یہ کیسی ایمانداری اور عوام دوستی ہے؟

0

محمد فاروق اعظمی

کسی زمانے میں ایمانداری، شرافت ، تہذیب، شائستگی، علم و حکمت، سیاسی فہم و ذکا، عوام دوستی اور غریب پروری کی مترادف سمجھی جانے والی ریاست مغربی بنگال آج سیاسی نوسر بازوں اورٹھگوں کی وجہ سے ڈھونگ، پاکھنڈ، جھوٹ، چھل،کپٹ اور بھرشٹاچارکا گہوارہ بن چکی ہے۔ ایمانداری اور غریب پروری کا ساراملمع دھیرے دھیرے کرکے اتررہاہے اور سوتی ساڑی و ہوائی چپل بھی ڈھونگ و پاکھنڈ ہی لگنے لگی ہے۔ ہر گزرنے والا دن کوئی نہ کوئی ایسی کہانی لے آتا ہے جو مغربی بنگال کی عزت و وقار پربدنما داغ بن جاتی ہے۔ ناردااسٹنگ آپریشن کے ذریعہ ’ایماندار‘ سیاست دانوں کی ہوئی رسوائی کے بعد امید تھی کہ اب ان کی دولت کی ہوس دم توڑدے گی لیکن ہوا اس کے برعکس، پھر اسی دولت سے انتخاب لڑاگیا اورا ن ہی لوگوں کو پارٹی اعلیٰ کمان نے امیدوار بنایا جن کی مکروہ شکلیں بنگال کی سیاست کا کوڑھ سمجھی جارہی تھیں لیکن یہ کوڑھ اقتدار کا روشن استعارہ بن کر ہوس کی چنگاری کو مزید سلگاگیا۔ احتساب اور بدنامی کے ہر خوف کو ٹھوکروں سے اڑاتے ہوئے یہی ’ ایماندار‘ سیاست داں شاردا گھوٹالہ، روزویلی گھوٹالہ، مویشی اسمگلنگ اور کوئلہ گھوٹالہ سے آگے بڑھ کر طلبا کے مستقبل پر ڈاکہ ڈالنے لگے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ پورا نظام تعلیم ان کی دولت کی ہوس پوری کرنے کیلئے ایک مشین بن کر رہ گیا۔ امتحان پاس کرنے والے ہزاروں افراد کے مستقبل کا خون کرتے ہوئے،پیسے لے کر نااہل و ناخواندہ افراد کی بھاری بھیڑ کو اسکولوں میں ٹیچر کی نوکری دے دی گئی۔ وقت کے اسی بد ترین ٹیچر بھرتی گھوٹالہ میں ہفتہ23جولائی کی صبح حکومت کے انمول رتن سمجھے جانے والے موجودہ وزیرصنعت وتجارت اور اس سے پہلے کے وزیرتعلیم پارتھو چٹرجی اپنے رفقائے کار کے ساتھ گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ گرفتاری سے قبل وزیر موصوف کی خاتون دوست اداکارہ و ماڈل ارپیتامکھرجی کے گھر( جو حقیقی معنوں میں دولت کدہ ثابت ہوا) سے دولت کا پہاڑ برآمد کیاگیا اور وہ اس کے حصول کے ذرائع بتانے میں ناکام ثابت ہوئی تھیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ دولت اس کا عشرعشیر بھی نہیں ہے جو سرکاری اور سرکاری امداد یافتہ اسکولوں میں ٹیچر کے طورپرنااہل افراد کو بحال کرنے کے معاملے میں وصول کی گئی ہے۔اس رقم سے ریاست کے مختلف علاقوں میں الگ الگ ناموں سے درجنوں محل نما مکانات ، پرآسائش فلیٹ ، اپارٹمنٹ اورقطعات اراضی ، سونے اور ہیرے کے زیورات کا ذخیرہ بھی اکٹھاکیاگیا ہے جس کی تفصیلات دھیرے دھیرے کرکے سامنے آرہی ہیں اور لوگ انگشت بدنداں ہیںکہ ’ایماندار‘قیادت نے اپنے آس پاس کن بے ایمانوں اور چوروں کی بھیڑ اکٹھی کررکھی ہے۔جنہوں نے اپنی دولت کی ہوس میںنظام تعلیم تک کو بیچ ڈالاہے۔
تعلیم کی وزارت ایسے ہاتھوں میں دی گئی ہے جس کے بیشتر حکام پر پیسے لے کر ٹیچر بحال کرنے کا سنگین الزام ہے۔ ایسے لوگوں کو ٹیچر کی ملازمت دی گئی ہے جنہوں نے نہ تو امتحان ہی پاس کیا اور نہ انٹرویو میں شامل ہوئے۔میرٹ لسٹ میں اوپر کے بجائے نیچے رہنے والی وزیر مملکت برائے تعلیم کی صاحبزادی کو ٹیچربنائے جانے کا ریکارڈ بھی اسی حکومت میں قائم ہوا ہے۔
ریاست میں نظام تعلیم ویسے بھی دردناک دور سے گزر رہا ہے۔ یونیورسیٹیوں میں وائس چانسلر سے لے کر کالجوں میں پرنسپل اور اسسٹنٹ پروفیسروں تک کی تقرری سیاسی وابستگی اور پیسے کے بل پر کیے جانے کا الزام لگتا رہا ہے۔ سیکنڈری اورپرائمری تعلیم کاحال تو انتہائی ابتر ہے۔ پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں ٹیچر بحالی گھوٹالہ کے حجم کا اندازہ اسی سے لگایاجاسکتا ہے کہ کلکتہ ہائی کورٹ نے انٹرویو اور میرٹ لسٹ میں شامل ہوئے بغیر پرائمری ٹیچر کی نوکری پانے والے 273افراد کو یک قلم برخاست کردیا ہے۔تعلیم کے محکمہ میں وزیر مملکت پریش ادھیکاری کی صاحب زادی بھی ایسے ہی ٹیچروں میں شامل تھیں جنہیں تحقیقات اور طویل مقدمہ کے بعد نوکری سے برخاست کرتے ہوئے حکومت کو ہدایت دی کہ اس سے اس مدت کی تنخواہ بھی وصول کرے اور جس امیدوار کا نام ہٹاکر اسے نوکری دی گئی تھی، اس امیدوار کی تقرری کی جائے۔سی بی آئی ایسے ہی غلط طریقہ اور روپے دے کر نوکری پانے والے سیکڑوں ٹیچروں کے خلاف تحقیقات کررہی ہے۔ نیم فوجی دستہ کی نگرانی میںپرائمری اسکول ایجوکیشن کونسل اور سیکنڈری اسکول بورڈ کے دفاترکی ہونے والی تلاشی اور کمپیوٹر سسٹم کی جانچ پڑتال میں برآمد شواہد نے گھوٹالہ کی سنگینی کو مزید بڑھادیا ہے۔ جب کہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اس بحالی میں ہونے والی مالی لین دین کی تحقیقات کررہی ہے اور پہلے ہی مرحلے میں دولت کا پہاڑ ہاتھ لگا ہے۔
ادھر برسوں تک پڑھائی کرنے اور ایس ایس سی اور ٹی ای ٹی امتحانات پاس کرنے والے ہزاروں طلبا ملازمت کی آس لیے در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں، ان کے احتجاج و مظاہرہ پر انہیںپولیس کی لاٹھی مل رہی ہے۔ ٹی ای ٹی پاس کرنے کے باوجود ’ ایمانداری‘ کا کشتہ ستم بننے والوں کی طویل فہرست میں راقم کا نام بھی شامل ہے جس کا جرم یہ ہے کہ نہ اس کے پاس رشوت دینے کیلئے بھاری رقم ہے اور نہ سیاسی ٹھگوں تک رسائی۔
حیرت تواس بات پر ہے کہ ننگی آنکھوں سے نظرآنے والی اس بدعنوانی، گھوٹالہ، طلبا کی مستقبل کشی کے مکروہ عمل کی نقاب کشائی اور خاطیوں کی گرفتاری کو ’سیاسی انتقام‘ بتایاجارہاہے۔
یہ کیسی ایمانداری اور عوام دوستی ہے جو عوام کے خون پسینہ کی گاڑھی کمائی لوٹنے والوں کو تحفظ فراہم کررہی ہے۔کل تک جن کے پاس اپنا سر چھپانے کا آسرا نہیں تھا، آج وہ سیاست داں درجنوں حویلیوںکے مالک اور کروڑوں کی دولت کے انبار پر بیٹھے ہیں۔ حکمراں جماعت سے وابستہ ایک معمولی کونسلر بھی آج بلاشبہ کروڑوں کی دولت اور درجنوں مکانات کامالک ہے۔ جب کہ ریاست کے قرض میں ان بارہ برسوں کے دوران 313 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مالی سال 2010-11 میں قرض کی رقم 1,87,387 کروڑ روپے تھی جو آج مالی سال2022-23 کے بجٹ تخمینہ میں بڑھ کر 5,86,438 کروڑ روپے ہے۔ یہ سب دیکھتے ہوئے حزب اختلاف کا یہ شبہ یقین کی حد تک درست محسوس ہوتا ہے کہ پانی اوپر سے بہہ رہاہے۔موجودہ وزیر صنعت و سابق وزیر تعلیم پارتھو چٹرجی تو محض ایک پیادہ ہے جسے راجہ اور وزیر کو بچانے کیلئے قربان کیاگیا ہے۔ باقی سب ڈھونگ اور پاکھنڈ ہے۔
[email protected]Partha Chatterjee

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS