نئی دہلی:(ایجنسی) طالبان نے کہا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے۔ دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ڈپٹی ڈائریکٹر شیر محمد عباس ا سٹنک زئی نے ایک ویڈیو بیان میں یہ بات کہی۔ 45 منٹ کے اس طویل ویڈیو بیان میں طالبان رہنما دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ اس میں ہندوستان کے بارے میں کئی اہم باتیں کہی گئی ہیں۔ مسٹرزئی نے کہا ہے کہ ہندوستان اس خطے کے لیے بہت اہم ملک ہے۔ ہم اس کے ساتھ اپنے ثقافتی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو جاری رکھنا چاہتے ہیں جیسا کہ پہلے رہا ہے۔
انھوں نے مزید کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ پاکستان کے ذریعے تجارت ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ بھارت کے ساتھ فضائی تجارت بھی کھلی رہے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ اپنے سیاسی،اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ معاہدے جاری رہیں۔ ہم بھارت کے ساتھ کام کرنے کے منتظر ہیں۔ ستانکزئی جو دوحہ میں قائم طالبان مذاکراتی ٹیم میں دوسرے نمبر پر ہیں، ان کی طرف سے آنے والے اس بیان کی خاص اہمیت ہے۔
اس سے قبل این ڈی ٹی وی انڈیا نے خصوصی خبر بھی دی تھی کہ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد انھوں نے کابل اور دہلی میں اپنے رابطوں کے ذریعے بھارت کو پیغام دیا تھا کہ وہ اپنے سفارت کاروں کو کابل سے نکالے۔ ا سٹنک زئی نے بھارت کے ان شکوک و شبہات کو بھی مسترد کر دیا تھا کہ لشکر طیبہ اور لشکر جھانگوی جیسی دہشت گرد تنظیمیں کابل میں سرگرم ہیں۔ تاہم طالبان کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے بھارت نے ا سٹنک زئی کی باتوں پر انحصار کرنا مناسب نہیں سمجھا اور سفارتخانے کے تمام 175 سفارتکاروں بشمول سفیر کو خصوصی طیاروں کے ذریعے واپس بلا لیا۔ ا سٹنک زئی کے بیان پر ابھی تک بھارت کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ ہندوستانی حکومت نے متعلقہ ذرائع سے پہلے ہی واضح کر چکاہے کہ بھارت طالبان اور اس کی حکومت کے حوالے سے ویٹ اور واچ کی پالیسی اختیار کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے جمہوری ممالک جو بھی طالبان کے بارے میں فیصلہ کریں گے،بھارت بھی اسی کے مطابق چلے گا۔
کابل ایئرپورٹ پر حملے کے بعد یو این ایس سی کی جانب سے جاری بیان میں دہشت گردی کے تناظر میں لفظ طالبان کو ہٹانے کو یو این ایس سی کے رکن ممالک کی جانب سے طالبان کے ساتھ نرم رویہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس کو اقوام متحدہ کے 16 اگست کے بیان سے جوڑا جا رہا ہے، جس میں لفظ طالبان کا ذکر کیا گیا تھا۔ بھارت اگست میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت کر رہا ہے اور ایسی صورتحال میں اسے طالبان کے حوالے سے بھارت کے موقف سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔
درحقیقت طالبان اپنی حکومت کی باقاعدہ تشکیل کے بعد زیادہ سے زیادہ ممالک سے تسلیم وسند چاہتا ہے۔ اس لیے وہ دنیا کے ممالک کے ساتھ اپنے رابطے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت کے تناظر میں ا سٹنک زئی کے بیان کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ انھوں نے اس سے قبل افغان فوج میں شمولیت اختیار کی تھی اور تقریبا 18 ماہ ہندوستان میں رہنے کے بعد 1982/83 میں آئی ایم اے میں تربیت حاصل کی تھی۔ بعد میں طالبان میں شمولیت اختیار کی اور اب وہ طالبان کے سرفہرست پانچ رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔