سی آئی ایس ای نے جاری نہیں کی ۔ظاہر سی بات ہے کہ اس کا اثر آگے بچوںکے کریئراورداخلہ پر پڑے گا۔ اسکولوں کو گیارہویںمیں سائنس ، کامرس اورآرٹس اسٹریم کیلئے بچوں کے انتخاب میں دشواری ہوگی۔ گریجویشن میں اچھے کورسیز میں داخلے کیلئے مارا ماری ہوگی۔اگرصحیح طریقے سے نتائج آتے اورمیرٹ لسٹ بنتی توداخلے میں آسانی ہوتی ۔ جہاں 11ویں میں ہر بچہ سائنس لینا چاہے گا وہیں گریجویشن میں بھی یہی صورت حال ہوگی۔سب کے نتائج اچھے ہیں تو سب داخلے کے اہل ہوں گے۔ان میں فرق کرنا مشکل ہوگا۔
کووڈ 19-کی وجہ سے پچھلے سال نہ تعلیم متاثر ہوئی تھی اورنہ امتحانات۔بیشتر اسکولوں میں امتحانات ہوگئے تھے، کچھ میں کچھ پیپر رہ گئے تھے ۔ بورڈ کے امتحانات بھی ہوئے تھے۔ 10ویں کے نیچے کے بچوں کو پاس کردیا گیا تھا۔امسال زیادہ تر بورڈ کے امتحانات نہیں ہوئے اوراس سے نیچے کے امتحانات کی آن لائن رسم اداکی گئی۔غرضیکہ 2سال سے بچوں کی نہ تو ٹھیک سے پڑھائی ہورہی ہے اور نہ امتحانات۔فزیکل تعلیم کی بات ہی کچھ اورہوتی ہے۔ جو نہ ہونے سے بچوں کی کامیابی اوراگلی کلاس میں پروموشن کا خیال رکھا جارہا ہے۔ تاہم امتحانات اور نتائج کا جو فارمیٹ یا پیمانہ بنایاگیا ہے ،اس میں نقصان اچھے اور محنتی طلبا کو ہورہا ہے ۔جن کو کلاس میں وہ مقام اورپوزیشن نہیں مل رہی ہے جس کے لئے وہ محنت کرتے ہیں ۔
کورونا کے دورمیں تعلیم، اساتذہ وطلبااورتعلیمی اداروںکا جتنا نقصان ہوا، اس کا تخمینہ کسی بھی پیمانے پر نہیں لگایا جاسکتا۔ کتنے اساتذہ اورطلباوطالبات اس دنیا سے چلے گئے۔آمدنی بند ہونے سے کتنے اسکول بند ہوگئے۔بچوں کا جتنا وقت تعلیم میں لگنا چاہئے، آن لائن تعلیم میں نہیں لگ رہا ہے ۔سی بی ایس ای نے پچھلے تعلیمی سیشن کا نصاب کم کردیا تھا۔نصاب میں جو کٹوتی ہوئی، اتنا تعلیمی نقصان بچوں کو ہوا ،جس کا خمیازہ انہیں اوپر کی کلاسوں میں بھگتنا پڑے گا ۔نہ تو آن لائن تعلیم فزیکل کی جگہ لے سکتی ہے اورنہ نصاب میں کٹوٹی مکمل نصاب کی، اسی طرح امتحانات میں سب کو کامیاب کردینے سے بچوں کاسال برباد ہونے سے بچایا تو جاسکتاہے لیکن کریئرنہیں۔ کیونکہ جب تعلیم کی بنیاد کمزور رہے گی تو اس کمزور بنیاد پر بچوں کے کریئر کی پوری عمارت کیسے کھڑی ہوسکتی ہے ؟بہرحال کورونا کے دور میں تعلیم وتدریس کے مسائل کا فوری حل تلاش کرکے ہم آگے تو بڑھ رہے ہیں لیکن اس نقصان کے بارے میں کوئی نہیں سوچ رہا ہے جو نئی نسل کو مستقبل میں ہونے والا ہے۔ یہ یقینا ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔
[email protected]
نئی نسل کے کریئر کا کیا ہوگا؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS