ناگالینڈ سانحہ کے منفی اثرات

0

عبدالماجد نظامی

جمہوریت میں شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے مسئلہ کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ اسے دستور میں بنیادی حقوق میں شامل کیا گیا ہے۔ ہمارا ملک جو کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے، اس کے لیے ان حقوق کی حفاظت میں زیادہ مستعدی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ تہذیبی، لسانی اور مذہبی تکثیریت والا ملک ہونے کی وجہ سے اس کے خدشات باقی رہتے ہیں کہ کہیںاشتعال کا ماحول نہ پیدا ہو جائے اور قانون کی پاسداری میں کوتاہی کے نتیجہ میں سماج کا توازن بگڑ جائے۔ ناگالینڈ میں جس طرح سے 14 بے قصور شہریوں کی ہلاکت غلط شناخت کی بنیاد پر فوج کے جوانوں کے ذریعہ عمل میں آئی ہے، اس سے ملک کی جمہوریت کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور شمال مشرقی ریاستوں میں صورتحال مزید خراب ہونے کے اندیشوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ناگالینڈ کا مسئلہ حل ہونے کے قریب تھا کہ تبھی یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے۔ اس سانحہ سے ناگالینڈ کا مسئلہ مزید الجھاؤ کا شکار ہوسکتا ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ کے ذریعہ فوج کو جو اختیارات دیے گئے ہیں، وہ ان تمام علاقوں میں شہریوں کے اندر بے چینی کا ماحول پیدا کرتے چلے آرہے ہیں اور اسی لیے بار بار اس کو ختم کرنے کے لیے آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ منی پور کی اروم شرمیلا سولہ برس تک اسی مذکورہ ایکٹ کے خلاف بھوک ہڑتال جاری رکھ کر ملک اور دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ اس قانون کے منفی نتائج کی طرف مرکوز کروانے کی کوشش کرتی رہی تھیں۔ منی پور کی خواتین نے برہنہ ہوکر احتجاج کیا تھا اور اپنے بینر پر یہ لکھ کر کہ ’’ہندوستانی فوج آؤ اور ہماری عصمت دری کرو‘ دراصل اسی حقیقت سے ملک کے باشندوں کو آگاہ کر رہی تھیں کہ اس قانون کا استعمال فوج کے بعض عناصر شہریوں کے حقوق کی پامالی اور ان کی عزت و آبرو کو تار تار کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ اب جب دوبارہ اسی خطہ میں ان 14 بے قصور شہریوں کی ہلاکت کا معاملہ سامنے آیا ہے تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حساس علاقوں میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے وقت ہمارے جوان کیسی سنگین غلطیوں کا ارتکاب کر جاتے ہیں اور ان کے نتیجہ میں جمہوری قدروں کی پامالی ہوتی ہے جس سے دنیا کی توجہ ہماری کوتاہیوں پر مرکوز ہوجاتی ہے۔ ناگالینڈ میں رونما ہونے والے اس جانکاہ سانحہ کی وجہ سے کس قدر بدنامی دنیا بھر میں ہو رہی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نیویارک میں واقع ہیومن رائٹس واچ نے 8 دسمبر کو جاری کیے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مسلح فوج کے ذریعہ ناگالینڈ میں مارے گئے 14 شہریوں کے سانحہ سے اس کی شدید ضرورت پیدا ہوجاتی ہے کہ ہندوستانی حکومت فوری طور پر آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ کو ختم کرے جس کا غلط استعمال ہوتا ہے اور ان جوانوں کو کیفر کردار تک پہنچائے جو اس سانحہ میں ملوث تھے۔ اس سے قبل اسی مہینہ2 دسمبر کو اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم ہیومن رائٹس نے اپنے جنیوا آفس سے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں اس نے کشمیر میں انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز کی گرفتاری پر اپنی فکر مندی ظاہر کی تھی اور حیدرپورہ انکاؤنٹر پر بھی تیکھا تبصرہ کیا تھا۔ ساتھ ہی دہشت گردی مخالف قانون یو اے پی اے کے بیجا استعمال کو بھی آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں ہے بلکہ اس اعتبار سے بھی یہ سانحہ ہندوستان کی شبیہ کو عالمی پیمانہ پر نقصان پہنچا سکتا ہے کہ اسی مہینہ9 اور 10؍دسمبر کو امریکی صدر جوبائیڈن کی دعوت پر وزیراعظم نریندر مودی جمہوریت سے متعلق چوٹی کانفرنس میں حصہ لیں گے۔ اس چوٹی کانفرنس میں دنیا کے 108ملکوں کے سربراہان کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ ان کے علاوہ انسانی حقوق کے دفاع کے لیے سرگرم رہنے والی تنظیمیں بھی اس کانفرنس میں حصہ لیں گی۔ ابھی کشمیر میں انکاؤنٹر کے دوران فوج کے ذریعہ عام شہریوں کے مبینہ قتل کا معاملہ سرد بھی نہیں پڑا تھا کہ ناگالینڈ کا یہ سانحہ سرخیوں میں ہے۔ یہ واقعات ایسے وقت میں رونما ہورہے ہیں جب کہ وہائٹ ہاؤس نے اس کانفرنس سے متعلق یہ اعلان جاری کیا ہے کہ ملک اور بیرون ملک میں افراد اور جماعتوں کے ذریعہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے دفاع کے تئیں ان کی کوششوں کو بھی شامل بحث کیا جائے گا۔ ایسے حالات میں ہمیں عملی طور پر دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم جمہوری قدروں کی پاسداری اور انسانی حقوق کے تحفظ کے تئیں سنجیدہ ہیں ورنہ فریڈم ہاؤس کی اسٹڈیز سامنے آتی رہیں گی جن میں ہندوستانی جمہوریت پر منفی تبصرے کیے جائیں گے۔ یہ ذمہ داری ملک کے قائدین کی ہے کہ وہ ان مسائل کو سنجیدگی سے حل کریں تبھی وشو گرو بننے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو پائے گا۔

ہمیں عملی طور پر دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم جمہوری قدروں کی پاسداری اور انسانی حقوق کے تحفظ کے تئیں سنجیدہ ہیں ورنہ فریڈم ہاؤس کی اسٹڈیز سامنے آتی رہیں گی جن میں ہندوستانی جمہوریت پر منفی تبصرے کیے جائیں گے۔ یہ ذمہ داری ملک کے قائدین کی ہے کہ وہ ان مسائل کو سنجیدگی سے حل کریں تبھی وشو گرو بننے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو پائے گا۔

(مضمون نگار راشٹریہ سہارا اردو کے ڈپٹی گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS