’ویدر وومن آف انڈیا‘: سائنسدان انا مانی ‘جنھوں نے موسمیاتی آلات تیار کرنے میں مدد دی

0

چیریلان مولان
موسمیاتی تبدیلی کا لفظ ایک مقبول اصطلاح بننے سے بہت پہلے ایک ہندوستانی خاتون ایسے آلات بنانے کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں جس سے لوگوں کو ماحول کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے۔انا مانی، دنیا کے سب سے نمایاں موسمیاتی سائنسدانوں میں سے ایک، اپنے آبائی ملک میں بہت سے لوگوں کے لیے ایک غیر مانوس شخصیت ہیں۔وہ سنہ 1918 میں سابقہ شاہی ریاست تراوانکور جو کہ اب جنوبی ریاست کیرالہ کا حصہ ہے میں پیدا ہوئی۔ انا مانی کو انڈیا کو موسم کی پیمائش کے لیے اپنے آلات بنانے میں مدد کرنے کے لیے جانا جاتا ہے کیونکہ ان کی اس مدد سے نو آزاد ملک کا دوسری قوموں پر انحصار کم ہوا۔لیکن صرف یہی نہیں بلکہ انھوں نے سائنسدانوں کے لیے اوزون کی تہہ کی نگرانی کو آسان بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
سنہ 1964 میں انھوں نے پہلا ہندوستانی ساختہ اوزون سونڈے بنایا تھا، یہ ایک ایسا آلہ تھا جو غبارے میں ہوا بھر کر زمین سے 35 کلومیٹر بلندی تک چھوڑا جاتا اور اوزون کی صورتحال کی پیمائش کرتا۔سنہ 1980 کی دہائی تک، انا مانی کے آلے اوزون سونڈے کو انٹارکٹیکا میں انڈین مہمات پر معمول کے مطابق استعمال کیا جاتا تھا۔ چنانچہ جب 1985 میں ماہر طبیعیات جوزف فارمان نے قطب جنوبی پر اوزون کی تہہ میں ایک بڑے ’سوراخ‘ کی موجودگی کے بارے میں دنیا کو آگاہ کیا (انھیں 10 سال بعد اس کے لیے نوبل انعام ملا تھا)، تو انڈین سائنسدانوں نے فوری طور پر ڈیٹا کے ذریعے جوزف فارمان ریافت کی تصدیق کر دی تھی، انھوں نے مانی کی ایجاد کا استعمال کرتے ہوئے یہ ڈیٹا جمع کیا تھا۔
انا مانی نے انڈیا کے لیے بہت پہلے ہی گرین ٹیکنالوجیز کے استعمال کے لیے ایک ٹھوس بنیاد بھی رکھی تھی۔ سنہ 1980 اور 90 کی دہائیوں میں، انھوں نے ہوا کے ذریعے توانائی بنانے کے سروے کے لیے تقریباً 150 سائٹس قائم کیں۔ان میں سے کچھ دور دراز کے علاقوں میں واقع تھیں لیکن نڈر سائنسدان نے اپنی چھوٹی ٹیم کے ساتھ ہوا کی پیمائش کے لیے سٹیشنز لگانے کے لیے وہاں کا سفر کیا۔ماہر موسمیات سی آر سریدھرن، انا مانی سے متعلق اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ان کی دریافتوں نے سائنسدانوں کو ملک بھر میں ہوا سے بجلی بنانے والے متعدد فارمز قائم کرنے میں مدد کی ہے۔مانی نے ایک ایسے وقت میں موسم کا مطالعہ کرنے کے اپنے شوق کو پورا کیا جب خواتین کے لیے ایک سائنسدان بننا تو درکنار اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا بھی غیر معمولی بات تھی۔ انھوں نے کم عمری میں ہی علم کے شوق اور ناقابل شکست راستے پر چلنے کی خواہش کا مظاہرہ کیا۔ایک امیر گھرانے میں پیدا ہونے والی انا مانی آٹھ بہن بھائیوں میں ساتویں نمبر پر تھیں، ان کے پانچ بھائی اور وہ تین بہنیں تھیں۔ اپنی آٹھویں سالگرہ پر والدین کی جانب سے ہیرے کی بالیوں کے تحفے کو مسترد کرتے ہوئے انھوں نے انسائیکلوپیڈیا کا ایک سیٹ مانگا تھا۔
سائنسدان ابھا سور نے اپنے مضمون، ’انا مانی کی تعریف‘ میں لکھا ہے کہ ’اپنی نوعمری میں، مانی نے اپنی بہنوں کی طرح شادی کرنے کے بجائے تعلیم حاصل کرنے کا انتخاب کیا۔ ان کے فیصلے پر ان کے خاندان کی طرف سے نہ تو مخالفت کی گئی اور نہ ہی حوصلہ افزائی کی گئی۔‘لیکن انا مانی کا ماہر موسمیات بننے کا سفر آسان نہیں تھا۔ ان کے خاندان میں اعلیٰ درجے کے پیشے اختیار کرنے پر خواتین کی بجائے مردوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ ان کا خواب طب کی تعلیم حاصل کرنا تھا، لیکن چونکہ وہ ایسا کرنے سے قاصر تھیں، اس لیے انھوں نے فزکس پڑھنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ اس میں اچھی تھیں۔انھوں نے مدراس (موجودہ چنئی) کے پریزیڈنسی کالج سے اپنی ڈگری حاصل کی، اور بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے سرکاری وظیفہ حاصل کرنے سے پہلے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس میں نوبل انعام یافتہ سی وی رمن کی لیبارٹری میں ہیروں کی خصوصیات کا مطالعہ کرتے ہوئے پانچ سال گزارے۔اس سکالرشپ کا مقصد صرف طبیعیات کا مطالعہ کرنا نہیں بلکہ موسمیاتی آلات کا مطالعہ کرنا بھی تھا کیونکہ انڈیا کو اس وقت اس شعبے میں مہارت کی ضرورت تھی۔ سریدھرن لکھتے ہیں کہ مانی نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور ایک فوجی بحری جہاز پر برطانیہ کا سفر کیا۔
انھوں نے اگلے تین سال موسمی آلات کے تمام پہلوؤں کا مطالعہ کرتے ہوئے گزارے، بشمول انھیں کیسے بنایا گیا، جانچا گیا، کیلیبریٹ کیا گیا اور ان کا معیار مقرر کیا گیا۔ 1948 میں برطانوی حکومت سے آزادی کے ایک سال بعد انڈیا واپس آنے پر انھوں نے محکمہ موسمیات میں ملازمت اختیار کی۔وہاں انھوں نے بیرون ملک حاصل کردہ علم کا استعمال کیا تاکہ انڈیا کو اپنے آلات تیار کرنے میں مدد فراہم کی جو اس وقت تک برطانیہ اور یورپ کے دیگر حصوں سے درآمد کیے جا رہے تھے۔انھوں نے ابتدا سے 100 سے زیادہ مختلف قسم کے آلات بنانے کے لیے ایک ورکشاپ قائم کی جس میں بارش، درجہ حرارت اور ماحولیاتی دباؤ کی پیمائش کرنے والے آلات تیار کرنا شامل تھے۔ یہاں تک کہ انھوں نے ان آلات کے لیے انجینئرنگ کی تفصیلی وضاحتیں، ڈرائنگ اور مینوئیل بھی تیار کیے۔ان آلات کی بہترین درستگی اور معیار کی قائل انا مانی نے اس بات کو یقینی بنانے کی پوری کوشش کی کہ یہ آلات اعلیٰ ترین معیار کے اور قابل اعتماد ہوں۔
انھوں نے 1991 میں ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’میرا ماننا ہے کہ غلط پیمائشیں کسی بھی پیمائش سے بدتر ہیں۔‘انا مانی نے ملک میں شمسی تابکاری کی پیمائش کے لیے آلات تیار کرنے اور ملک بھر میں تابکاری اسٹیشنوں کا نیٹ ورک قائم کرنے میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا جو کہ انڈیا میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی تلاش کے ان کے منصوبے کی جانب ایک اور قدم تھا۔سریدھرن لکھتے ہیں کہ ’اس وقت تک ان اعلیٰ معیار اور درستگی والے آلات پر مغربی ممالک کی اجارہ داری تھی اور ان کے ڈیزائن کو بھی خفیہ رکھا گیا تھا۔ لہٰذا لوگوں کو بنیادی چیزوں سے شروع کر کے پوری ٹیکنالوجی کو خود تیار کرنا پڑتا تھا۔‘
اگرچہ انا مانی نے اپنے کرئیر میں بڑی کامیابی اور بلندی حاصل کی، لیکن انھیں امتیازی سلوک کے متعدد واقعات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ان کے مینٹور اور سرپرست اعلیٰ معروف سی وی رامن کو صرف چند خواتین کو ہی اپنی لیب میں اجازت دینے کے لیے جانا جاتا تھا اور انھوں نے ان پر کئی پابندیاں عائد کی تھیں۔
ابھا سور نے اپنی کتاب ’ڈسپرس ریڈئنس: کاسٹ، جینڈر اینڈ ماڈرن سائنس ان انڈیا‘ میں لکھا کہ ’رامن نے اپنی لیبارٹری میں مردوں اور خواتین کو علیحدہ رکھنے کے سخت ضابطے بنائے ہوئے تھے۔‘اور اس لیے زیادہ تر اوقات میں انا مانی اور ایک دوسری طالبہ نے اکیلے کام کیا، اپنے ساتھیوں سے الگ تھلگ رہ کر اور وہ صحت مند علمی بحث اور سائنسی نظریات پر بحث کرنے سے قاصر رہیں۔
انا مانی کو اپنے کچھ مرد ساتھیوں کی طرف سے بھی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ ابھا سور کی کتاب میں وہ ان ساتھیوں کے بارے میں بات کرتی ہیں جو فوری طور پر ایک چھوٹی سی غلطی کو بھی پکڑ لیتے تھے اور اسے آلات کو سنبھالنے یا اس کا تجربہ کرنے میں ’خواتین کی نااہلی‘ کی علامت کے طور پر بیان کرتے۔جب مانی نے نظریاتی طبیعیات پر ایک کورس کا آڈٹ کیا تو عام طور پر یہ خیال کیا گیا کہ یہ کام ’ان کے بس کا نہیں ہے۔‘
سنہ 1960 کی دہائی کے اوائل میں جب انا مانی کو بین الاقوامی بحر ہند مہم کا حصہ بننے کا موقع ملا جس میں موسموں کا مطالعہ کرنے کے لیے دو جہازوں کو آلات سے لیس کرنا شامل تھا تو وہ یہ ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے بحری جہازوں پر نہیں جا سکی تھیں۔
انا مانی نے ڈبلیو ایم او کو 1991 کے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’میں جانا چاہتی تھی لیکن ان دنوں خواتین کو انڈین بحریہ کے جہازوں پر جانے کی اجازت نہیں تھی۔‘لیکن اپنے دور کی بہت سی خواتین کی طرح انا مانی نے خود کو پدرانہ رویوں کا شکار ہونے سے انکار کیا۔انھوں نے یہ ثابت کیا کہ ان کی صنف کبھی بھی ان کی پیشہ ورانہ خواہشات کے راستے میں نہیں آئی۔انھوں نے ابھا سور کو بتایا تھا کہ ’میں نے کبھی یہ محسوس نہیں کیا کہ میں عورت ہونے کی وجہ سے سزا یافتہ ہوں یا مراعات یافتہ ہوں۔‘
مانی کا انتقال 2001 میں کیرالہ کے شہر ترواننتھا پورم میں ہوا۔ انھوں نے کبھی شادی نہیں کی اور دستیاب معلومات کے مطابق انھیں اپنے اس فیصلے پر کبھی پچھتاوا نہیں ہوا۔ ان کا کام اور زندگی انڈیا اور بیرون ملک لوگوں کو متاثر کرتی رہی ہے۔ll

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS