عدیل اختر
مشہور صحافی این رام نے کرناٹک میں کانگریس کی جیت کو ہندوتوا کی شکست قرار دیا ہے۔ اور بھی بہت سے لوگ ہیں جو کرناٹک میں بی جے پی کی ہارکو اس کی فرقہ وارانہ اور نفرت انگیز سیاست کی ہار کہہ رہے ہیں۔ خود کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے بھی اسے نفرت کی ہار کہا ہے اور یہ کہا ہے کہ کرناٹک کی عوام نے نفرت کا بازا بندکرکے محبت کی دوکان کھولی ہے۔ یہ ایسے خیالات ہیں جن پر ہر شریف آدمی کو تالی بجانی چاہئے کیوں کہ نفرت، تشدد، تفرقہ بازی اور ناانصافی کسی بھی شریف انسان کو اچھی نہیں لگتی۔ دراصل بی جے پی اور آر ایس ایس نے اپنی مسلم مخالفت سیاست سے مسلمانوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا ہندو عوام کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ دنیا بھر میں بھارت کے اکثریتی سماج کو غیر روادار اور اقلیت دشمن سماج کی پہچان دینے کا کام آرایس ایس اور بی جے پی نے کیا ہے۔ اس لئے کرناٹک کے عوام کے فیصلے کو اسی انداز میں سراہا جانا چاہئے جس انداز میں امن پسند صحافی اور کانگریس لیڈران اسے سراہ رہے ہیں۔
لیکن، اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ امن پسندی، رواداری اور فرقہ وارانہ خیر سگالی کی سیاست کیا سیاسی پارٹیوں کے لئے نفع کا سودا ہے یا نہیں؟ الیکشن کی ہار جیت اس لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت نہیں رکھتی کہ یہ عوام کے وقتی موڈ اور جذباتی کیفیت کا ایک نتیجہ ہوتی ہے اور موڈوکیفیت ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی۔ کبھی جذبات عقل پر غالب آجاتے ہیں اور کبھی عقل جذبات کو ٹھنڈا کردیتی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک جذبہ کسی دوسرے جذبے کی جگہ لے لیتا ہے۔ کرناٹک کے عوام نے اگر آج بی جے پی کو شکست فاش سے دوچار کیا ہے تو ضروری نہیں کہ کل جب پارلیمنٹ کے الیکشن ہوں گے تو بھی کرناٹک کے عوام کا موڈ یہی بنارہے۔ بعض اوقات کوئی حادثہ یا کوئی واقعہ عوام کے موڈ کو یکلخت بدل دیتا ہے اور کوئی سیاسی پارٹی اسے اپنے لئے استعمال کرلیتی ہے۔ عوام کی اس وقتی کیفیت سے فائدہ اٹھانے کے لئے ایسی جذباتی کیفیت پیداکرنے کی حرکتیں بھی کی جاتی ہیں۔ یہ حرکتیں زبان و بیان اور تقریروں سے بھی ہوتی ہیں اور کبھی کبھی واقعات یا حادثات کو خفیہ طور سے انجام دے کر بھی ہوتی ہیں۔ پلوامہ میں فوجی قافلے پر ہوئے حملے کو لے کر آج تک یہ شک بنا ہوا ہے کہ یہ کس نے کرایا۔ سابق گورنر کشمیر ستیہ پال ملک نے اس حوالے سے گزشتہ دنوں جو باتیں عوامی طور سے کہی ہیں اس کا مطلب یہی سمجھا جارہا ہے کہ اس حملے کی ذمہ داری کسی نہ کسی طور سے حکومتی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے جس کی باگ ڈور فی الحال طویل عرصے سے بی جے پی اور آریس ایس کے ہاتھ میں ہے۔ آرایس ایس کو خفیہ سازشیں کرنے والی تنظیم کے طور پر بھی شروع سے ہی دیکھا جاتا ہے۔ لہذاانتخابی نتائج پر بہت زیادہ بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ کرناٹک میں بی جے پی کی ہاربے شک عوامی موڈ اور کیفیت کا نتیجہ ہے لیکن اسے عوام کا ایک مستقل اور ٹھوس موقف نہیں کہا جاسکتا ہے۔
چنانچہ، اصل سوال سیاسی پارٹیوں کے موقف کا ہے۔ کانگریس پارٹی کی سیاست بی جے پی کی سیاست سے نظریاتی طور پرشروع سے ہی مختلف ہے۔ کانگریس پارٹی کا نظریہ انڈین نیشنلزم کا نظریہ ہے جس میں تمام ہندستانیوں کو ان کے مذہب اور تہذیب سے قطع نظر ایک ہندستانی قوم کاحصہ مانا جاتا ہے۔ جب کہ پی جے پی کا نظریہ ہندو قوم پرستی کا نظریہ ہے جس میں تمام ہندستانیوں کو ہندو سمجھنے یا ہندو بنانے کا نظریہ کارفرما ہے۔ اگر یہ دونوں پارٹیاں اپنے اپنے سیاسی نظرئے پر ایمان داری اور خلوص کے ساتھ، نیز مضبوطی کے ساتھ جمے رہیں تو دونوں کا فرق عوام کے ہر طبقے کے سامنے بالکل واضح رہے گا اور ہندستانی عوام کو ان دونوں میں سے کسی ایک کو چننے میں کوئی تذبذب نہیں ہوگا۔ لیکن کانگریس پارٹی گزشتہ تین دہائیوں سے جس سیاسی غربت میں مبتلا چلی آرہی ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ عوام کی اکثریت نے ہندستانی قوم پرستی کے کانگریسی نظرئے کو مسترد اور ہندو قوم پرستی کے آرایس ایس نظرئے کو تسلیم کرلیا ہے۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ کانگریس نے اپنے سیاسی نظرئے پر قائم رہنے کے بجائے ہندوقوم پرستی کے نظرئے کے تئیں ایک ڈھیلا ڈھالا اور مشتبہ موقف رکھا ہے۔ کانگریس پر نرم ہندوتوا کی پالیسی اپنانے کا الزام لگتارہا ہے اور اس الزام کے لئے ٹھوس ثبوت اور شہادتیں کانگریس حکومتوں کے طرز عمل سے ملتی رہی ہیں۔
دراصل کانگریس نے شروع سے ہی اپنے سیاسی نظرئے کو اپنے عملی برتاؤ میں دکھانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی ہے۔ اس کے لیڈروں اور پالیسی سازوں نے ہندستانی سماج کو غیرفرقہ وارانہ انداز سے دیکھنے اور برتنے کے بجائے فرقہ وارانہ طرز عمل کے ساتھ برتاؤ کیا ہے اور ہندوقوم پرستی کے سیاسی نظرئے کے دباؤ میں، نیز اپنے لیڈران اور کارکنان کے فرقہ وارانہ جذبات کے بہاؤ میں ہمیشہ منافقانہ طرز عمل اختیار کیا ہے۔ ہندوقوم پرستی کی سیاست کرنے والے کانگریس اور دوسری سیکولر سیاسی پارٹیوں پر مسلمانوں کی ناز برداری اور منبھ بھرائی کا الزام لگاتے رہے ہیں لیکن کانگریس یا دوسری پارٹیوں نے اگر واقعی مسلمانوں کی منھ بھرائی کا کام کیا ہوتا تو نہ تو مسلمانوں کی سماجی،تعلیمی اور اقتصادی پسماندگی وہ ہوتی جو آج ہر کسی کے سامنے ہے اور نہ خود مسلمانوں میں کانگریس سے بیزار ی پیدا ہوئی ہوتی۔کہاجاتا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمان کانگریس سے دور ہوگئے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ وہ آخری بڑا زخم تھا جس کے بعد مسلمانوں کے پاس کانگریس سے نفرت کرنے کے علاوہ کچھ نہیں پچا تھا۔ کانگریس پارٹی نے نہ تو عملًا مسلمانوں کی ناز برداری کی اور نہ نازبرداری کے اس الزام کو مسترد کرکے آرایس ایس کو ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ فرقہ وارانہ فسادات کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کانگریس نے مسلمانوں کی ناز برداری کرنے کے بجائے ان کا استحصال کیا ہے۔ اس حوالے سے ہم مسلمانوں کے نظرئے کی بات نہیں کررہے ہیں بلکہ سرکاری اعداد وشمار اور سرکاری کارروائیوں کے سرکاری ریکارڈز کی بنیاد پر یہ بات کہہ رہے ہیں۔ یہ کانگریس سرکاریں ہی تھیں جنھوں نے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد انکوائری کمیشن قائم کئے اور یہ انکوائری کمیشن ہی تھے جنھو ں نے تقریباً تمام فسادات میں مسلمانو ں کی جان ومال کا نقصان زیادہ ہونے کی رپورٹیں دی۔ اور ان فسادات کے ذمہ داروں اور ملزموں کی نشان دہی کی۔ لیکن کسی بھی انکوائری کمیشن کی رپورٹ اور تجاویز پر کانگریس سرکاروں نے عمل نہیں کیا۔
کانگریس حکومتوں نے متعدد بار مسلمانوں کی پسماندگی کی جانچ کے لئے بھی کمیشن اور کمیٹیاں قائم کیں لیکن کسی بھی کمیٹی اور کمیشن کی تجاویز کے مطابق پوری طرح عمل نہیں کیا۔ البتہ کانگریس نے ایسے غیر ضروری اور غیر مفید کام ضرور کئے جنہیں مسلمانو ں کی منھ بھرائی کے الزام کے لئے ثبوت کے طورپر پیش کیا جاسکتاتھا اور کیا گیا، جیسے حج سبسڈی دینا جس کا مطالبہ مسلمانوں نے نہیں کیا تھا، اسی طرح افطار پارٹیوں اور عرس پارٹیوں کا اہتمام اور ٹوپی و رومال جیسی علامتوں کا استعمال۔ جس سے مسلمانوں کی کوئی شہری ضرورت پوری نہیں ہوتی، سوائے ان کو خوش کرنے اور جوش دلانے کے۔ اس طرح آرایس ایس اور کانگریس کے درمیان مسلمانوں کی منھ بھرائی کے معاملے میں چوہے بلی کا کھیل جاری رہا۔ منھ بھرائی تو کی نہیں گئی البتہ منھ بھرائی کے الزام سے بچنے کے لئے مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی اور استحصال کا رویہ جاری رہا۔ کرناٹک میں کانگریس کی جیت کاسہرا اگر واقعی کسی کے سر ہے تو وہ راہل گاندھی کے سر پرہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ راہل گاندھی نے کانگریس کو پھر سے کھڑا کرنے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ اپنی قسم کو پورا کرنے کے لئے انھوں نے بڑی سنجیدہ کوششیں کی ہیں اور بہت زیادہ ایثار سے کام لیا ہے۔ راہل گاندھی کی سیاست کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر انہیں صرف آرام کی زندگی کی خواہش ہوتی تو وہ کانگریس کو اندر اور باہر سے بدلنے کے لئے اتنی کوشش نہیں کرتے۔ کانگریس کے دوسرے لیڈروں کی طرح وہ کانگریسی کلچر میں ایڈجسٹ ہوگئے ہوتے اور اپنی جوانی کانگریس کو زندہ کرنے میں نہیں کھپاتے۔
کانگریس کو زندہ کرنے کے لئے راہل گاندھی نے اپنی ماں اور بہن کی مدد سے کانگریس کے اندر بہت کچھ لڑائی لڑی ہے۔ کانگریس کو انھوں نے اس کے نظرئے پرلانے کی کوشش کی ہے۔ سیکولر انڈین نیشنلزم کا سیاسی نظریہ جو آرایس ایس کے ہندو نینشلزم کے نظرئے کے مقابلے پر کھڑا ہو اور عوام کو اس نظرئے کے ساتھ مخاطب کرے۔ یعنی راہل گاندھی نے نظریاتی سیاست پر زور دیا ہے اور کانگریس کے اندر نرم ہندوتوا کے نظرئے اور سیاسی موقع پرستی کے منافقانہ طرز عمل کی مزاحمت کی ہے۔ اسی مزاحمت کے نتیجے میں بہت سے گھاگ کانگریسی بھاگ کھڑے ہوئے اور اپنے خیال میں کانگریس کو کمزور کرگئے۔ لیکن راہل گاندھی نے پوری استقامت کے ساتھ آرایس ایس سے نظریاتی جنگ لڑتے ہوئے عوام کے درمیان جانے کا بیڑا اٹھایا۔ ان کی بھارت جوڑو یاترا ان کی کوئی معمولی محنت نہیں ہے۔ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک لوگوں کے درمیان چل کر جانا اور انہیں یہ بتانا کہ آرایس ایس ہندوؤں کو مسلمانوں سے لڑاتی ہے، یہ ملک کو توڑنے والی سیاست کررہی ہے، عوام میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت پیدا کررہی ہے، اور مذہبی جذبات سے کھیل کر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کئے ہوئے ہے، ان کی ایک بڑی سیاسی کامیابی ہے۔ اسی لئے راہل گاندھی اور دوسرے لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ نفرت کے خلاف لڑائی کی جیت ہے، ہندوتوادی نظرئے کی شکست ہے۔
لیکن اکیلے راہل گاندھی سے کچھ نہیں ہوگا۔ جب تک کانگریس لیڈران اور قائدین اپنی ذہنیت اور طرز عمل ٹھیک نہیں کریں گے، غیر فرقہ وارانہ انداز میں کام کرنے کو اپنا مزاج نہیں بنائیں گے، تو بھارت جوڑو کی مہم اور کانگریس کو ایک معتبر متبادل بنانے کی مہم کامیاب نہ ہوگی۔ کرناٹک الیکشن کا ریزلٹ آنے سے دو دن پہلے ہی کانگریس نے جے پور بم بلاسٹ معاملے میں پکڑے گئے مسلمانوں کو ہائی کورٹ کے ذریعے بری کئے جانے کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی لگادی۔ اس طرح کے بیشتر معاملات ہیں جس کی بنا پر یہ توقع کرنا مشکل ہے کہ کانگریس راہل گاندھی کا ساتھ دے گی، سب کو ایک ساتھ لے کر چلنے، اور سب کے ساتھ مساوی سلوک کرنے، محروموں کواوپر اٹھانے اور سرکاری ایجنسوں کے ظلم سے مظلوموں کو نجات دلانے کے لئے سنجیدگی سے کام کرے گی۔ خاص طور سے مسلمانوں کے ساتھ کانگریس کا طرز عمل تبدیل ہوگا، ایسی کوئی امید لگانا جلد بازی اور سادہ لوحی ہوگی۔ ہاں اگر کانگریس پارٹی چاہے تو اس کے لئے یہ سیاسی طور سے نفع کا سودا یقینا ہوگا۔
٭٭٭