رافیل کا سچ کیا ہے؟

0

محمد فاروق اعظمی

رافیل کاجن ایک بار پھر بوتل سے باہر نکل آیا ہے۔لڑاکو طیاروں کی خریداری کے اس د فاعی سودے میں بدعنوانی، رشوت ستانی اور اقرباپروری کے کریہہ الزامات سے گھری ہندوستان کی حکومت بھلے ہی تحقیقات سے دامن بچارہی ہو لیکن فرانس میں جہاں سے یہ لڑاکو طیارے خریدے گئے ہیں، وہاں عدالتی تحقیقات کا آغاز ہوگیا ہے۔رافیل سودوں کا سچ جاننے کیلئے ایڑی چوٹی کازور لگاچکے فرانس کے کھوجی صحافیوں کی محنت بارآور ہوئی اور اس سودے کی تکمیل میں ممکنہ مجرمانہ عوامل کی تفتیش ایک سبکدوش جج کے حوالے کردی گئی ہے۔ فرانس کی تحقیق و تفتیش کے نتائج کیا ہوں گے ان پر قیاس آرائی عبث ہے لیکن اس کے اثرات ہندوستان پر ابھی سے پڑنے لگے ہیں۔اس دفاعی سودے میں بڑے پیمانہ پربے ضابطگی اور رشوت ستانی کا الزام لگاتے آرہے ہندوستان کے حزب اختلاف اور دیگر ناقدین نے مودی حکومت پر ازسرنو بزن بول دیا ہے۔حزب اختلاف کانگریس نے مطالبہ کیا ہے کہ مودی حکومت اس بدعنوانی کے الزامات کی جانچ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے کرائے۔اس معاملہ میں کانگریس شروع دن سے ہی سرگرم رہی ہے۔کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی، پرینکا گاندھی اور دوسرے کانگریسی لیڈران اس کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ معروف ایڈووکیٹ پرشانت بھوشن نے دفاعی معاہدے کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست بھی دائر کی تھی۔ تاہم اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گگوئی نے اس معاملہ میں ایف آئی آر درج کرنے کی کسی گنجائش سے انکار کرتے ہوئے پرشانت بھوشن کی درخواست کو ہی خارج کردیا تھا۔اس کے بعد حکومت نے راحت کی سانس لی تھی۔

مودی حکومت میں سرکاری کمپنی ہندوستان ایرونا ٹیکس لمیٹڈ (ایچ اے ایل) کو رافیل ڈیل سے ہٹاکر ریلائنس کمپنی کو اس سودے میں شامل کردیا گیا اور طیارہ کی قیمت بھی کئی گنا بڑھ گئی اس کے علاوہ تکنیک کی منتقلی کی شق ہی اس سودے سے ختم کردی گئی۔ اس کے بعد بالکل ہی ایک نئی کمپنی ریلائنس ایرو اسپیس کمپنی کو اس سودے میں شامل کر لیا گیا۔ ایسے بہت سے سوالا ت ہیں جو شبہات کو ہوادے رہے ہیں۔ حکومت کی نیت اگر صاف ہے اور اس سودے میں کوئی بدعنوانی یا اقربا پروری نہیں ہوئی تو اس کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تحقیقات سے اسے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ 59,000 کروڑ روپے کے اس دفاعی سودے کی اصل حقیقت جاننے کا حق بہرحال ہر ہندوستانی کو ہے، کیوں کہ ان ہی کے ٹیکس کے پیسوں سے یہ سودا ہوا ہے۔

ہندوستان میں بھلے ہی حکومت یہ سمجھ رہی ہو کہ رافیل سودہ ماضی بن چکا ہے لیکن فرانس میں یہ معاملہ ٹھنڈے بستے میں نہیں ڈالا گیا بلکہ وہاں کے میڈیا اور اس سے وابستہ تحقیقاتی صحافیوں نے معاملہ کے حقائق جاننے کیلئے دن رات ایک کردیے۔ بالخصو ص ویب سائٹ ’ میڈیا پارٹ ڈاٹ ایف آر ‘ اوراس کے کھوجی صحافی یان فلپین نے کئی ایسی رپورٹیں شائع کیں جن میں رافیل دفاعی سودوں میں بدعنوانی اوراقرباپروری کے حقائق بیان کیے گئے تھے۔’ رافیل کاغذات: فرانس- ہندوستان طیارہ سودہ میں دھماکہ خیزدستاویز‘ کے عنوان سے 8اپریل2021کو شائع ہونے والی یان فلپین کی رپورٹ نے فرانس میں تہلکہ مچادیاتھا۔دفاعی سودے کی تحقیقات پر اس سے قبل انہوں نے دو اور رپورٹیں بھی شائع کی تھیں۔اپنی اس رپورٹ میں انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ طیاروں کے اس سودے کے مسودے میں شامل بدعنوانی سے متعلق شقوں کو کس طرح دبائو میں آکر فرانس نے ہٹا دیا تھا۔ان کی یہ آخری رپورٹ تابوت میں کیل ثابت ہوئی۔ اس کے بعد فرانس میں بدعنوانی کے خلاف کام کرنے والے ایک رضاکار ادارہ ’شیرپا‘ (SHERPA) نے ان رپورٹوں کی بنیاد پر اس سودے میں خفیہ لین دین، بدعنوانی، دبائو، منی لانڈرنگ، اقربا پروری اور ٹیکس چوری کے الزامات کے تحت شکایت د رج کرائی۔اس کے بعد ہی فرانس کی حکومت نے اس کی تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔
اس دفاعی سودے میں جس کی دولت لوٹ کر اقربا میں تقسیم کی گئی ہندوستان اوراس کا میڈیا اب تک وہ کردار ادا نہیں کرپایا ہے جو ضروری تھا۔اس کے برعکس حکومت کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ رافیل کا کوئی نام بھی نہ لے۔ عدالت تک کوحکومت نے رافیل سودے کی تفصیلات مہر بند لفافہ میں ہی دی تھی جس کے بعد یہ معاملہ خارج کردیاگیا۔لیکن تمام کوششوں کے باوجود حکومت کو ’رافیل‘ کے جن سے چھٹکاراملنا مشکل نظرآرہاہے۔ کانگریس نے اس معاملہ کو ایک بار پھر موضوع بنالیاہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وزیراعظم سامنے آکر خود سودے کی تفصیلات عوام کے سامنے رکھیں اور مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے اس کی تحقیقات کرائی جائے۔ کانگریس کا تازہ موقف یہ ہے کہ اس سودے میں جس ملک کو فائدہ ہوا ہے، وہ اس کی تحقیقات کرارہا ہے تو وہ ملک جس کے ٹیکس دہندگان کی رقم خرچ ہوئی ہے وہ خاموش کیوں ہے؟
لیکن ایسا لگتا نہیں ہے کہ حکومت کانگریس کے اس مطالبہ کو تسلیم کرلے گی۔اس سے قبل بھی بدعنوانی کے کئی ایک معاملات میں حکومت کا رویہ ’صاف نیت اور صحیح وکاس‘ کاثبوت فراہم کرنے سے قاصر رہاہے۔ رافیل کے معاملے میں تو خود وزیراعظم کی ذا ت کئی بار ہدف تنقید بن چکی ہے۔ دفاعی امور کی کابینہ کمیٹی سے منظوری کے بغیر فقط وزیراعظم کی جانب سے یہ سودا کیاجانا بھی موضوع بحث رہ چکا ہے۔ 2013میں اس وقت کی منموہن حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے اس سودے میں طیاروں کی قیمت کا اچانک کئی گنا بڑ ھ جانا بھی عام آدمی کی سمجھ سے قاصر ہے۔ایک طیارہ جس کی قیمت یوپی اے حکومت نے 526 کروڑ روپے طے کی تھی، اسی طیارہ کو 1670 کروڑ روپے میں مودی حکومت نے کیوں خریدا۔یوپی اے کے دور میں جب یہ سودا ہورہاتھا تو 2012میں رافیل نے سب سے کم بولی لگاکر یہ سودا جیت لیا تھا۔ وہ10.2ارب امریکی ڈالر میں126رافیل طیارے دینے والی تھی جس میں18طیاروں کو ’ریڈی ٹو فلائی ‘ یعنی پرواز کیلئے تیارحالت میں دیاجاناتھا اور باقی 108 طیاروں کو تکنیک کی منتقلی کے بعد ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ ہندوستان میں ہی بناتی۔ اس طرح ایک رافیل طیارہ کی قیمت526کروڑ روپے بنی تھی۔سودے میں کئی مفید دوسرے نکات بھی تھے جس میں معاہدہ کے ساتھ ہندوستان میں50%رقم کی سرمایہ کاری بھی کرنی تھی۔لیکن مودی حکومت میں سرکاری کمپنی ہندوستان ایروناٹیکس لمیٹڈ(ایچ اے ایل) کو اس ڈیل سے ہٹاکر ریلائنس کمپنی کو اس سودے میں شامل کردیا گیا اور طیارہ کی قیمت بھی کئی گنا بڑھ گئی اس کے علاوہ تکنیک کی منتقلی کی شق ہی اس سودے سے ختم کردی گئی۔ اس کے بعد بالکل ہی ایک نئی کمپنی ریلائنس ایرو اسپیس کمپنی کو اس سودے میں شامل کرلیاگیا۔ایسے بہت سے سوالا ت ہیں جو شبہات کو ہوادے رہے ہیں۔ حکومت کی نیت اگر صاف ہے اور اس سودے میں کوئی بدعنوانی یا اقربا پروری نہیں ہوئی تو اس کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تحقیقات سے اسے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ 59,000 کروڑ روپے کے اس دفاعی سودے کی اصل حقیقت جاننے کا حق بہرحال ہر ہندوستانی کو ہے، کیوں کہ ان ہی کے ٹیکس کے پیسوں سے یہ سودا ہوا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS