شاہد زبیری
مئی کے آخری ہفتہ میں بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما نے ایک ٹی وی مباحثہ میں پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی شادی کی بابت جس دریدہ دہنی کا مظاہرہ کیا اور بی جے پی کے دہلی کے میڈیا انچارج نوین جندل نے اس حوالہ سے اپنی ذہنی غلاظت سے وطن عزیز کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو پرا گندہ کیا اور ہندوستانی مسلمانوں سمیت دنیا بھر کے مسلمانوںکے مذہبی جذبات کو مجروح اور دلوں کو چھلنی کیا ہے اس پر غم وغصہ کا اظہار لازمی ہے اورمسلمان کے ایمان کا عین تقاضہ ہے ۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا تاریخ میں اس سے پہلے بھی دریدہ دہنوں نے اس طرح کی دلخراش حرکتیں کی ہیں۔ خود غیر منقسم ہندوستان میں ’رنگیلا رسولـ‘ جیسی غلاظت سے بھری کتاب لکھی جا چکی ہے ۔ہونا تو یہ چا ہئے تھا کہ اہانتِ رسولؐ کی دلخراش حرکت پر سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا نعرہ دینے والی بی جے پی کی مودی سرکار فوری حرکت میں آتی اور گستاخانِ رسول ؐ کو قرارِ واقعی سزا دیتی لیکن ایسا نہیں ہوا اور ہندوستانی مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا احترا م نہیں کیا گیا اس دل آزار کرتوت کے بعد مسلمانوں کی طرف سے ملک بھر میں صدرِ جمہوریہ کو ہزارہا میمو رنڈم بھی ارسال کئے گئے جو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دئے گئے۔مودی حکومت کو تب ہوش آیا جب مسلم حکومتوں نے اس پر اپنا احتجاج درج کرایا اور بات یہاں تک پہنچی کہ مسلم ممالک نے ہمارے سفراء کو طلب کر لیا ۔یہ وہی مسلم ممالک تھے جنہوں نے اپنے ملک کے سب سے بڑے سول ایوارڈ سے ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کو نوازا تھا ۔یہ مسلم ممالک ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل پر کبھی نہیں بولتے ہیں اور ان کو بولنا بھی نہیں چا ہئے یہ ہندوستانی مسلمانوں کے حق میں کبھی بھی بہتر نہیں ہو سکتا۔مسلم ممالک تب بولے جب دشمنانِ رسولؐ کے ہاتھ دامن رسالتؐ تک پہنچ گئے۔ یہ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان خدا کے بارے میںکذب بیانی اور ہرزہ سرائی پر تو خاموش رہ سکتے ہیں پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفیؐ کی ذاتِ گرامی کے بارے میں ادنیٰ سے ادنیٰ گستاخی برداشت نہیں کرسکتے۔ اس میں عربی ہو کہ عجمی، گورے ہوں کہ کالے یا مسلکوں میں بٹے ہو ئے مسلمان کسی میں کوئی امتیاز نہیں، یہ سب اپنی تمامتر خرابیوں، خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود اپنے دلوں میں عشقِ رسولؐ کی شمع روشن رکھتے ہیں اور جو کوئی بد بخت اس شمع کو بجھا نے کی کوشش کرتا ہے تو مسلمان اس کو برداشت نہیں کر پاتے اور اپنی جان اپنا مال سب قربان کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔اسی لئے اس مرتبہ بھی جب ہمارے ملک میں کچھ بد بختوں نے دامنِ رسالتؐ کو تار تار کرنے کی کوشش کی تو دنیا بھر کے مسلمانوں نے صدائے احتجاج بلند کی۔ ہندوستان کے مسلمان پہلے ہی اپنے غم وغصہ کا اظہار کررہے تھے۔ لیکن کہا یہ جا رہا کہ مسلم ممالک کے احتجاج سے شہ پاکر مسلمان مشتعل ہو ئے ہیں اور سڑکوں پر اترے اور تشدد پر آمادہ ہوگئے۔ یہ بات کسی بھی طرح صحیح نہیں ہے ۔جو لوگ تشدد کرنے کے مرتکب ہیں ان کیخلاف قانونی کارروائی کی جا ئے اس پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے ۔جب ہزاروں کی بھیڑ جس کا کوئی قائد نہ ہو اور کسی تنظیم کا بینر نہ ہو ایسی بھیڑ جب سڑک پر اترتی ہے تو اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بھیڑ میں شامل سماج دشمن عناصر اپنا کھیل کھیلتے ہیں،ایسا اس مرتبہ بھی ہوا ہے لیکن سزا بے قصوروں کو دی جا رہی ہے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ مسلم ممالک کے احتجاج کے بعد مودی سرکار نے نوپور شرما کا 6سال کیلئے پارٹی سے اخراج کیا اور نوین جندل کو پارٹی سے باہر کا راستہ دکھا دیا ۔ملک کے حالات پر نظر رکھنے والے مانتے ہیں کہ مسلم ممالک کی ناراضگی پر جو کچھ مودی سرکار نے کیا وہ ملک کے مفا د سے زیادہ اڈانی اور امبانی مفادات کا تحفظ تھا اور ان کا دبا ئو تھا کہ مودی حکومت کچھ کرے اس لئے کہ مسلم ممالک میں اڈانی اور امبانی کی کمپنیوں کی ہندوستانی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جا نے لگا تھا۔یہ اس دبائو کا نتیجہ تھا کہ بی جے پی کو نو پور شرما اور نوین جندل کیخلاف کارروائی کرنی پڑی، لیکن یہ کارروائی ناکا فی تھی جو جرم ان لوگوں نے کیا تھا اس پر تو قانونی کارروائی کی جا نی چا ہئے تھی ۔ ایف آئی آر درج کئے جانے کی صرف خانہ پُری کی گئی ہے ۔اس سے پہلے نو پور شرما اور نوین جندل کے دل آزار اور قومی یکجہتی کو تارتار کرنے والے بیانات پر بی جے پی اور ہندو تنظیموں میں واہ واہی ہو رہی تھی۔ مودی سرکار میں یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ اس کے لیڈروں نے اس طرح کی حرکت کی تھی ۔مشہور صحافی اور امبیڈکر یو نیورسٹی کے پرو فیسر ابھے کمار دو بے کے مطابق بی جے پی کے آئی ٹی سیل نے گزشتہ 8سالوں میں ایسی 5ہزار ہیٹ اسپیچ کی بنیاد پر 37 پارٹی کے ترجمانوں کی لسٹ تیار کی ہے جن کو سردست خاموش رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ پرو فیسر دوبے بتا تے ہیں کہ اگر ان 5ہزار نفرت انگیز تقاریر کو جمع کرکے تقسیم کیا جا ئے تو ہر ماہ ایسی 50 نفرت بھری تقاریر کی گئی ہیں جن میں اسلام ،قرآن اور مسلمانوں پر اعتراضات کئے گئے ہیں اور بیہودہ الزامات لگا ئے گئے ہیں۔ بیہودہ تقاریر کرنے والوں میں بی جے پی کے میڈیا ترجمانوں کے علاوہ بی جے کے وزراء بھی شامل ہیں۔اس کے نتیجہ میں کرناٹک میں حجاب سے حلال تک جو کچھ ہوا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔اس پر بی جے پی سرکاروں کی بے شرمی اور فرقہ پرست عناصر کی سر پرستی کے علاوہ مسلم تنظیموں اور مسلم قیادت کے مصلحت پسند اور مایوس کن رویہ نے پہلے ہی مسلمانوں کو دلبرداشتہ کر رکھا تھا۔ اہانتِ رسول ؐ کی تازہ شرمناک اور دلخراش حرکت نے ان کے صبر کا باندھ توڑدیا اور 3جون کو جمعہ کی نماز کے بعد کانپور کے مسلمان سڑکوں پر اتر آئے۔ ہندو تنظیموں کے لوگ بھی سامنے آگئے اور پتھر بازی ہوئی ۔یو گی سرکار نے اس کا سخت نوٹس لیا مسلمان گرفتار بھی کئے گئے اور ان میں سے کچھ کے گھروں پر بلڈوزر بھی پولیس نے چلا یا۔ ابھی یہ جاری تھا کہ 10 جون کو جمعہ کی نماز کے بعد یہ سلسلہ ملک کی ایک درجن ریاستوں تک پھیل گیااور دہلی، مہا راشٹر، کرناٹک، تلنگانہ اور گجرات سے لے کر یو پی، بہار، جھارکھنڈ ،مغربی بنگال اور کشمیر تک یہ سلسلہ دراز ہو گیا ۔کچھ مقامات پر کچھ تشدد کی وارداتیں بھی ہوئیں ،اس طرح کی پرتشدد وارداتوں کو کسی طرح بھی صحیح نہیں ٹھہرا یا جا سکتا لیکن جواب میں ان ریاستوں کی سرکاروں کی ہدایات پر پولیس نے جس بربریت کا مظاہرہ کیا وہ انصاف کے تقاضوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ خاص طور پر جھارکھنڈ پولیس نے تو انسانیت کو پائوں تلے روند دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی ویڈیوجھارکنڈ پولیس کی وحشت اور بربریت کا ثبوت ہے ۔ رانچی پولیس نے نابالغ 16سال کے مدثر کو گھیر کرپہلے بڑی بیدردی سے لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹا اور پھر کہا کہ بھاگ جب وہ بھاگا تو اس کو گولی ماردی گئی۔ ایسا ہی 24سال کے ساحل کو گولیوں سے بھون ڈا لا گیا۔یو پی کے سہارنپور کے ایک تھانہ میں زیر حراست مسلم نوجوانوں پر دو پولیس والے بھوکے بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑے اور لاٹھیوں سے اس طرح پیٹا کہ ان کی چیخ وپکار سے دل دہل اٹھا ۔وہ ان پر اس طرح ٹوٹے پڑ رہے تھے جیسا کہ وہ بہت بڑے مجرم ہوں۔ قانون تو زیر حراست ملزمان کیخلاف اس طرح کی درندگی کی اجازت نہیں دیتا خواہ وہ عادی پیشہ مجرم ہی کیوں نہ ہو ں،اس ویڈیو کوبھی مبینہ طور پر بی جے پی کے لکھنؤ کے ایک ممبر اسمبلی نے سوشل میڈیا پر ڈالا ہے۔ سہارنپور میںعبدالباقر اور مزمل کے گھروں پر پولیس نے بلڈوزر چلاکر عدالت کا فریضہ بھی انجام د ے دیا ۔یو پی کے پریاگ راج میں بھی مظاہرین کو تشدد کی سزا عدالت کے بجائے پولیس نے دی، یہاں بھی ملزمان کے گھروں پر بلڈوزر چلا ۔ مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر کی یہ روایت مدھیہ پردیش سے شروع ہو کر دہلی پہنچی، اب یو پی میں اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔ حقیقت میں یو گی سرکار نے بلڈوزر کا پہلے استعمال مافیا اور گینگسٹروں کیخلاف کیا تھا۔ شیوراج چوہان کی بی جے پی سرکار نے بلڈوزر کا استعمال ان مسلمانوں کے گھروں پر کیا جو فرقہ پرستوں کے ہجو م سے اپنا تحفظ کررہے تھے۔دہلی کے غریب مسلمانوں کا بھی یہی جرم تھا کہ وہ اپنی عبادتگاہ کا تحفظ کرر ہے تھے۔یو پی کے مسلمانو ں کو بی جے پی کی یو گی سرکار اور پولیس کے عتاب کا شکار اس لئے بننا پڑرہا ہے کہ انہوں نے 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نمازِ جمعہ کے بعد سڑکوں پر اتر کر احتجاج کیا اور نو پور شرما اور نوین جندل کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے کی جرأت دکھا ئی ۔نو پور شرما اورنوین جندل نہ صرف آزاد گھوم رہے ہیں بی جے پی سرکار نے ان کو پولیس سیکورٹی بھی دے رکھی ہے اور پورا بھگوا بریگیڈ اور گودی میڈیا ان دونوں کینہ فطرت اور گستاخانِ رسولؐ کی حمایت میں اتر آیا ہے ۔مودی سرکار اگر ان کو گرفتار کر کے انصاف کے تقاضہ کو پورا کردیتی تو مسلمان سڑکوں پر نہ اترتے اور نہ 144کی خلاف ورزی کرتے۔ 144 کی خلاف ورزی کی سزا بھی دینے کا اختیار صرف عدالت کو ہے پولیس کو نہیں، لیکن اب یو پی کے وزیرِ اعلیٰ یو گی آدتیہ ناتھ کی ہدایت پر یو پی پولیس اور ضلع انتظامیہ اہانتِ رسولؐ کیخلاف سڑکوں پر اترنے والوں پر نیشنل سیکورٹی ایکٹ NSA)) کے تحت کارروائی کرنے کا اعلان کر چکی ہے اور گرفتا ریوں کے ساتھ گھروں پر بلڈوزر بھی چلا رہی ہے، سنگین دفعات میں مقدمات قائم کئے جا رہے ہیں اور جیل ر سید کیا جا رہا ہے۔ جوزیرِ حراست ہیں ان پر پولیس کا قہر جا ری ہے ۔یہ تو وہی ہوا بقول شاعر:
ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا
ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS