کابل (ایجنسی) :طالبان نے جس رفتار سے افغانستان کے دارالحکومت کابل پر قبضہ کیا ہے شاید اس کی توقع ديگر ممالک کیا بلکہ خود افغانستان کی حکومت نے بھی نہیں کی تھی۔ اگر انھیں کوئی ایسی توقع ہوتی تو افغانستان کے صدر اشرف غنی ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے اپنے ملک کے لوگوں سے خطاب کے اگلے ہی دن ملک چھوڑ کر نہ جاتے۔ اور نہ ہی امریکہ ہنگامی حالت میں اپنا سفارتخانہ بند کرتا اور اپنے شہریوں کو اتنی جلدی افغانستان سے نکالنے کا آپریشن کرتا۔ اشرف غنی کی حکومت اور امریکہ کے علاوہ آج انڈیا بھی عجیب پوزیشن میں ہے۔
ایک طرف جہاں چین اور پاکستان طالبان سے’بہتر تعلقات‘کی وجہ سے کابل میں ہونے والی نئی پیشرفت کے بارے میں پُراعتماد دکھائی دیتے ہیں، دوسری طرف انڈیا اس وقت اپنے شہریوں کو جلد از جلد کابل سے نکالنے میں مصروف ہے۔ انڈیا نے کابل سے اپنا سفارتی عملہ نکالنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ انڈیا نے کبھی بھی باضابطہ طور پر طالبان کو تسلیم نہیں کیا۔ لیکن رواں برس جون میں طالبان اور انڈیا کے درمیان ’بیک چینل بات چیت‘کی اطلاعات انڈین میڈیا میں نمایاں رہیں۔ انڈیا کی حکومت نے ’مختلف سٹیک ہولڈرز‘سے بات چیت کرنے سے متعلق بیان بھی جاری کیا۔ لیکن کس کو معلوم تھا کہ دو مہینوں میں صورتحال یکسر بدل جائے گی۔
انڈیا کی جانب سے اب تک طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات شروع نہ کرنے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ انڈیا افغانستان میں اپنے مشنز پرماضی میں ہونے والی حملوں کے لیے طالبان کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ انڈیا میں 1999 میں آئی سی 814 طیارے کی ہائی جیکنگ اور اس کے بدلے میں جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر،احمد زرگر اور شیخ احمد عمر سعید کی رہائی کی یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ اس کے علاوہ اس کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے انڈیا کے صدر غنی کی افغان حکومت کے ساتھ تعلقات خراب ہو سکتے تھے جو تاریخی طور پر کافی خوشگوار رہے ہیں،لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔گذشتہ چند برسوں میں انڈین حکومت نے افغانستان میں تعمیر نو کے منصوبوں میں تقریباً تین ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ پارلیمان کی عمارت سے لے کر سڑکیں اور ڈیم بنانے تک کے کئی منصوبوں میں سینکڑوں انڈین ملازمین کام کر رہے ہیں۔
افغانستان میں تقریباً 1700 انڈین شہری رہتے ہیں۔ گذشتہ کچھ دنوں میں بہت سے لوگوں کے افغانستان چھوڑنے کی اطلاعات آئی ہیں۔ اس کے علاوہ ایئر انڈیا کا ایک طیارہ تقریباً 130 مسافروں کے ساتھ اتوار کو دہلی واپس آیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اب کابل ایئرپورٹ سے تمام کمرشل پروازیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔
ڈاکٹر ڈی سوزا کا کہنا ہے کہ طالبان کے کابل پر قبضے کے ساتھ انڈیا کو تین سطحوں پر اہم چیلنجز کا سامنا ہے۔
’پہلا سکیورٹی سے متعلق، طالبان سے وابستگی رکھنے والے جیش محمد، لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کی شبیہ انڈیا مخالف گروہوں کی ہے۔
’دوسرا بڑا چیلنج تجارت ہے، انڈیا کو وسطی ایشیا میں تجارتی رابطے اور اقتصادی ترقی کے معاملات میں مشکلات ہو سکتی ہیں۔ افغانستان کی لوکیشن ہی کچھ ایسی ہے کہ وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت کے لیے اسے افغانستان کا ساتھ ضروری ہے۔‘
’تیسرا مسئلہ چین اور پاکستان سے متعلق ہو گا جن کے طالبان سے تو اچھے تعلقات ہیں لیکن انڈیا سے ان کے رشتے تاریخی طور پر تلخ ہیں۔‘