جو ضرب ِکلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا ؟

0

ریاض فردوسی
(اے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم)آپ فرما دیں،اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے(بیٹیاں)اور تمہارے بھائی(بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔ (سورہ۔توبہ۔ آیت۔ 24)
اللہ کے کلام کی اس آیت مبارکہ نے واضح الفاظ میں فرمادیا کہ اللہ کے لئے حب اور بغض ہے۔ماں باپ، بھائی بہن، بیوی، بچے، مال ودولت، گھر، جائیداد، تجارت اور کاروبار، ہر چیز اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے، لیکن اسی وقت جب وہ اللہ تعالیٰ کے احکام بجالانے میں رکاوٹ نہ بنے، اگر رکاوٹ بن جائے تو یہی چیزیں انسان کے لئے عذاب بن جاتی ہیںاور اس کے انجام میں تمہیں ہٹا کر سچی دینداری کی نعمت اور اس کی علمبرداری کا شرف اور رشد و ہدایت کی پیشوائی کا منصب کسی اور گروہ کو عطا کر دے۔فتح و کامرانی ایسے نیک اور سعید لوگوں کو میسر ہوتی ہے جن کا نصب العین بلند اور جن کی کاوشوں اورہمتوں کے ساتھ تائید ایزدی بھی کارفرما ہوتی ہے۔اگر ظالم کے خلاف جنگ نہ کی جائے، اس کی زیادتیوں کو نہ روکا جائے مظلوم کی حمایت نہ کی جائے،ظالم و جابر،اورمانند فرعون کو موقع دیاجائے کہ وہ جس طرح چاہے، اپنے ملوکیت پرستانہ اغراض پورے کرلے تو پھرعدل وانصاف کا قیام ناممکن ہوجائے گا، دنیا کا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور اللہ کی وسیع وعریض زمین پر کوئی عافیت کی جگہ باقی نہیں رہے گی۔اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں جہاد کی حکمت بیان فرمائی ہے کہ اگر جہاد نہ ہو تو زمین پر فساد برپا ہو جائے اور عبادت گاہوں کو ڈھادیا جائے یعنی اگر جہاد کی وجہ سے ظلم اور سرکش لوگوں کو ختم نہ کیا جائے تو پھر یہ زمین فتنہ اور فساد کی لپیٹ میں آجائے گی کافر مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو گرا دیں گے اور مسلمانوں کو ختم کردیں گے مگر جہاد کے ذریعے سے تمام فتنے ختم ہوجاتے ہیں۔
جن (مسلمانوں) سے (کافر) جنگ کر رہے ہیں انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں بیشک ان کی مدد پر اللہ قادر ہے۔(سورہ۔الحج۔آیت۔39)
جب حکم جہاد صادرہوا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب مدینے سے بھی نکالے جانے لگے اور کفار مکے سے چڑھ دوڑے تب جہاد کی اجازت کی یہ آیت اتری۔ بہت سے سلف سے منقول ہے کہ جہاد کی یہ پہلی آیت ہے جو قرآن میں اتری۔ اسی سے بعض بزرگوں نے استدلال کیا ہے کہ یہ سورت مدنی ہے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے شریف سے ہجرت کی ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان سے نکلا کہ افسوس ان کفار نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو وطن سے نکالا یقینا یہ تباہ ہوں گے۔ پھر یہ آیت اتری تو صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جان لیا کہ جنگ ہو کر رہے گی۔ اللہ اپنے مومن بندوں کی مدد پر قادر ہے۔ اگر چاہے تو بیلڑے بھڑے انہیں غالب کردے لیکن وہ آزمانا چاہتا ہے اسی لئے حکم دیا کہ ان کفار کی گردنیں مارو.(تفسیر ابن کثیر)مکہ مکرمہ میں تیرہ (13) سال تک صبر وضبط کی تلقین کے بعد یہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو کافروں کے خلاف تلوار اُٹھانے کی اجازت دی گئی۔ اِس سے پہلے مسلمانوں کو کفار کے ظلم وستم کا کوئی جواب دینے کی اجازت نہیں تھی، بلکہ ہر زیادتی پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
قتال فی سبیل اللہ کے بارے میں اولین آیت ہے جو نازل ہوئی۔ تحقیق کے مطابق ذی الحجہ 1 ھ میں نازل ہوئی، اور حکم جنگ بدر سے کچھ پہلے رجب یا شعبان 2 ھ میں نازل ہوا۔یہ بات نگاہ میں رہے کہ جس وقت تلوار اٹھانے کی یہ اجازت دی جا رہی تھی، مسلمانوں کی ساری طاقت صرف مدینے کے ایک معمولی قصبے تک محدود تھی اور مہاجرین و انصار مل کر بھی ایک ہزار کی تعداد تک نہ پہنچتے تھے اور اس حالت میں چیلنج دیا جا رہا تھا قریش کو جو تنہا نہ تھے بلکہ عرب کے دوسرے مشرک قبائل بھی ان کی پشت پر تھے اور بعد میں یہودی بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ اس موقع پر یہ ارشاد کہ اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے نہایت بر محل تھا۔ اس سے ان مسلمانوں کی بھی ڈھارس بندھائی گئی جنہیں پورے عرب کی طاقت کے مقابلے میں تلوار لے کر اٹھ کھڑے ہونے کے لیے ابھارا جا رہا تھا اور کفار کو بھی متنبہ کر دیا گیا کہ تمہارا مقابلہ۔ دراصل ان مٹھی بھر مسلمانوں سے نہیں بلکہ اللہ سے ہے۔ اس کے مقابلے کی ہمت ہو تو سامنے آ جاؤ۔(تفہیم القرآن۔)
ہم تمہیں یقینا آزمائیں گے یہاں تک کہ تم میں سے غازی اور صبر کرنے والے ہمارے سامنے نمایاں ہوجائیں۔ (سورہ۔ محمد: آیت۔ 31) اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا،مجھے حکم دیا گیاہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہان تک کہ وہ اقرار کر لیں کے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں(محمد) صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا رسول ہوں، اقرار کیا تو مجھ سے اپنی جان اور مال کو محفوظ کرلیا سوائے اسلامی حق کے،اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔(بخاری ومسلم)
اللہ نے اپنے لشکر کو دنیا پر غالب کردیا۔ جہاد کو شریعت نے جس وقت مشروع فرمایا وہ وقت بھی اس کے لئے بالکل مناسب اور نہایت ٹھیک تھا جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں رہے مسلمان بہت ہی کمزور تھے تعداد میں بھی دس کے مقالبے میں ایک بمشکل بیٹھتا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS