آج 26 مئی 2023 کو وزیراعظم نریندر مودی نے اقتدار میں 9 برس مکمل کرلیے ہیں۔2014میں آج ہی کے دن جمہوریت کی عظمت کے سامنے سرنگوں ہوئے اورباقاعدہ پارلیمنٹ کی سیڑھیوں پر اپنی ’ جبین نیاز‘رگڑتے ہوئے وہ سماں باندھا تھا کہ پوری دنیا ان کی گرویدہ ہوگئی تھی۔ چہار جانب سے ان پر ستائش کے ڈونگرے برسائے گئے۔ ایک ’غریب چائے والے‘کو وزیراعظم منتخب کرنے پر ہندوستان جنت نشان کی جمہوریت کو عالمی برادری نے سند افتخار و اعزاز بھی بخشا تھا۔لیکن ان 9برسوں کے دوران ہندوستان میں تبدیلی کی ایسی لہر چلی کہ اس میں اظہاررائے کی آزادی ، مذہبی یکجہتی، تحمل و برداشت، ہم آہنگی اور رواداری کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے پائوں بھی اکھڑنے لگے۔ آئینی اداروں کو موم کی ناک بنالیا گیا۔ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں گھر کی باندی بن کر اشاروں پر ناچنے لگیں۔ الیکشن کمیشن تک کو چشم و ابروکا محتاج بنادیاگیا۔مقننہ اور منتظمہ پر قبضہ سے غیر مطمئن حکومت عدلیہ خاص کر ماتحت عدالتوں پر زنجیر ڈالنے میں کامیاب رہی اور من چاہے فیصلے ہونے لگے۔ عوام کی ناآسودہ خواہشوں، آرزوئوں اور امنگوں پر مذہب کا پردہ ڈال دیا گیا۔ ملک کے سیکڑوں غریب نوٹ بندی جیسے سفاک فیصلہ کی بھینٹ چڑھا دیے گئے تو چھوٹے تاجروں، کاروباریوں اور دکانداروں کے آشیانہ کو جی ایس ٹی نام کی ہیبت ناک بجلی رزق خاک بناگئی۔بے روزگاری، مہنگائی ، بھوک ، افلاس، بیماری اور جہالت کے طوفان بلاخیز کو ’بادبہاری‘ کا خوشگوارجھونکا بتاکر ’عوام کالانعام‘کی تعبیر پر مہر تصدیق بھی ثبت کی گئی۔معیشت سے معاشرت تک ایسی تبدیلی آئی کہ ہندوستان کا چہرہ ہی بدل گیا۔ انصاف کی فوری فراہمی کے نام پر عدلیہ کے اختیارات بھی حکمرانوں نے اپنے قبضہ میں لے لیے۔جبرو ظلم اور عوام دشمنی پرقوم پرستی کا خوبصورت پردہ ڈال کر مداحوں کوبھی ناقدین کی صف میں لاکھڑا کیاگیا۔جمہوریت کے چوتھے ستون ’میڈیا‘ کی مروجہ تعریف وتعبیرکو نئے مفاہیم اور معنی پہنائے گئے۔حکومت کی ترجمانی کو میڈیا کیلئے کار لازم ٹھہرا دیا گیا۔اعتراض واختلاف کی ہرآواز کو اس کے مخرج میں ہی گھونٹ ڈالاگیا۔جمہوریت کی شارع خوش جمال پر خراماں ملک نیم آمریت کی راہ پرخارپر چلتے ہوئے ایسا لہولہان ہوا کہ عالمی برادری میں ہمارے بائیکاٹ کے مشورے ہونے لگے۔
آج وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت اور بھارتیہ جنتاپارٹی ان ہی 9برسوں کے مشق ہائے ستم کا جشن منارہی ہے۔اس کیلئے ملک میں عوامی رابطہ کی مہم چلانے کا فیصلہ لیاگیا ہے۔ ’کامیابی‘ کے اس جشن کاباقاعدہ آغاز31مئی کو راجستھان کے اجمیرسے ہوگا جہاں وزیراعظم نریندر مودی ایک ’ عظیم الشان‘ ریلی سے خطاب کریںگے اور ’سپمرک سے سمرتھن‘ پروگرام کا ناقوس پھونکیں گے۔پورے ایک مہینہ تک چلنے والی اس عوامی رابطہ مہم کے دوران پارٹی 51بڑے جلسے بھی کرے گی اوروزیراعظم نریندر مودی ان میں سے کم و بیش ایک درجن بڑے جلسوں میںاپنی کامیابی کی داستان سنائیںگے۔ بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا، وزیرداخلہ امت شاہ، اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور ان کے دیگر ہمنوا ملک بھر میں گھوم گھوم کر ’داستان کامیابی‘ سنائیں گے۔مودی حکومت کی 9برسوں کی کامیابی کی یہ داستان صرف زبانی ہی نہیں سنائی جائے گی بلکہ بی جے پی ان کامیابیوںکو تحریری دستاویز کی شکل میں بھی پورے ملک میں پھیلائے گی۔بی جے پی کے آئی ٹی سیل نے ہندی اور انگریزی کے علاوہ ملک کی مختلف زبانوں میں 9 سال کی کامیابیوں کا مواد تیار کیا ہے جسے ان 30 دنوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے روزانہ نت نئے انداز میں عوام تک پہنچایا جائے گا۔
عوام کی آنکھوں سے اچھے دنوں کا خواب نوچ لینے اور ان کی آرزوئوں اور امنگوں کا مسلسل خون بہانے کے بعد بھی 9 برسوں کی حکمرانی بی جے پی اور وزیراعظم نریندر مودی کی کامیابی ضرور ہوسکتی ہے لیکن یہ ملک کی صریحاً ناکامی ہے۔ کامیابی کا جشن منانے سے پہلے بی جے پی کو چاہیے کہ معیشت، بدعنوانی، کورونا وائرس، سماجی انصاف، فرقہ وارانہ ہم آہنگی جیسے موضوعات پر پوچھے گئے کانگریس کے 9سوالوںکا منطقی جواب دے۔ان سوالوں کو کھمبانوچنے سے تعبیر کرکے مودی حکومت اور بی جے پی نہ تو ان کی چبھن سے بچ سکتی ہے اور نہ حقائق تبدیل ہوں گے۔ 9 برسوں کے حوالے سے کانگریس نے جو سوالات اٹھائے ہیں وہ ہر دردمند ہندوستانی کے دل کی آواز ہیں۔
[email protected]
یہ کس کافر ادا کا ’جلوۂ خوں ریز‘ ہے ساقی!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS