معاشی سطح پر عدم مساوات کا شکار ہیں ہم

0

محمد حنیف خان

کسی بھی معاملے میں مساوات اور توازن ملک اور معاشرے کی ترقی اور اس کی وسعت ذہنی کا پتہ دیتا ہے۔ اس میں فرد سے زیادہ ریاست کا کردار ہوتا ہے۔ریاست کی پالیسیوں میں اگر ہر طبقے کا خیال رکھا جائے تو عدم مساوات اور عدم توازن معاشرے میں کم سے کم پیدا ہو، لیکن اگر حکومت اپنی پالیسیاں ہی اس طرح وضع کرے کہ اس سے کسی خاص طبقے کو فائدہ ہو تو ایسے میں توازن کا بگڑنا اور عدم مساوات کا قائم ہونا ضروری ہوجاتا ہے۔یہ ایک کلیہ ہے،جس کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ہندوستان بھی اس وقت متعدد سطحوں پر عدم مساوات اور عدم توازن کا شکار ہے۔جس میں سب سے زیادہ عدم مساوات معاشی اور معاشرتی سطح پر ہے۔ان دونوں کے لیے حکومت ہی ذمہ دار ہے۔رہی سہی کسر کووڈ19نے پوری کردی ہے۔
’’ورلڈ ان اکوالٹی رپورٹ 2022‘‘(عالمی عدم مساوات رپورٹ 2022کی رپورٹ) (world inequality report 2022) 7دسمبر کو منظرعام پر آئی ہے جس کے مطابق ہندوستان دنیا میں سب سے زیادہ عدم مساوات اور عدم توازن والے ممالک میں شامل ہوگیا ہے۔ یہ رپورٹ کسی ایک شخص نے نہیں تیار کی ہے جس پر جانبداری اور ملک دشمنی یا اس کی شبیہ کو خراب کرنے کا الزام عائد کیا جا سکے۔’ورلڈ ان اکوالٹی لیب‘ ایک عالمی ادارہ ہے جس نے متعدد معیارات کا تعین کیا ہے جس کی بنیاد پر وہ ملکوں کی فہرست سازی کرتاہے،جس میں اس نے دولت کے حجم، فی کس آمدنی، جنس کی بنیاد پر آمدنی، طرز زندگی، ماحول اور معاشرتی توازن و عدم توازن کو بنیاد بنایا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق ملک کی ایک فیصد آبادی کے پاس قومی آمدنی کا 22فیصد ہے،جبکہ نچلے طبقے کے پاس صرف 13فیصد آمدنی ہے۔ رپورٹ کے مطابق فی کس آمدنی 204200ہے جبکہ نچلے طبقے کی آبادی (پچاس فیصد)کی آمدنی 53610روپے ہے اور معاشرے کے دس فیصد اشرافیہ کی آمدنی اس سے تقریبا بیس گنا زیادہ 1166520روپے ہے۔یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ اس دس فیصد آبادی کے پاس کل قومی آمدنی کا 57فیصد ہے جبکہ ایک فیصدی آبادی کے پاس 22فیصد ہے۔جبکہ نیچے سے 50فیصدی آبادی کی اس میں حصہ داری محض 13فیصد ہے۔ہندوستان میں اوسطاً فی کنبہ املاک کا حجم 983010روپے ہے۔اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندوستان ایک غریب اور کافی عدم مساوات کا شکار ملک ہے۔یہ رپورٹ خواتین کے ساتھ بھید بھاؤ اور ان کے عدم مساوات کا شکار ہونے پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔اس کے مطابق خواتین محنت کشوں کی آمدنی محض 18فیصد ہے، یہ ایشیا کے اوسط (21فیصد چین کو چھوڑ کر)سے کم ہے۔
اس وقت اتر پردیش میں الیکشن کی گہما گہمی شروع ہو گئی ہے،ایک طرف جہاں حکمراں پارٹی ترقیات کی گنگا بہانے کے دعوے کر رہی ہے تو دوسری طرف مخالف پارٹیاں اس کے کیے گئے کاموں پر خط تنسیخ پھیر رہی ہیں،دونوں طرف سے لفظی تشدد کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ حکمراں پارٹی دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے آمدنی دوگنی کردی ہے، روزگار دیے ہیں،کاروبار دیے ہیں۔اس نے کیا اور کسے دیا ہے یہ بھی سب جانتے ہیں۔لیکن اس نے معاشی سطح پر غیر مساوات کو فروغ دیا ہے،جسے محسوس تو سب کرتے ہیں مگر کہتے بہت کم لوگ ہیں۔آج کی دنیا کی خوبی اور خوبصورتی اس بات میں بھی ہے کہ متعدد مسائل سے متعلق بہت سی غیر سیاسی و غیر سرکاری تنظیمیں ہیں جو ان پر سروے کرکے رپورٹ جاری کرتی ہیں،یہ رپورٹ عالمی،براعظمی،ملکی،ریاستی اور ضلعی سطح کی ہوتی ہیں۔اچھی بات یہ ہے کہ حکومتون کا ان پر کنٹرول نہیں ہوتا ہے ورنہ حقیقی تفصیلات کبھی سامنے آنے ہی نہ پائیں کیونکہ اس سے ان کے اپنے مفادات وابستہ ہوتے ہیں جنہیں اس طرح کی رپورٹوں سے زک پہنچتی ہے۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ اکثر و بیشتر مسائل کی جڑ معاشی پہلو سے وابستہ ہے۔جو معاشی سطح پر مضبوط ہے، اس کے لیے زندگی غریبوں کے مقابلے بہت زیادہ آسان ہے۔ہر طرح کی سہولیات،خصوصاً تعلیم، غذا اور صحت خدمات زندگی کے لازمی اجزا ہیں جن تک رسائی امیروں کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے جب کہ غریبوں کے سب سے بڑے مسائل یہی تینوں ہیں۔ان کو ضروریات سے ہی فراغت نہیں ملتی ایسے میں خواہشات کا تو کوئی سوال ہی نہیں۔
غربت و امارت کی یہ لکیر کس نے کھینچ دی؟اگر یہ سوال کیا جائے تو اکثر وبیشتر کا جواب یہی ہوگا کہ قسمت نے ایسا کیا۔لیکن انسانی عمل قسمت کو بھی بدل سکتا ہے کیا لوگ اس سے واقف نہیں ہیں؟ایسا نہیںہے کہ ان کو معلوم نہیں ہے لیکن وہ اصل مسئلے کی جڑ تک نہ جانا چاہتے ہیں اور نہ غریبی کے ذمہ دار لوگوں کو اس کا احساس دلانا چاہتے ہیں۔ان کو معلوم ہے کہ حکومت اگر چاہ لے تو یہ عدم مساوات ختم بھی ہوسکتا ہے مگر چونکہ وہ مذہب، تشدد، عقائد، رسوم اور سماجی تفوق کے سحر سے نکلنا ہی نہیں چاہتے ہیں تو زمینی حقیقتیں کیسے بدل سکتی ہیں۔
جس طرح سے حکومت نے سہولیات کے نام پر پرائیویٹائزیشن کو فروغ دیا ہے،سرکاری اداروں اور املاک کو نجی ہاتھوں میں دینے کا منصوبہ بنایا ہے، اس نے دولت کے ارتکاز کو فروغ دیا ہے۔ ایک بہت چھوٹی سی مثال سے اس بات کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔چند برسوں میں پٹرولیم مصنوعات میں بہت تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ جو پٹرول چند برس پہلے 65روپے میں تھا، وہ آج 100 روپے سے اوپر مل رہا ہے،یہی حال ڈیژل کا ہے۔اس کی قیمت میں اضافہ پر جب بھی گفتگو کی گئی تو حکومت کی طرف سے بس ایک ہی جواب آیا کہ اس کی قیمت حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہے۔یعنی حکومت نے اس پوری مارکیٹ کو نجی ہاتھوں میں دے دیا اور ان کو یہ بھی حق دے دیا کہ وہ جب چاہیں اور جتنا چاہیں اضافہ کرسکتے ہیں،جس کا فائدہ ان نجی کمپنیوں نے اٹھایا اور خمیازہ عوام مہنگائی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔پٹرولیم مصنوعات کا منافع اور اس سے حاصل شدہ رقم کہاں جاتی ہے؟ظاہر سی بات ہے یہ رقم ان دس فیصد لوگوں کی جیب میں جاتی ہے جن کی آمدنی عوام سے بیس گنا زیادہ ہے۔اس کا اندازہ ایک اور بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کے دو بڑے صنعت کاروں میں سے ایک کی یومیہ آمدنی 1002کروڑ ہے اور وہ ایشیا کے دوسرے سب سے مالدار شخص ہیں۔جبکہ دوسرے صنعت کار 164کروڑ روپے آمدنی کی صورت میں حاصل کرتے ہیں۔ان دونوں مالداروں کے برعکس ملک کے عوام کی حالت دیکھ لیجیے، حقیقت سامنے آجائے گی۔یہ معاشی پالیسیوں کی ناکامی اور اس کے عوام کے مطابق نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔در اصل حکومتیں چند لوگوں کو اس لیے آگے بڑھاتی ہیں کیونکہ اس سے ان کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔اگر حکومتیں واقعی ملک سے محبت کرتی ہیں،وہ عوام کو ملک تصور کرتی ہیں تو ان کو ایسی پالیسیاں وضع کرنی چاہئیں جس سے غریبوں کا بھی بھلا ہو۔الیکشن کے جلسوں اور عالمی فورموں پرصرف قصیدہ پڑھنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ زمینی حقیقت میں تبدیلی ہی اہمیت رکھتی ہے اور اسی سے عوام کی طرز زندگی میں تبدیلی اور خوشحالی آسکتی ہے۔حکومت کو امیر کو مزید امیر اور غریب کو مزید غریب کرنے والی پالیسیوں سے اب قدم پیچھے کھینچ لینا چاہیے اور ایسی معاشی پالیسی وضع کرنا چاہیے جس کے کینوس میں دونوں ہوں۔توازن ہی کسی ملک کی خوبصورتی اور خوبی ہے۔جہاں توازن نہیں ہوتا وہاں محبت کی جگہ نفرت ہوتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS