غلام مصطفی رضا نظامی
یہ بات کسی اہل دانش پر مخفی نہیں کہ کسی بھی عمل کا کوئی نہ کوئی طریقہ ہوتا ہے اگر اس کے برخلاف اس عمل کو انجام دیا جائے تو اس کی تکمیل تو ہوتی ہے لیکن اس میں فساد پایا جاتا ہے مثلا اگر کوئی بجلی کا کام کرنے والا بلب کو بند کرنے کے آلہ (سیوچ بٹن)کو الٹا سیٹ کر دے تو ایسا نہیں ہے کہ اس سے بلب کو بند نہیں کیا جا سکتا ہے کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں فساد ہے وہ یہ کہ کوئی بھی اجنبی شخص اس کو ایک بار میں بغیر کسی سے مدد لئے اس کو بند کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا ہے جب کہ یہ ایک معمولی کام ہے جو کوئی بھی بآسانی کر سکتا ہے۔ اسی طرح زندگی گزارنے کا بھی ایک طریقہ ہے جسے ہمیں مذہب اسلام نے سکھایا، لفظ اسلام یہ سلم سے ماخوذ ہے جو فعل رباعی اسلم کا مصدر ہے جس کا معنی خدا کے حکم اور اس کی ممانعت کو بغیر کسی اعتراض کے تسلیم کرنا ہے۔ اور جہاں تک محاوراتی معنی کا تعلق ہے تو یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا مذہب ہے، جس کے بارے میں مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ وہ شریعت ہے جس کے ساتھ خدا نے آسمانی پیغامات پر مہر ثبت کر دی ہے۔اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تعریف کی ہے: “اللہ کی عبادت کرنا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، فرض نمازیں ادا کرنا، فرض، زکوٰۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کی زیارت کرنا۔ “اس اسلام نے بنی نوع انساں کو نظامِ حیات کا درس دیا تو بتایا کہ بڑوں کا ادب کرو چھوٹوں پر شفقت کرو والدین کی نافرمانی سے باز آ جاؤ اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھو اور پھر سب کے حقوق کو بالتفصیل بیان کر دیا اس طرح سبھوں نے اسلامی نظامِ حیات کو جان لیا۔ اس اسلام نے آج سے ساڑھے1400 سال پہلے بنی نوع انساں کو نظامِ حیات کا درس دیا تو بتایا کہ بڑوں کا ادب کرو چھوٹوں پر شفقت کرو والدین کی نافرمانی سے باز آجاؤ اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھو اور پھر سب کے حقوق کو بالتفصیل بیان کر دیا اس طرح سبھوں نے اسلامی نظامِ حیات کو جان لیا پھر جو بیٹیاں باپوں پر اس قدر گراں گزرتی تھیں کہ زندہ درگور کر دی جاتی تھیں وہ رحمت بن گئیں اور امت محمدیہ نے اسلامی نظامِ حیات کو مضبوطی سے تھام کر خوشحال اور الفت و محبت والی زندگی بسر کرنے لگیں۔
اور پھر جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا اولاد آدم نے مال و متاع کی لالچ میں اسلامی نظامِ حیات کے دامن کو چھوڑنا شروع کر دیا تو طلب جہیز، بیٹیوں کو وراثت نہ دینا، اپنے مال سے زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرنا جیسے عمل کو اختیار کر لیا اور آج یہ بات کسی پر مخفی نہیں ہے کہ جہیز کا رواج قوم مسلم میں کس قدر شباب پر ہے۔
اسلام نے نکاح کو جتنا آسان بنایا اس مسلم قوم نے اسے اتنا ہی مشکل بنا دیا ہے نکاح کے بابرکت بندھن پر بے شمار رسومات، تقریبات،خرافات اور فضول اخراجات کے بوجھ کو ایسا فروغ دیا کہ ایک غریب شخص ہی نہیں بلکہ متوسط درجے کے آدمی کے لئے بھی وہ ایک ناقابلِ تسخیر پہاڑ بن کر رہ گیا اور جب کہ نکاح میں ہونے والے تمام رسومات و خرافات اور فضول خرچی سے صرف طرف ثانی (صاحب بیٹی) کو ہی نہیں بلکہ طرف اول (صاحب بیٹا) کو بھی مشقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس کی وجہ ہے اسلامی نظامِ حیات کی خلاف ورزی کرنا، حدیث پاک ہے جس کے راوی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہیں فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “سب سے با برکت نکاح وہ ہے جس میں کم خرچ ہو۔ اسلامی شریعت اور امت محمدیہ میں نکاح کا کوئی خرچ عورت کے ذمہ نہیں رکھا گیا بلکہ اس کے برعکس نکاح میں عورت کو مرد کی طرف سے مہر ملے گا جو عورت پر خرچ کیا جائے گا ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر والدین اپنی بیٹی کو رخصتی کے وقت اپنی خوشی سے تحفہ کے طور پر ضروری سامان دیتے ہیں لیکن اس کو جہیز کا نام دے دینا سراسر غلط ہے کیوں کہ جب حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی بیٹی کو ضرورت کے سامان دئے تھے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے جس کے راوی خود حضرت علی ہیں بیان کرتے ہیں کہ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جہیز تیار کیا ایک چادر، ایک مشکیزہ اور ایک تکیہ جس میں اذخر گھاس بھرا ہوا تھا۔ ہمیں یہ معلوم ہوناچاہئے کہ اسلامی نظام حیات ہی میں فلاح ہے۔