ترکیہ اور شام میں پچھلے دنوں زلزلے کی جوقدرتی آفت نازل ہوئی اس میں اموات کی تعداد لگاتار بڑھتی جارہی ہے۔ ان دلخراش مناظر میں ہم کو شان قدرت کے کچھ نمونے بھی دکھائی دے رہے ہیں اور ابھی تک جو ملبہ سے زندہ افرادبرآمد ہورہے ہیں۔اس سانحہ میں مرنے والوںکی تعداد 36ہزار سے زیادہ ہوگئی ہے۔ دونوں ملکوں میں ایک لاکھ سے زائد افراد اسپتالوں میں زندگی اور موت کی کشمکش کو جھیل رہے ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگ ابھی بھی ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں کچھ کے زندہ بچنے کے آثار ابھی بھی ہیں مگر اس وقت ہزاروں لوگوں کو ادویات غذا اور رہنے کے لئے آسرے کی تلاش ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اتنا بڑا سانحہ ہے کہ جس سے نکلنے میں دوتین سال لگ سکتے ہیں۔ دنیا بھر کے تقریباً 100ممالک میں ہر قسم کی امداد ترکیہ میں پہنچائی ہے مگر شام میں مغربی ممالک کی پابندیوںکی وجہ سے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اقتصادی پابندی کی وجہ سے شام میں بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے میں دشواری پیش آرہی ہے اور اس خانہ جنگی و ملک کی داخلی سیاست بھی انسانی ہمدردی کے اقدامات میں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مغربی پابندی کی وجہ سے شام میں متاثرین کو بچانے کے لئے بڑی دشواریوںکا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے انڈرسکریٹری برائے انسانی امور مارٹن گرفٹ نے کہا ہے کہ ہم شمال مغربی شام میں اپنی کارروائی انجام دینے میں ناکام رہے ہیں اور ابھی تک اس خطے میں بین الاقوامی مدد نہیں پہنچی ہے یہ انتہائی تکلیف دہ صورت حال ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاسی اغراض و مقاصد سے عائد کی گئی پابندیاں ان ممالک کے غریب عوام پر پڑتی ہیں۔ عوام متاثر ہوتے ہیں، اقتصادی پابندیوںکی وجہ سے ملک کا عام اورغریب انسان کی روزمرہ کی زندگی متاثرہوتی ہے اس کی تعلیم، غذا، طبی امداد غرض کہ ہر شعبہ زندگی ان پابندیوں سے متاثر ہوتا ہے ایسے حالات میں جن میں قدرتی آفات غضب ڈھاتی ہیں۔ صورت حال زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ پچھلے دنوں افغانستان میں زلزلہ آیا اور ان ممالک کا دل نہیں پسیجا۔ اسی طرح اس سے قبل بھی کئی ممالک میں یہی صورت حال رہی ہے۔ ان میں کیوبا، نارتھ کوریا، ویزویلا اور ایران شامل ہیں۔ افغانستان کی صورت حال کس سے پوشیدہ ہے۔ وہاں کئی دہائیوں سے غیرملکی مداخلت کی وجہ سے خانہ جنگی کی صورت حال ہے۔ آج بھی ناٹو اور اس کے حلیفوں کی فوج اخراج کے باوجود حالات معمول پر نہیں آئے ہیں۔ وہاں بے سروسامانی ہے، فاقہ کشی ہے۔امریکہ نے ایک بڑی خطیر رقم اپنے ملک میں دبا رکھی ہے۔افغانستان جیسے تباہ حال پسماندہ اور ناخواندہ ملک میں ایسی صورت حال کا پیدا ہونا شرمناک ہے۔ اب یہی صورت حال شام میں بھی ہے جہاں پر بنیادی انسانی مدد تک نہیں پہنچ پارہی ہے۔ زخمی لوگ بھوک پیاس اور دوا نہ ملنے کی وجہ سے مر رہے ہیں۔کئی سیاسی حلقوں میں اس بات پر اختلاف ہے کہ باغیوںکے قبضے والے علاقوںمیںامداد کس طرح فراہم کرائی جائے۔ ان علاقوں میں مدد کا پہنچنا مشکل ہے۔ خاص طور سے ادلب کے علاقے میں حالات زیادہ تکلیف دہ ہیں جہاں پر امداد کی فراہمی میں کافی دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ ترکیہ نے اپنے سرحد سے ملے ہوئے شام کے علاقوں میں مددپہنچانے میں کافی مدد کی ہے مگر خود ترکیہ بدترین صورت حال سے دوچار ہے وہ اپنے پڑوسی ملک شام تک اپنی امداد کیسے پہنچائے گا اس پر کافی سوال کھڑے ہورہے ہیں مگر پھر بھی عالمی ادارے متاثرین تک امداد پہنچانے میں تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یوروپی ممالک نے درخواست کی ہے کہ فی الحال کچھ عالمی پابندیوںکو عمل آوری کو موقوف کرکے دمشق کے حکمرانوں کو امداد فراہم کرائی جائے۔ حد تویہ ہے کہ شام کے علاقے میں زندگی بچانے والی بنیادی ادویات تک نہیں پہنچ پارہی ہیں۔ ایسے حالات میں کئی حلقوں میں یہ بات بھی زیرغورآنے لگی ہے کہ یہ پابندیاں اپنے مقاصد کو کیسے حاصل کرپائیںگی جبکہ عام آدمی بدترین سطح پر پریشان ہے اوراس کو زندگی بچانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
مغربی ممالک خاص طورپر امریکہ اور اس کے حلیف اپنے مخالف حکمرانوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے اس قسم کی اقتصادی پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ کیوبا میں فیڈرل کاسٹرو کی حکومت کا تختہ پلٹنے کے لئے کتنی دفعہ کوششیں کی گئیں اوران کو کتنی مرتبہ مارنے کی سازش رچی گئی۔ مغربی ممالک کی پابندیوںجیسے وینزویلا اور شمالی کوریا اوریہاں تک کہ ایران تک میں حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔ سب سے بڑی اور بدترین مثال عراق ہے جہاں پر امریکی پابندی کی وجہ سے ہزاروں لوگ مارے گئے۔ یہاں پر امریکی سفارت کار میڈلن البرائٹ کا وہ بیان یاد آتا ہے جس میں انہوں نے عراق میں بچوں کی بڑے پیمانے پر اموات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی پابندی کی وجہ سے اس ملک میں نصف ملین بچے اپنی جان کھوچکے ہیں۔ اس پر میڈلن البرائٹ نے کہا تھا کہ اس کی اتنی قیمت توادا کی جاسکتی ہے۔ اس وقت کی سفارت کار کا یہ بیان ان بڑی طاقتوں کے ذہنی میلان، سفاکی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ قارئین کو یا ہوگا کہ 2003میں امریکہ نے اپنے قریب ترین حلیف برطانیہ کے ساتھ مل کر عراق پر حملہ کیا تھا اور بعدمیں یہ بات سامنے آئی کہ یہ دونوںممالک اور ناٹو نے عراق میں اپنی کارروائی کو حق بجانب قرار دینے کے لئے حقائق کو بڑھا چڑھاکر پیش کیا تھا۔ اس معاملے میں برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کا نام بار بار آیا۔ انہوں نے اپنے حلیف امریکہ کا ساتھ دینے کے لئے انسانی حقوق کو نظرانداز کیا اور عراق پر فوجی کارروائی کی۔ عراق آج بھی داخلی عدم استحکام اور اندرونی خلفشار و خانہ جنگی سے بری طرح متاثر ہے۔ آج بھی عراق میں غیرملکی طاقتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے کھیل کھیل رہی ہیں اوراس کا براہ راست نقصان وہاں کے عوام کو ہورہا ہے۔ ایسے حالات میں یہ ضروری ہوگیا ہے کہ مغربی ممالک اپنے رویوںمیں تبدیلی لائیں اور انسانی اقدار کو اہمیت دیں۔